ایک نہایت جذباتی اور پُراثر عربی مضمون جو ایک بیٹے کی اپنی ماں کے ساتھ گزرے لمحوں، قربانیوں، اور محبتوں کو بیان کرتا ہے۔ اس میں مصنف نے اپنی ماں کی ’’پانچ جھوٹی باتوں ‘‘ کا ذکر کیا ہے جو درحقیقت اس کی ممتا، قربانی اور پیار کی انتہا تھیں۔
EPAPER
Updated: September 28, 2025, 12:18 PM IST | Muhammad Tauqeer Rahmani | Mumbai
ایک نہایت جذباتی اور پُراثر عربی مضمون جو ایک بیٹے کی اپنی ماں کے ساتھ گزرے لمحوں، قربانیوں، اور محبتوں کو بیان کرتا ہے۔ اس میں مصنف نے اپنی ماں کی ’’پانچ جھوٹی باتوں ‘‘ کا ذکر کیا ہے جو درحقیقت اس کی ممتا، قربانی اور پیار کی انتہا تھیں۔
پہلا جھوٹ
اُس دن کڑاکے کی ٹھنڈ تھی۔ صبح جب میں نیند سے بیدار ہوا تو اپنی ماں اور بہن بھائیوں کو تلاش کرتا ہوا صحن کی طرف نکلا۔ گھر میں عورتوں کا ہجوم تھا۔ سب سیاہ کپڑوں میں ملبوس تھیں، اور ان کے نوحوں سے فضا گونج رہی تھی۔ ان کی اس آہ و بکانے میرے دل کو مضطرب کردیا، چہرے پر مایوسی اور خوف کے اثرات نمایاں ہونے لگے۔ آ و بکا کا یہ خوفناک ماحول گویا اب بھی میرے ذہن پر نقش ہے حالانکہ اُس وقت مَیں بہت چھوٹا تھا۔ —خوف کی لکیریں، آسمان جیسی گہری خاموشی، اور خیالوں کا ہجوم! مجھے لگا جیسے میں کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں۔ گھبرا کر مَیں ابو کے کمرے کی طرف بھاگا۔ حسب ِ معمول دروازے پر ابا کا جوتا رکھا ہوا تھا۔ میں چھلانگ لگاتا ہوا اندر گیا کہ شاید بستر پر مل جائیں مگر وہ وہاں نہیں تھے۔ کمبل تھا، تکیہ تھا، وہ نہیں تھے۔ سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ میں نے جوتے اٹھائے اور صحن میں آ گیا۔
وہاں موجود تمام عورتوں کی آنکھوں میں حیرت بھی تھی اور ترس بھی۔ میں ان نگاہوں کی پروا کئے بغیر اپنی ماں کو تلاش کرتا رہا۔ آخرکار ماں نظر آئی۔ وہ گھبرا کر اپنی جگہ سے اٹھی، مجھے باہوں میں بھر لیا۔ جوتے اب بھی میرے ہاتھوں میں جھول رہے تھے۔ وہ مجھے کمرے کے اندر لے گئی اور لرزتی ہوئی آواز میں کچھ کہنا چاہتی تھی، تب ہی میں نے سوال داغ دیا: ’’ابا کہاں ہیں ؟ “ ماں نے بالکل ہلکی آواز میں، گویا حلق میں آنسوؤں کا پھندا ہو، جواب دیا:’’وہ واپس آئینگے۔ “ میں نے ضد کی: ’’تو پھر جوتے کیوں چھوڑ گئے؟ کوئی آدمی اپنے جوتے گھر چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے؟‘‘
ماں خاموش ہو گئی۔ اُس نے میرے ہاتھوں سے جوتے لے کر الماری میں رکھ دیئے۔ مگر میں معصوم ضد کے ساتھ الماری کھول کر دوبارہ انہیں دروازے کے پاس رکھ آیا۔ انہوں نے مجھے اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا۔ ان کا رونا اور بھی تیز ہو گیا۔ میں نے اپنے چہرے پر ان کے آنسوؤں کی تپش محسوس کی۔ لیکن پھر اچانک وہ آنسو پونچھ کر مصنوعی خوشی کے ساتھ بولیں : ”بیٹے، تمہارے ابا تیونس کے دارالحکومت گئے ہیں، کام کے سلسلے میں، جلد واپس آئیں گے اور یہی جوتے پہنیں گے۔ “ مگر ابا کبھی نہیں لوٹے۔
