آج کا دِن (۱۴؍ستمبر کو ) ہندی دِوس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے یہ مضمون ملاحظہ فرمائیں جو ۲۱؍ برس پہلے شائع ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ دو دَہائیوں کے عرصہ میں ہندی غزل نے قابل قدر پیش رفت کی ہے۔
EPAPER
Updated: September 14, 2025, 11:56 AM IST | Dr Naresh
آج کا دِن (۱۴؍ستمبر کو ) ہندی دِوس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے یہ مضمون ملاحظہ فرمائیں جو ۲۱؍ برس پہلے شائع ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ دو دَہائیوں کے عرصہ میں ہندی غزل نے قابل قدر پیش رفت کی ہے۔
اردو غزل کی مقبولیت سے متاثر ہو کر یوں تو ہندوستان کی تقریباً سبھی زبانوں میں غزل کہنے کی کوشش کی گئی لیکن ہندی میں صورت ِ حال کچھ مختلف ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں ہندی میں نہ صرف غزل کہنے کا رواج شعراء میں عام ہوا بلکہ غزل پر اچھی خاصی تحقیق بھی ہوئی اور بعض ایسے رسالے بھی سامنے آئے جنہوں نے غزل گوئی کو ایک تحریک کے طور پر پیش کیا گیا۔ بعض محققین نے ہندی غزل کی ابتداء حضرت امیر خسرو کی غزلوں سے کرتے ہوئے کبیرؔ کے کلام میں بھی غزل تلاش کی ہے اور پیارے لاش شوقیؔ کو درمیانی کڑی بناتے ہوئے اس سلسلے کو بھارتیندو ہریش سے جوڑ دیا ہے۔ اس کے برعکس بعض محققین نے دورِ جدید تک کی ہندی غزل کو غزل گوئی کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے اسے اردو غزل کی نقل گردانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت امیرخسرو ہندی کے نہیں بلکہ ہندوی زبان کے شاعر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے تاریخ دانِ ادب نے یکساں طور پر اپنا حق جتایا ہے۔ ہمارے خیال میں حضرت امیر خسرو کو ہندی غزل کا موجد قرار دینا غلط ہوگا۔ ان کی جن غزلوں کی بنا پر ان کو ہندی کا اولین غزل گو شاعر قرار دیا جارہا ہے، ان کے اشعار کا ایک ایک مصرع تو فارسی کا ہے! جہاں تک کبیرؔ کا تعلق ہے، ظاہر ہے کہ کبیرؔ نے غزل کہنے کے لئے غزل نہیں کہی ہوگی بلکہ فارسی غزل سے متاثر ہوکر اپنی بعض تخلیقات کو غزل کی طرز پر رقم کیا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کبیرؔ کی غزلوں میں غزل کی بنیادی شرطوں، خاص طور پر ہر شعر کا مضمون کے اعتبار سے ایک مکمل اکائی ہونا، کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ جہاں تک ہندی غزل کی تاریخ مرتب کرنے کا تعلق ہے تو نہ تو حضرت امیر خسرو (۱۳۲۵ء۔ ۱۲۵۳ء) اور کبیر (۱۴۹۴ء تا ۱۳۹۸ء) کے درمیان ڈیڑھ صدی کے ادب میں غزل دکھائی دیتی ہے اور نہ کبیرؔ اور بھارتیندو (۱۹۰۵ء تا ۱۸۷۰ء) کے بیچ کی پانچ صدیوں کے ادب میں نظر آتی ہے۔
