دھوپ کی تمازت عروج پر تھی، مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی، آج میں نے فیصلہ کر ہی لیا تھاکہ میں ماں کو اپنے دل کی بات کہہ ہی دوں گا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ماں سامنے ہی تھیں، میں نے سکون کی سانس محسوس کیا۔ ماں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
EPAPER
Updated: June 02, 2025, 2:14 PM IST | Naeem bin Ismail | Mumbai
دھوپ کی تمازت عروج پر تھی، مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی، آج میں نے فیصلہ کر ہی لیا تھاکہ میں ماں کو اپنے دل کی بات کہہ ہی دوں گا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ماں سامنے ہی تھیں، میں نے سکون کی سانس محسوس کیا۔ ماں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
دھوپ کی تمازت عروج پر تھی، مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی، آج میں نے فیصلہ کر ہی لیا تھاکہ میں ماں کو اپنے دل کی بات کہہ ہی دوں گا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ماں سامنے ہی تھیں ، میں نے سکون کی سانس محسوس کیا۔ ماں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’آگئے بیٹا۔ ‘‘ماں کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا، مجھے پسینے میں شرابور دیکھ کر ماں نے گلاس میری طرف بڑھادیا، میں نے ایک ہی سانس میں پانی پی لیا، ماں نے میری طرف پیار سے دیکھتے ہوئے کہا، بہت تھکے ہوئے لگ رہے ہو ، تھوڑا آرام کرلو۔ میں نے نظر انداز کرتے ہوئے کہا ’’ اماں مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے‘‘، ماں ممتا بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولی ’’بیٹا باتیں تو ہوتی رہیں گی پہلے آرام کرلو۔ ‘‘پانی کا گلاس واپس کرتے ہوئے ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میں نے ذرا تلخ لہجہ میں کہا’’اماں میں تھک چکا ہوں اب مجھ سے اباکی خدمت نہیں ہوتی۔ ‘‘
شفقت بھرے لہجہ میں ماں نے کہا’’بیٹا پہلے سکون سے بیٹھ تو جاؤ۔ ‘‘میں نے سخت لہجہ میں کہا’’اماں !بات کو ٹالنے کی کوشش نہ کریں، آج فیصلہ کر ہی لیتے ہیں۔ ‘‘ ’’کیسا فیصلہ بیٹا؟‘‘حسرت و یاس بھری نگاہوں سے ڈوبتی آواز میں ماں نے کہا۔ ماں کے چہرے کی مایوسی جس پر دکھوں کی پرت کو دیکھ کر بھی میں انجان تھا اور قطعی و آخری فیصلہ کرنا چاہتا تھا ایک ہی سانس میں کہہ گیا’’اماں بتایا نا کہ اب مجھ سے ابا کی خدمت نہیں ہو تی۔ ‘‘ماں نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا ’’ ٹھیک ہے بیٹا لیکن کیوں ؟‘‘مجھے ایسا گمان ہوا کہ ماں نے میرے آگے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ میں خوش فہمی کا شکار ہوگیا، پر اعتماد لہجہ میں کہا’’آپ کے دوسرے بیٹوں نے شادی کے بعد کنارہ کشی اختیار کرنا بہتر سمجھا لیکن کسی نے یہ نہیں گوارا کیا کہ والدین کو ساتھ لے جاتے یا باری باری اپنے اپنے گھروں میں سنبھالتے۔ ‘‘ماں کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں لیکن میں تو تعلیم یافتہ ٹھہرا، اپنے دلائل میں پختگی لانے کے لئے منور رانا کا شعر بھی سنادیا :
یہ بھی پڑھئے:’ستیہ کتھا‘ نامی رسالہ مراٹھی کا ’شب خون‘ مانا جاتا تھا
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصہ میں ماں آئی