یہ ماں کا پہلا جھوٹ تھا۔
دوسرا جھوٹ
صبح کی تاریکی کی سچی ساتھی، وہ ہمیشہ چیلنج اورمصائب کے خلاف بادلوں کی طرح ہمارے گھر پر سایہ فگن رہی۔ ہمارے وسیع گھر میں جب مَیں اپنے چچا زاد بھائی بہنوں کے ساتھ کھانے پر بیٹھتا تو لکڑی کے بڑے تھال پر ہاتھوں کی جنگ برپا ہو جاتی۔ ایسے میں ماں ہمیشہ میری کم عمری اور کمزوری کا بہانہ بنا کر میرے لئے الگ پلیٹ نکال دیتی۔ اگرچہ چچی کے چہرے پر ناگواری صاف جھلکتی، مگر ماں ہر بار یہی کرتی۔ میری رکابی میں دو بوٹیاں رکھ کر وہ میرے ساتھ کھانے لگتی۔ لیکن ہمیشہ گوشت کی ساری بوٹیاں میری پلیٹ میں ڈال کر خود کہتیں : ’’مجھے گوشت پسند ہی نہیں۔ “
ایک دن کھانے میں مرغ مسلّم تھا۔ ماں نے حسبِ عادت وہی دو ٹکڑے میری طرف بڑھا دیے اور وہی جملہ دہرایا۔ کھانے کے بعد وہ برتن دھونے چلی گئی۔ میں اُدھر سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مرغی کی ران کی ہڈی پکڑے اس پر لگا ہوا گوشت چبا رہی ہے۔ یہ دیکھ کرمیری تو جیسے جان ہی نکل گئی مگر ماں مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بڑے سکون سے بولی: ”بیٹا، مرغی کا گوشت میرے معدے کو تکلیف دیتا ہے۔ تمہیں چاہئے کہ مجھے اس سے منع کیا کرو، کہیں بیمار نہ پڑ جاؤں۔ “یہ کہہ کر وہ پھر برتن دھونے لگی۔
یہ تھا اس کا دوسرا جھوٹ!
تیسرا جھوٹ
”چودہ… چودہ… چودہ… چودہ…“
یہی وہ عدد تھا جسے دہراتا ہوا میں دوڑتا چلا جا رہا تھا۔ خوشی کے مارے قدم زمین پر ٹک ہی نہیں رہے تھے۔ گرمی سخت تھی، پسینہ بہہ رہا تھا مگر میرے اندر ایک طوفانِ مسرت برپا تھا۔ میں بےتابی سے دوڑتا رہا کہ جلدی سے گھر پہنچ کر ماں کو خوشخبری دوں، اس کے سامنے جھومتا ہوا وہ جادوئی نمبر دہرا دوں جو کبھی نہ بھولے گا۔ مَیں دروازہ کھول کر اندر گیا۔ دور سے ماں دکھائی دی۔ وہ کزنز کے ساتھ اون کا قالین بُن رہی تھی۔ میں نے زور سے پکارا:’’امی! میں کامیاب ہو گیا۔ چودہ نمبر! میں ہماری پوری فیملی میں سب سے آگے نکل گیا۔ میں نے پرائمری پاس کر لیا امی! میں کامیاب ہو گیا!“
لیکن ماں وہیں بیٹھی رہی۔ اُس کی نظریں دھاگوں پر جمی تھیں۔ لگا جیسے میری آواز اُس تک پہنچی ہی نہیں۔ میں نے پھر کہا: ”امی! میں کامیاب ہو گیا۔ چودہ نمبر!“
تب اُس نے نگاہ اٹھائی اور بڑی سختی سے بولی: ”تمہارے ماموں کو فوت ہوئے ایک مہینہ ہوا ہے۔ میں نہ تو خوشی منا سکتی ہوں نہ کچھ خرید سکتی ہوں۔ تمہاری کامیابی پر اگر جشن مناؤں تو لوگ کیا کہیں گے؟“