ہاں، بھارتیندو کے زمانے میں غزل کہنے کی کوششیں ضرور ہوئی ہیں۔ بھارتیندو اور ان کے ہم عصر ہندی شعراء نے اردو غزل کا ٹھاٹھ اور اردو شاعروں کی دھوم دیکھی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ بھی اردو شعراء کی طرح غزل کہہ سکتے ہیں۔ غالباً وہ اپنے معاصر اردو شعراء کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم تم سے کم نہیں ہیں، ہم بھی غزل کہہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان شعراء نے تخلص رکھ کر غزلیں کہی ہیں حالانکہ ہندی شاعری کیلئے ان کو تخلص کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ بھارتیندو نے رساؔ تخلص اختیار کیا تو بدری نارائن چودھری نے پریم کھنؔ کو ابرؔ میں تبدیل کردیا۔ ان شعراء نے اپنی غزلوں میں نہ صرف اردو کے ٹھاٹھ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے بلکہ موضوعات بھی معاصر اردو غزل ہی سے مستعار لئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ تو خود بھارتیندو ہی ایسی غزل کہہ پائے جسے اردو غزل کے مقابلے میں پیش کیا جاسکے اور نہ ان کے زمانے کا کوئی دوسرا شاعر ہی معیاری غزل تخلیق کرسکا۔ بھارتیندوؔ کے بارے میں رام ولاس شرما کا یہ خیال غلط نہیں ہے کہ ’’غزل کہنے والوں میں جو بڑے ہیں بھارتیندوؔ ان سے چھوٹے ہیں۔ مثال کے طور پر دو اشعار دیکھئے:
سجدے سے گر بہشت ملے دور کیجئے
دوزخ ہی سہی سر کا جھکانا نہیں اچھا
(بھارتیندو رساؔ)
کوچۂ دلدار سے بادِ صبا آنے لگی
زلف ِ مشکیں رخ پہ بل کھا کھا کے لہرانے لگی
(بدری نارائن ابرؔ)
زبان کی رو سے مندرجہ بالا دونوں اشعار کو ہندی کے اشعار نہیں کہا جاسکتا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی غزل کو ہم ہندی غزل کی ابتداء قرار نہیں دے سکتے۔ متعدد محققین نے بھی بھارتیندو کے زمانے کی غزل گوئی کو اردو کی بحروں سے متاثر ہندی شاعری قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر سدھیندر کے مطابق ’’اس زمانے کے شعراء اردو کی بحروں سے متاثر ہوئے۔ بھارتیندو اور پرتاپ نارائن مشر نے اس کی ابتداء کی تھی۔ اس زمانے میں ہری ادوھ، دین، سنیہی وغیرہ نے خاص طور پر اس میں دلچسپی دکھائی۔ یوں اس فن میں ہاتھ سبھی نے دکھائے ہیں۔ ‘‘ ایودھیا سنگھ اپادھیائے بھی قبول کرتے ہیں کہ ’’اس صدی کے نصف اول میں بھارتیندو بابو ہریش چندر اور شریمان پنڈت پرتاپ نارائن مشر نے اردو بحروں میں اچھی تخلیقات پیش کی ہیں۔ پرانے شعراء میں محترم پریم گھن اور شریمان بابو بال مکند گپت کی ہندی تخلیقات بھی اردو بحروں میں پائی جاتی ہیں۔ ‘‘
غزل کہنے کی کوششیں مہاویر پرساد دویدی کے زمانے میں بھی ہوتی رہیں۔ شری دھرپاٹھک، ایودھیا سنگھ، ہری اودھ، ناتھو رام شنکر شرما جیسے شعراء نے اپنی صلاحیت کے جوہر دکھائے لیکن نتیجہ وہی رہا جو بھارتیندو کے دور میں ہوئی کوشش کا رہا تھا۔ ایسے تو میتھلی شرن گپت نے بھی ’’بھارت بھارتی‘‘ کی آخری نظم کو غزل بنانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ بقول ہردیال ’’اس زمانے میں جن لوگوں مثلاً شری دھرپاٹھک، گوپال شرن نیپالی، لالہ بھگوان دین، منّن دویدی، مادھو شکل، ستیہ نارائن، کویرتنی نے غزلیں کہیں، انہو ں نے بھی قافیہ ردیف کے علاوہ دیگر تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھا۔
