۶؍جنوری ۱۹۹۲ء:چند روز قبل خود کو نیند کی آغوش کے حوالے کرنے کےلئے رات دیر گئے جب پلکوں کو بند کئے بستر پر لیٹا تو کھڑکی سے کمرے میں جھانکتی چاند کی روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی۔ کمرے کو مکمل اندھیرے میں ڈھک دیا۔
EPAPER
Updated: August 25, 2025, 3:42 PM IST | Azmat Iqbal | Malegaon
۶؍جنوری ۱۹۹۲ء:چند روز قبل خود کو نیند کی آغوش کے حوالے کرنے کےلئے رات دیر گئے جب پلکوں کو بند کئے بستر پر لیٹا تو کھڑکی سے کمرے میں جھانکتی چاند کی روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی۔ کمرے کو مکمل اندھیرے میں ڈھک دیا۔
۶؍جنوری ۱۹۹۲ء:چند روز قبل خود کو نیند کی آغوش کے حوالے کرنے کےلئے رات دیر گئے جب پلکوں کو بند کئے بستر پر لیٹا تو کھڑکی سے کمرے میں جھانکتی چاند کی روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی۔ کمرے کو مکمل اندھیرے میں ڈھک دیا۔ پلکیں بند کئے بستر پر لیٹا توکچھ ہی پلوں میں الگ الگ چہرے روشنی کے ہیولوں کی شکل میں سامنے آنے لگے۔ کچھ خوبصورت، کچھ بہت خوبصورت تو کچھ انتہائی کریہہ، بدصورت۔ یہ چہرے دیر تک میری صحبت کا حصہ رہے اور تب سے یہ چہرے شب کی تنہائی میں میرے اردگرد جمگھٹ کی شکل میں اکٹھا ہوجاتے ہیں۔ اب تو ہمارے درمیاں شناسائی ہو گئی ہے۔ ہر شب ایک چہرہ مجھے اپنی داستاں سناتا ہے۔ خوبصورت چہروں کی داستاں بڑی کربناک ہوتی ہے۔ خوفزدہ کردینے والے چہروں کی کہانیاں نانی اماں کی کہانیوں کی طرح ہوتی ہے۔ کہانی ختم ہونے سے قبل ہی کسی پل میں اپنے وجود سے بے خبر ہو جاتا ہوں۔
۱۲ جنوری۱۹۹۲ء: آج اس سے الگ ہوئے پورا ایک برس گزر گیا ہے۔ اس کے بغیر جینے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں۔ ماضی کی ان کربناک یادوں کو لاشعور کی گہرائی میں دفن کر چکا ہوں۔ گزرتے وقت کے ساتھ روح پر لگے زخم ناسور ہوئے جا رہے ہیں۔
۱۵جنوری ۱۹۹۲ء: آج ڈاکٹر نے آخری وارننگ دے دی۔ نشہ کرنا چھوڑ دو یا دوائی لینا بند کردو۔ ڈاکٹر جب کبھی ڈانٹنے کے انداز میں تنبیہ کرتا ہے تو مجھے ماں یاد آجاتی ہے۔ ایک ماں ہی تھی جو مجھے سمجھتی تھی۔ وہ بھی بچپن میں مجھے سخت دل باپ کے حوالے کر چلی گئی۔ دوسری ماں کا سلوک مجھ سے اچھا ہی رہا لیکن ناجانے کیوں وہ میرے لئے ہمیشہ سوتیلی ہی رہی۔