اُس کے الفاظ خنجر کی طرح دل میں اتر گئے۔ میرے ننھے دل پر غم کا بوجھ یوں ٹوٹا کہ جیسے ساری دنیا تاریک قید خانے میں بدل گئی ہو۔ میں کچھ نہ بول سکا، خاموشی سے اُس کے پاس جا بیٹھا۔ شام کے وقت ماں نے مجھ سے کہا کہ میں گھر ہی میں رہوں، وہ ممانی کی خیریت معلوم کرنے جا رہی ہے۔ میں نے بہت دیر انتظار کیا۔ اندھیرا چھا گیا مگر وہ نہ لوٹی۔ دل کی دبی ہوئی خوشی بھی ساتھ ساتھ بجھتی گئی۔ آخرکار تھکن سے بوجھل آنکھیں بند کر کے مَیں سو گیا تو خواب میں دیکھا کہ ہمارے گھر بڑی محفل سجی ہے۔ ابا موجود ہیں۔ ان کے پاؤں میں وہی سیاہ چمکدار جوتے ہیں۔ ان کا چہرہ برف کی طرح سفید اور بال سیاہ تھے۔ میں اس خواب میں گم تھا کہ اچانک منظرنامہ بدلا اور اندھیری رات میں، جب سب بھائی بہن سو چکے تھے، کسی نے میرے کندھے کو آہستہ سے ہلایا۔ آنکھ کھلی تو ماں سامنے تھی۔
اُس نے مجھے سہارا دے کر اٹھایا اور اپنے کمرے میں لے گئی۔ مجھے اپنے بستر پر بٹھایا۔ پھر پلنگ کے نیچے سے کھجور کی پتیوں کی ایک ٹوکری نکالی۔ اس میں سے ایک بڑی بوتل کوکاکولا کی، دو ٹکڑے مٹھائی کے اور دو رنگین غبارے نکالے۔ اُس کے چہرے پر خوشی کی لہر تھی۔ اُس نے ایک غبارہ پھلایا، پھر اچانک چھوڑ دیا۔ وہ عجیب سا مزاحیہ شور مچاتا ہوا ہوا میں اڑنے لگا۔ ماں ہنسی اور مجھے بانہوں میں بھر کر بولی: ”مبارک ہو میرے لال! میری جان!“
اس رات ہم نے اکیلے ہی جشن منایا۔ مَیں ماں کے بستر پر سو گیا، سکون اور محبت کی چھاؤں میں۔
یہ تھا ماں کا تیسرا جھوٹ!
چوتھا جھوٹ
وہ اس دن بھی مجھے دنیا کی سب سے حسین عورت لگی۔ اگرچہ اس کے بال جھڑ چکے تھے، گالوں کی ہڈی ابھری ہوئی تھی، چہرے پر بیماری کی سیاہی چھائی ہوئی تھی اور مسکراہٹ کے پیچھے دانتوں کی جگہ صرف کالی جڑیں باقی رہ گئی تھیں۔ لیکن میرے لئے وہ اب بھی میری ماں تھی، وقار اور حسن کا پیکر۔ کیموتھراپی کے کڑے مراحل سے گزرتی، وہ ہر صبح صفاقس کے فارابی اسپتال میں میرے سامنے ہوتی۔ میں اس کا چہرہ دھوتا، سر پر سبز دوپٹہ باندھتا، ناز اٹھاتا، ناشتہ کرواتا، اور ہم دونوں ’’صُلیحہ‘‘ کے دیہاتی گیت سنتے، وہی پرانے نغمے جنہیں ماں بہت پسند کرتی تھی:
’’غزالی کی فرقت میں آنکھیں اشکبار ہیں …‘‘
میں خوش مزاجی دکھاتا، جیسے ہمارے بیچ غم کا کوئی سایہ نہ ہو۔ اور ماں میری ہر ادا کو دیکھ کر مسکرا دیتی۔