اور اپنی دلیل کو مؤثر بناتے ہوئے طنزیہ جملوں میں کہاکہ ’’میرے حصہ میں ماں کے ساتھ ابا بھی آئے۔ ‘‘ماں بدستور کھڑی تھیں اور نظریں بھی جھکی ہوئی تھیں لیکن خاموش تھیں ۔ میں نے تعلیم یافتہ ہونے کا ایک اور ثبوت دیا اور فیصلہ کن انداز میں کہا کہ ’’اماں میں محلہ کمیٹی میں سیکریٹری ہوں لیکن مجھے گھر کا مسئلہ گھر میں ہی حل کرنا ہے۔ آپ اپنے تینوں بیٹوں کو فون کردیجئے کہ آپ دونوں کو باری باری ایک ایک مہینہ سنبھالیں۔ ‘‘ ماں تو ممتا کی دیوی ہوتی ہے، اس نے دھیمے لہجہ میں کہا ’’ٹھیک ہے بیٹا آپ پہلے کھانا کھا لیجئے شام کو سب کو فون کروں گی۔ آج منگل ہے سنیچر کو سب بیٹوں کو بلا لوں گی اور آپ کی تجویز سب کے سامنے رکھوں گی۔ ‘‘ ’’اماں بےشک یہ آپ کے لئے تجویز ہوگی لیکن یہ میرا فیصلہ ہے۔ ‘‘ٹھوس لہجہ میں اپنی تجویز کو فیصلہ کا رنگ دے کر میں دل ہی دل میں سکون محسوس کررہا تھا۔
تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مجھ میں شعور آچکا تھا۔ پہلے میں نے آرام سے کھانا کھایا پھر معمول کے مطابق والد کی خدمت کی۔ ابا دو سال سے سخت علیل تھے۔ انہیں دمہ تھا اور کافی کمزور ہونے کے سبب چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے۔ مسلسل بستر پر رہنے کی وجہ سے دونوں جانب کمر پر سیاہ داغ بھی بن گئے تھے اور زخم بھی ہو گیا تھا۔ ستم ظریفی یہ کہ گزشتہ کچھ دنوں آواز بھی بند ہو گئی تھی لیکن ابا کی قوت سماعت متاثر نہیں ہوئی تھی۔ ابا اکثر میری جھنجھلاہٹ کو محسوس کرتے ہوئےکہتے تھے ’’بیٹا اس طرح کی خدمت سے اللہ ناراض ہوتے ہیں خوب سیوا کرو خوب میوہ ملے گا۔ ‘‘ آج میں بہت خوش تھا کیوں کہ والدین کے بوجھ سے دو چار دن میں چھٹکارہ ملنے والا تھا۔ سنیچر کو اماں ابا چلے جائیں گے پھر تین مہینہ بعد میرا نمبر آئے گا۔ ابا کی خدمت میں کافی پرجوش انداز سے کر رہا تھا، زخموں کو ڈیٹول سے صاف کرکے مرہم لگا رہا تھا۔ سر میں تیل لگاکر ہلکا مساج اور پھر پیروں کو دبا رہا تھا، ابا مجھے ایک ٹک دیکھتے جارہے تھے لیکن ان کی آنکھوں سے اشک جاری تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ انہوں نے میری اور ماں کی باتیں سن لی ہیں لیکن میں نے ان کے آنسوئوں کو نظر انداز کیا۔ دوپہر سے شام اور پھر رات ہو گئی۔
رات کے گیارہ بجے امی سے اجازت لے کر میں اپنے کمرے میں سونے گیا، اس وقت کافی سکون محسوس کررہا تھا۔ ساڑھے چار بجے اچانک آنکھ کھلی تو دیکھا کہ کمرے میں میری بیوی نہیں ہے۔ اٹھ کر امی ابو کے کمرے میں گیا۔ وہاں کا منظر دیکھ کر میرے قدموں تلے زمین نکل گئی۔ ابا کی سانس اُکھڑ رہی تھی۔ میری بیوی نے کہا کہ ابو کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے ہیں۔ ماں بیچاری اپنے نحیف ہاتھوں سے ابا کے پیروں کو مَل رہی تھیں ۔ میری بیوی ابا کے ہاتھوں کو رگڑ رہی تھی۔ میں گھبرائے ہوئے انداز میں پڑوسیوں اور ڈاکٹر کو بلانے چلا گیا۔ جب کچھ لوگوں کے ساتھ لوٹا تب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔ بیوی زارو قطار رو رہی تھی اور ماں کے بھی آنسو تھم نہیں رہے تھے۔ ماں نے مجھے دیکھ کر کہا ’’بیٹا آپ تھک گئے تھے نا، اللہ نے آپ کی تھکن دور کردی۔ ‘‘ یہ جملہ مجھ پر بجلی بن کر گرا۔ میں زار و قطار رونے لگا لیکن مجھے احساس ہو گیا کہ میں نے اپنی دنیا اور آخرت دونوں خراب کر لی ہے۔