۲۲ جنوری ۱۹۹۲ء: روزانہ شام ہائی وے کے اس پار ٹیلے پر بیٹھا کرتا ہوں ۔ ٹیلے کے پچھلے حصے کو سوسائیڈ پوائنٹ کہا جاتا ہے۔ ٹیلے کے اس حصے میں سیدھی ڈھلان ہے جو گہرے تالاب میں جا کر ختم ہوتی ہے۔ زندگی سے مایوس لوگوں کو تالاب کا پرسکون پانی اپنی گہرائی میں سمو لیتا ہے۔ اکثر روح سے آزاد جسم تالاب میں موجود مچھلیوں کی غذا بن جاتے ہیں۔ چند روز پہلے میں بھی اسی مقصد سے اس جگہ آیا تھا۔ جانے کونسی طاقت ہے جو انسان کو اپنے فیصلے بدلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مگر یہ طے ہے کہ میرا جسم کبھی نا کبھی ان آدم خور مچھلیوں کی غذا بنے گا۔ پچھلے چند دنوں سے میں اس جگہ پابندی سے جاتا ہوں۔ ٹیلے کے مشرقی سمت میں رکھے بینچ پر بیٹھ کر نیچے شاہراہ پر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ پھر جب سورج اپنی بوجھل کرنوں کو سمیٹ کر پلک بند کرلیتا ہے اور منظر سیاہی اوڑھنے لگتا ہے تو لوٹ آتا ہوں۔
۲۷ جنوری ۱۹۹۲ء: آج شام ایک واقعہ پیش آیا۔ آج تھوڑی فاصلے پر رکھی بینچ پر ایک عورت کو بیٹھا پایا۔ اکثر میری طرح تنہائی پسند لوگ وہاں آکر بیٹھا کرتے ہیں۔ مگر نا جانے کیوں اس عورت نے میرا دھیان اپنی جانب کھینچ لیا۔ مجھے محسوس ہوا وہ رو رہی ہے۔ پھر وہ اٹھی اور ٹیلے کے کنارے مشرقی حصے میں جا کر کھڑی ہوگئی۔ شاید وہ فیصلہ کر چکی ہے۔ زندگی کے کرب سے نجات کا، اپنی روح کو آزاد کرنے کا۔ میں اٹھ کر تیز قدموں سے چلتا ہوا اس کی جانب بڑھا۔ قدموں کی آہٹ سن کر وہ پیچھے مڑی۔ میں اس کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ اسے ہیلو کہا۔ وہیں کھڑے رہ کر کافی دیر ادھر ادھر کی باتیں کر کے اس کے ذہنی اضطراب کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔ اپنی اس کوشش میں میں کامیاب رہا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اگر میں وہاں نا ہوتا تو وہ اس کی زندگی کی آخری شام ہوتی۔
۳۰ جنوری ۱۹۹۲ء: اس جگہ ہم روزانہ ملنے لگے ہیں۔ جب میں وہاں پہنچتا ہوں تو اسے بینچ پر بیٹھا ہوا پاتا ہوں۔ اس بیچ پر اس نے اپنے متعلق بہت کچھ نہیں بتایا۔ شاید اسے میری باتیں سننا اچھا لگتا ہے۔ آج میں نےاسے والٹ وہائٹ مین اور ولیم ورڈس ورتھ کی پوئٹری سنائی۔ وہ بڑے انہماک سے سنتی رہی۔
۲؍ فروری ۱۹۹۲ء : پچھلے دو روز سے وہ نہیں آئی۔ حالانکہ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے لیکن جانے کیوں عجب سی بے چینی محسوس ہو رہی ہے۔ مجھے خود پر غصہ آرہا ہے۔ مجھے اس سے کچھ تو بات کرنی چاہئے تھی۔ اس کے بارے میں جان لینا چاہئے تھا۔ اس کانام، پتہ، شاید وہ کسی دوسرے شہر سے ہو۔ وقتی طور پر یہاں آئی ہو اور اب واپس چلی گئی ہو۔