پہلا دن تھکا دینے والا تھا۔ ٹیسٹ، انجکشن، اسکین۔ شام تک وہ بالکل نڈھال ہو گئی۔ میں نے سہارا دے کر اسے بستر تک پہنچایا۔ رات کو نرس نے بتایا کہ اگر امی کو واش روم جانا ہو تو قریب والے بٹن کو دبا دیں، وہ فوراً آ جائیگی۔ میں نے ماں کو تسلی دی، پانی پاس رکھا اور خود بھی بستر پر گر پڑا۔ تھکن کی وجہ سے گہری نیند سو گیالیکن رات کے کسی پہر ایک ہلکی سی آہٹ سے آنکھ کھلی۔ واش روم کی مدھم روشنی جھانک رہی تھی۔ میں بھاگا تو دیکھا ماں وہاں بیٹھی ہے، بالکل ناتواں، نہ بیٹھنے کی طاقت ہے نہ اٹھنے کی۔ اُس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں، جیسے مجھ سے نظریں ملانے کا حوصلہ نہ ہو۔ میں نے اُسے ایسے سہارا دیا جیسے کوئی ننھی بچی ہو۔ آہستہ آہستہ صفائی کی، کپڑے درست کیے، پھر آہستہ سے بستر پر لٹا دیا۔ اس کا دوپٹہ درست کیا، تکیہ سنوارا، چادر اوپر تک کھینچی، اور خاموشی سے واپس آگیا۔ میں نے رخ پھیر کر اپنے رونے کو تکیے میں چھپا لیا، جسم کو ہلنے نہ دیا کہ وہ محسوس نہ کر سکے۔ مگر ماں نے پھر بھی میرا حال بھانپ لیا۔ وہ مدھم، ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی: ”میں نے بٹن نہیں دبایا، نرس کو تکلیف دینا اچھا نہیں لگا، تمہیں بھی کئی بار پکارا، مگر تم بہت گہری نیند سو رہے تھے۔ “
اور یہ تھا اس کا چوتھا جھوٹ!
پانچواں جھوٹ
اس تپتی ہوئی صبح میں، جب امّی کو اسپتال سے لوٹے ایک مہینہ ہونے کو تھا، میں گلے کے درد اور متلی کی کیفیت کے ساتھ بیدار ہوا۔ میں اُس کے کمرے میں گیا تو دیکھا کہ وہ بستر پر بیدار پڑی ہے۔ بستر کے قریب ان کی پرانی بھوری جوتی رکھی تھی جو والد نے جوانی کے دنوں میں فرانس سے لاکر دی تھی۔ اس نے خاموشی سے میری طرف دیکھا اور آہستہ سے کہا کہ وہ الماری کے کپڑوں کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کے جوتی نکالنے پر اعتراض کیا تو وہ ایک تھکی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ بولی: ”جب میں ٹھیک ہو جاؤں گی، تو یہی پہنوں گی۔ “
یہ بات اُس نے بہت دھیمے لہجے میں کہی۔ مجھے لگا کہ وہ کل سے زیادہ نڈھال ہے۔ میں حسبِ عادت اس کے بستر کے کنارے بیٹھ گیا، گیلا کپڑا لے کر اس کا چہرہ صاف کیا، بستر اور کپڑوں کو درست کیا۔ ہرچند کہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی مگر مَیں اُس کی بھاری سانسوں کو محسوس کررہا تھا۔ اُس نے میرا ہاتھ تھاما، جیسے مجھے تسلی دے رہی ہو۔ پھر بولی: ”تمہیں اپنی پھوپھی کے بیٹے کی شادی میں جانا چاہئے۔ وہ کینیڈا سے آیا ہے، یہاں کسی کو نہیں جانتا، تمہاری ضرورت ہوگی۔ “
میں خاموش رہا تو وہ اصرار سے کہنے لگیں : ”جاؤ بیٹا، شادی میں چلے جاؤ۔ واپس آؤ گے تو تمہیں ایک وصیت سناؤں گی۔ “
یہ سن کر میں گھبراگیا، بولا:”وصیت!؟“
اُس نے دھیرے سے کہا: ”ہاں، کچھ باتیں تمہارے بہن بھائیوں کے بارے میں ہیں، تم ابھی جاؤ، لوٹوگے تو سب بتاؤں گی۔ “اس کے جملوں میں تھکن بھی تھی اور دواؤں کی جلن بھی۔ میں نے اس کا تکیہ درست کیا، اسے گلے سے لگایا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔
دوپہر کو واپس آیا تو وہ سو رہی تھی۔ میرے گلے کی جلن بڑھ کر اس قدر شدید ہو چکی تھی کہ ایک گھونٹ پانی بھی حلق سے نہ اترتا تھا۔ میں اُس کی بیداری کا منتظر رہا۔ اُس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں، مگر نقاہت اتنی تھی کہ اٹھ نہ سکی۔ میں نے سہارا دیا، نگاہوں کے اشارے سے سمجھا کہ بیت الخلا جانا چاہتی ہے۔ چھوٹا بھائی ساتھ ہوا، اور ہم دونوں نے اس کے کمزور وجود کو تھامنے کی کوشش کی۔ میں نے چاہا کہ گود میں اٹھا لوں مگر اُس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ اُس کی ہڈیوں میں گویا دواؤں نے زہر گھول دیا تھا، بیماریوں نے بدن کو بالکل توڑ دیا تھا۔ بمشکل اُسے واپس بستر پر لایا۔ اُس میں نہ تو بولنے کی سکت تھی نہ حرکت کرنے کی۔
رات کے آٹھ بجے اُس کے پاؤں میں ٹھنڈک اترنی شروع ہوئی۔ میں نے گھبرا کر گاڑی نکالی اور بڑی خالہ کو لانے دوڑا۔ سردی گویا اُس کے وجود کو نگل رہی تھی۔ اسی وقت میرا گلا بھی جواب دینے لگا، جیسے سانس رک گئی ہو۔ بدن کانپنے لگا، اعضا پر قابو نہ رہا۔ میں فرش پر بیٹھا ان دھندلی پرچھائیوں کو دیکھ رہا تھا جو مجھے کسی اور جہاں سے آتی محسوس ہوتی تھیں۔ خالہ، امی کا سر گود میں لئے بیٹھی تھیں، ان کے لبوں پر بوند بوند پانی ٹپکا رہی تھیں۔ فجر کی اذان ہوئی تو خالہ نے کہا: ”بیٹا، ذرا تم تھام لو، میں نماز پڑھ آؤں۔ “ میں نے نفی میں سر کو جنبش دی کیونکہ مجھ میں اتنی تاب نہیں تھی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میرا کوئی حصہ مجھ سے الگ ہو رہا ہے۔ اور پھرسخت گرمی میں اچانک ٹھنڈ لگنے لگی۔ میں کھڑا تھا، گم صم، جیسے پاگل۔ خالہ کا رخ میری جانب ہوا۔ ماں کے چہرے پر موت کی سفیدی پھیلی ہوئی تھی۔ میں زمین پر نڈھال ہوکر گرگیا۔ یہی کیفیت رہی، پھر ایک دن جو جمعہ تھا، ماں نے آخری سانس لی اور اپنی وصیت اپنے ساتھ لئے ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئی۔
اب وہ اس دُنیا میں نہیں تھی مگر ہر صبح مَیں اُس کے کمرے میں جاتا، بس یہ دیکھنے کیلئے کہ شاید وہ وہیں ہو۔ تیسرے دن جب مَیں اس کے بستر کے قریب ہی بیٹھا تھا کہ اچانک میری نگاہ اُس کی پرانی بھوری جوتی پر جا ٹکی۔ مَیں نے اس پر جمی مٹی جھاڑی، اُسے اٹھایا اور کمرے سے باہر لے آیا اور اپنی الماری کے اُسی صندوق میں رکھ دیا جس میں پہلے سے ایک سیاہ جوتا رکھا ہوا تھا۔
ماں نہیں ہے پھر بھی مَیں انتظار کرتا رہتا ہوں کیونکہ اُس نے کہا تھا : ’’جب لوٹو گے تب بتاؤں گی۔ ‘‘
یہ تھی اُس کی پانچویں جھوٹی تسلی…!
اللہ اُسے اپنے سایۂ رحمت میں رکھے، وہ اتنی عظیم تھی کہ اس فانی دنیا میں مزید کچھ عرصہ رہ سکتی تھی۔