چھایاواد کے دور میں جے شنکر پرساد غزل کے اسلوب کو ملحوظ رکھ کر نظمیں کہتے ہیں (مثلاً ’بھول‘ عنوان کی نظم) اور کسی حد تک اردو بحروں کے استعمال میں کامیاب ہوکر میدان غزل گوئی میں قدم رکھتے ہیں۔ ان کی ایک غزل ۱۹۱۳ء میں ’’اندو‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ ’’کانن کسم‘‘ میں ’’سروج‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ نظم میں بحروں کے علاوہ مطلعے اور مقطعے کا التزام بھی ہے۔ اسی مجموعے میں ان کی نظم بعنوان ’مہون‘، چھرنا میں ان کی نظمیں ’باول کی بیلا‘ اور ’کب‘ بھی بغیر مقطع کی غزلیں ہیں۔ غالباً تھیٹر کے زیر اثر پرساد نے اپنے بعض ڈراموں میں بھی غزلیں شامل کی ہیں۔ ان کے مشہور ڈرامہ ’’دھرو سوانتی‘‘ میں ان کی نظام ’’استاچل پریوتی سندھیا‘‘ میں بھی غزل کہنے کی کوشش واضح طور پر دکھائی دیتی ہے لیکن یہاں پر بھی ان کی سنسکرت زدہ ہندی غزل کا محاورہ بننے میں ناکام رہی۔ ایسا معلوم پڑتا ہے کہ پرساد نے زبان کا ذائقہ بدلنے کیلئے غزل کہی مگر کامیاب نہیں ہوسکے حالانکہ ان دونوں حضرات نے کھڑی بولی کی شاعری میں اردو بحروں کو مروج کرنے کے ارادہ سے غزلیں کہی تھیں۔ سوریہ کانت ترپاٹھی نرالاؔ نے جو غزلیں کہیں ان میں بعض غزلیں تو سنسکرت آمیز ہندی کی وجہ سے اور بعض ہندی اردو الفاظ کے ادغام کے سبب غزل کے محاورے سے کوسوں دور ہیں۔ نرالاؔ کئی زبانوں سے واقف تھے اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہ ہندی میں بھی ایسی غزل کہہ سکتے ہیں جو اردو غزل کے برابر کھڑی کی جاسکے مگر افسوس یہ ممکن نہ ہوسکا۔ نرالاؔ غزل گوئی کی مشق سے آگے نہ بڑھ سکے۔
چھایا واد کے اختتام کے بعد بھی ہندی شعراء کی غزل کہنے کی کوششیں جاری رہیں۔ گورو بھگت سنگھ نے درویشؔ تخلص سے غزلیں کہیں۔ ان کے معاصر دیگر شعراء نے بھی غزل پر ہاتھ آزمایا۔ ان شعراء کا مقصد اپنے پیش رو شعراء کی طرح ہندی میں اردو جیسی غزل کہہ کر دکھانے تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ ان حضرات کو کوی سمیلنوں کا جو منچ مل گیا تھا، اس کو وہ اردو شاعروں جیسا بنانے کے خواہاں تھے۔ کوی سمیلنوں کے مقبول شاعر ہری ونش رائے بچن اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ہندی کی نظموں میں روانی کی کمی کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ کام اردو کے شعروں سے لیا۔ اس سے مصرعوں میں خصوصیت، ڈرامائی انداز اور روانی آگئی۔ ‘‘
اس زمانے میں غزل کہنے کی شعوری کوشش ہری کرشن پریمیؔ نے کی۔ ان کے مجموعہ ٔ کلام ’’روپ درشن‘‘ میں ۱۳۹؍ اور ’’روپ ریکھا‘‘ میں ۱۵۲؍ غزلیں ہیں مگر وہ خود غزل میں اپنی صلاحیت پر اعتماد کرنے سے قاصر تھے۔ ان کو اعتراف ہے کہ ’’ اس اردو کی بیٹی سے میں نے بھی محبت کی ہے۔ میں اسے منا رہا ہوں۔ مجھے ایسا جان پڑتا ہے کہ یہ مجھ سے کچھ پرسن ّ (خوش) تو ہوئی ہے۔ ‘‘ حقیقت بھی یہی ہے کہ عروس غزل ان سے ’’کچھ‘‘پرسن ہی ہوئی، ان کی نہیں بن سکی۔