۵ ؍فروری۱۹۹۲ء: آج جب میں ٹیلے پر پہنچا تو اسے بیٹھا ہوا پایا۔ اسے دیکھ کر نہ جانے کیوں آنکھوں میں ٹھنڈک سے محسوس ہوئی۔ آج میں نے پہلی دفعہ اس سے دیر تک باتیں کی۔ اس کا نام مایا ہے۔ اس کی پسند نا پسند مجھ سے بہت ملتی ہے۔ وہ بھی میری طرح تنہائی پسند ہے۔ اسے شاعری کے ساتھ مصوری کا بھی شغل ہے۔
۷ ؍فروری ۱۹۹۲ء:ہم میں قربت سی ہو گئی ہے۔ شام میں پابندی سے ملتے ہیں۔ میں نے اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں محسوس کی ہیں۔ میری زندگی میں آنے والے یہ خوشگوار لمحے ماضی کے کرب پر حاوی ہو گئے ہیں۔ پرانے زخم بھرنے لگے ہیں۔ کافی عرصے بعد گہری نیند سونے لگا ہوں ۔ اب صحت میں کافی سدھار محسوس ہو رہا ہے۔ کاش وہ مجھ سے بہت پہلے ملی ہوتی۔ ہم اچھے دوست بن چکے ہیں ۔ کیا دوستی سے آگے بڑھ کر اس رشتے کو کوئی اور شکل دی جا سکتی ہے۔ فیصلہ حالات پر چھوڑ دیتے ہیں۔
۱۰؍فروری ۱۹۹۲ء:آج اس کی مسحور کن آنکھوں کی گہرائی میں خود کو مقید پایا۔ آسمان ابر آلود تھا۔ پراسرا ر، کئی گہرے راز سے بھرا ہوا۔ ہوا سرگوشی کر رہی تھی۔ اس کے نازک لبوں کی کھنک میرے کانوں میں رس گھولتی رہی۔ میں اسے نہارتا رہا، نہارتا رہا۔ خیال آیا کہ اس دلفریب منظر کو قید کرلوں۔ عرصے بعد دل میں ایک تصویر بنانے کی خواہش جاگی۔ یہ میری جانب سے اس کیلئے ایک خوبصورت سا تحفہ ہوگا۔ اظہار محبت کا ماخذ۔
۱۲؍ فروری۱۹۹۲ء: دو روز اس تصویر کو بنانے میں اپنے پورے ہنر کا استعمال کیا۔ آج تصویر مکمل ہوگئی ہے۔ مجھے صحیح وقت کا انتظار ہے جب میں اس تصویر کو اسے گفٹ کرونگا۔ مجھے یقین ہے وہ میر ے فنِ مصوری کی قائل ہو جائےگی۔
ڈیوڈ کی پرسنل ڈائری کا یہ آخری صفحہ تھا۔ پچھلے ہفتے شام ڈھلے، چہل قدمی سے واپس لوٹتے وقت ایک کار نے اسے پیچھے سے ٹکر ماردی۔ اسپتال پہنچنے سے قبل ہی اس کی موت ہوگئی تھی۔ ڈیوڈ کمپنی میں میرا ہم عصر تھا۔ میں کمپنی کی اس تین رکنی کمیٹی کو لیڈ کر رہا تھا جو کمپنی کے ضروری کاغذات کی تلاش میں اس کے گھر آئی ہوئی تھی۔ اس کا دور کا ایک رشتہ دار ہمارے ساتھ تھا اسی نے اس کی آخری رسومات ادا کی تھی۔ میں نے بے دلی سے ڈائری سوٹ کیس میں رکھی اور دوسرے سامان کی طرف متوجہ ہوا۔ دراز کھول کر فائلیں نکالنی شروع کیں۔ آخری فائل دراز سے نکالی تو اس کے نیچے ایک اسکیچ نظر آیا۔ اسکیچ میں ڈیویڈ کا چہرہ بڑا پرسکون نظر آرہا تھا۔ ہاں مگر اس کی نیلی گہری آنکھوں میں غور سے دیکھنے پر میں نے کرب کی ایک لہر سی محسوس کی۔ تصویر کے نیچے تحریر تھا’’ مایا مائی لائف۔ ‘‘ ۱۲ فروری ۱۹۹۲ء۔