البتہ چھایاواد کے بعد کے دور میں شمشیر بہادر سنگھ نے غزل کہنے کی جو کوشش کی، اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہوئے۔ اگرچہ شمشیر نے کبھی غزل گوئی کا دعویٰ نہیں کیا اور ان کی غزلوں کی تعداد بھی خاصی محدود ہے لیکن انہوں نے غزل کی بنیادی شرطوں کا لحاظ رکھا اور ان لغزشوں سے احتراز کیا جن کا شکار ان سے پہلے کے غزل گو ہوچکے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ شمشیر ہندی کے پہلے غزل گو ہیں جن کے کلام میں تغزل دکھائی دیتا ہے۔ شمشیر نے اردو غزل میں اپنا مقام بنانے کی غرض سے غزل کہنے پر محنت نہیں کی بلکہ وہ غزل کو ہندی میں رواج دینا چاہتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں ہندی کا اپنا محاورہ بھی تشکیل پاتا دکھائی دیتا ہے۔ شمشیر نے نہ صرف ہندی میں کامیاب غزل کہنے کی کوشش کی بلکہ ایسی غزلیں کہیں جن سے ان کے معاصرین اور بعد کے شعراء غزل گوئی کی طرف راغب ہوئے۔
ہندی میں غزل گو شاعر کے طور پر سب سے زیادہ شہرت دشنیت کمار کے حصے میں آئی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان کو اپنے زمانے کے مقبول ترین رسالوں میں شائع ہونا نصیب ہوا۔ ان کی غزلوں کو عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور قلیل عرصہ ہی میں وہ ایک غزل گو کے طور پر پہچانے گئے۔
اس میں شک نہیں کہ شمشیر، بلبیر سنگھ رنگؔ، تری لوچن، ہری کرشن پریمیؔ اور دشنیت جیسے ہندی شعراء نے غزل کہنے میں مکمل دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور غزل کے لوازمات کے احترام کی کوشش بھی کی مگر ہندی غزل اپنی جداگانہ حیثیت منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ ہندی شعراء کو غزل کے تقاضوں اور اس کی فنی باریکیوں کا علم نہیں تھا، دوئم یہ کہ ان کو معلوم تھا کہ وہ جیسی بھی غزل کہیں گے، ہندی میں چل جائیگی۔
اس آسان روی کا اعتراف کرتے ہوئے دشنیت کمار کہتے ہیں کہ ’’اردو کے حساب سے میں اپنی غلطیوں سے واقف ہوں۔ اردو میں چھپا تو کمیاں نکال دوں گا۔ ‘‘ بہتر تو یہ تھا کہ دشنیت ہندی میں چھپنے سے پہلے ہی ان لغزشوں سے اپنے کلام کو پاک کرلیتے جن کا علم اور احساس ان کو تھا۔ اس سے ہندی کو غزل کا ایک ماڈل اور بعد کے شعراء کو اچھی غزل کہنے کیلئے ایک معیار مل جاتا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ غزل رگھوویر سہائے کے توسل سے دوسرے ’’تارسیتک‘‘ میں شامل ہوئی اور شمبھوناتھ شیشؔ کے توسط سے ’’کویتائیں ۱۹۵۷ء‘‘ میں شریک ہوئی مگر ہندی غزل اپنی شناخت نہیں بناسکی۔ آٹھویں دہائی کی غزل کے بارے میں بھوانی پرساد مشر کا تجزیہ غلط نہیں ہے کہ ’’ہندی میں غزل کی روایت تقریباً نہیں ہے۔ بھائی رنگ کو چھوڑ دیں تو کہنے لائق غزل کسی قلم سے نہیں نکلی لیکن ان کی ہندی غزل میں کسر یہ ہے کہ وہ ہندی غزل کم، اردو غزل زیادہ ہے۔
نویں دہائی میں غزل نے ہندی ادب میں ایک تحریک کی صورت اختیار کرلی۔ اگرچہ ہندی غزل ہنوز اپنی شناخت قائم کرنے میں مشغول ہے لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں کہی گئی ہندی غزل کے مطالعے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہندی کی مٹی میں غزل اپنی جڑیں جما سکتی ہے۔ یہ مٹی غزل کے مزاج کے موافق بھی ہے اور زرخیز بھی۔
(بحوالہ: آج کل۔ ستمبر ۲۰۰۴)