۹۴؍برس کی عمر میں انتقال کر جانے والے ستیہ پال انگریزی کے پروفیسر تھے جو اردو زبان میں لکھتے تھے۔ ان کی آواز اب خاموش ہو چکی ہے لیکن اُن کے اشعار اوراُن کے الفاظ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔
EPAPER
Updated: August 10, 2025, 12:22 PM IST | Saifi Sironji | Mumbai
۹۴؍برس کی عمر میں انتقال کر جانے والے ستیہ پال انگریزی کے پروفیسر تھے جو اردو زبان میں لکھتے تھے۔ ان کی آواز اب خاموش ہو چکی ہے لیکن اُن کے اشعار اوراُن کے الفاظ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔
ستیہ پال آنند اردو نظم کا ایک معتبر نام تھا۔ اختر الایمان کے بعد آنند وہ واحد شاعر تھے جنہوں نے اردو نظم کے معیار اور وقار میں اضافہ کیا۔ اُنہیں علم و عروض پر بھی مکمل دسترس حاصل تھی اور بحر و وزن کی شاعری سے وہ نہ صرف واقف تھے بلکہ اُس کی اہمیت بھی سمجھتے تھے۔ لیکن غزل کی روایت، گل ُ و بلبل اور زلف و رخسار کی شاعری کے بر خلاف انہوں نے اپنے ادبی کیرئیر کو دائو پر لگا کر آزاد نظم اور نثری نظم کو اردو ادب میں وقار عطا کیا اور بلند معیار سے ہمکنار کیا۔
ستیہ پال آنند نے ابتدائی دور کے آغاز میں بے شمار افسانے وناول لکھے اور ترجمے بھی کئے جن کی تفصیل کے لئے تو ایک دفتر درگار ہوگا۔ اِس وقت میرے سامنے اُن کی ضخیم آپ بیتی’کتھا چار جنموں کی‘ ہے، جو اُن کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ اِسے ہم سوانحی ناول بھی کہہ سکتے ہیں۔ ابھی تک میں اُنہیں صرف ایک شاعر کی حیثیت سے جانتا تھا لیکن ’کتھا چار جنموں کی‘ پڑھ کر اُن کی علمیت، قابلیت اور اُن کے ادبی کارناموں سے نہ صرف واقفیت ہوئی، بلکہ دل و دماغ پر ان کی شخصیت کا رعب بھی قائم ہو گیا۔ ستیہ پال آنند کو اردو کے علاوہ انگریزی، فارسی، سنسکرت اور ہندی جیسی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔
’کتھا چار جنموں کی‘ ستیہ پال آنند کی ایک ایسی کتاب ہے جس میں آزادی سے قبل سے لے کر آج تک کی پوری ادبی تاریخ کو محفوظ کر دیا گیا ہے۔ اِس کتاب میں ہمیں جہاں پچاس سال کا مکمل ادبی منظر نامہ نظر آتا ہے، وہیں ستیہ پال آنند کی شخصیت کے بہت سے اہم پہلوئوں سے بھی واقفیت ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ اُن کی تربیت میں کن کن شخصیات کا کردار رہا، وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی بناء پراُنہیں اپنے وطن سے ہجرت کرنی پڑی، ان کی زندگی میں کیا کیا مسائل درپیش آئے، ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت سے متعلق اُن کے کیا نظریات تھے۔ اس میں ہمیں ادب بھی ملتا ہے، سیاست بھی، تحقیق و تنقید بھی اور ترقی کرنے کے بے شمار راز بھی۔ اس لئے کہ جب وہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہیں تو اُس کا سارا منظر نامہ بھی بیان کر دیتے ہیں۔ جب وہ غزل کی بات کرتے ہیں تو غزل کی پوری روایت سے آگاہی ہو جاتی ہے، اور جب وہ آزاد نظم کی بات کرتے ہیں تو اُس کی پوری اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ظاہر ہے، جس شخص کی تربیت میں تلوک چند محروم جیسی ہستی کا ہاتھ رہا ہو، اُس کی معلومات اور علم کا کیا ٹھکانہ ہوگا! جب ستیہ پال آنند کی پہلی ملاقات تلوک چند محروم سے ہوئی توملاقاتِ اولین میں ہی ایک دس بارہ سال کے لڑکے نے محروم کو اِتنا متاثر کیا کہ اُن کا دل شفقت سے بھر گیا، وہ ستیہ پال آنند کی قدر کرنے لگے، اُن کی تربیت میں بھی دلچسپی لی اور شعرو ادب سے متعلق، زبان سے متعلق، نظم و غزل سے متعلق گفتگو کرنے لگے۔ یہ تلوک چند محروم کی تربیت اور مشوروں کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے غزل سے پیچھا چھڑاکر نظم کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا، اور پھر نظم میں وہ مقام حاصل کیا جو اچھے اچھوں کو نصیب نہیں ہوتا۔
بے شک، ہمیں اُن کی شخصیت اور اُن کے ڈھیر سارے ادبی کارناموں سے واقفیت نہیں ہوتی اگر وہ اپنی آپ بیتی ’کتھا چار جنموں کی‘نہ لکھتے۔ یہ کتاب لکھ کر نہ صرف انہوں نے ہمیں علم کا نادر خزینہ مہیا کیا ہے، بلکہ ایک بڑے فنکار کی بہت سی ایسی باتیں ، جن سے ہم آشنا نہیں تھے ہمیں اُن سے بھی آشنا کرایا، اس کے ساتھ ہی اپنی شخصیت کے علاوہ اپنے ہمعصروں کا بھی بھرپور تذکرہ کیا۔ اُن کے مقام و مرتبے کے علاوہ اُن کی علمیت اور قابلیت، ادبی چشمک اور اچھی بری عادتوں سے بھی واقفیت کرایا۔ یہاں تلوک چند محروم سے ان کی پہلی ملاقات کے سلسلے میں ایک اقتباس پیش کرنا چاہوں گا:
’’۴۶۔ ۱۹۴۵ء کی بات ہے، میں ابھی مشن ہائی اسکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ڈی اے پی کالج کے مشاعرے میں منشی تلوک چند محروم کو سننے کے ایک ہفتے بعد میں اپنا بستہ ہاتھوں میں اُٹھائے سیدھا کولڈن کالج جا پہنچا۔ کالج ہمارے اسکول سے صرف آدھا میل دور تھا۔ اونچے آہنی پھاٹک سے اندر جاتے ہوئے میں بالکل نہیں جھجکا۔ دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ مجھے علم تھا کہ پروفیسر صاحبان جس کمرے میں بیٹھتے ہیں، جس کو اسٹاف روم کہا جاتاہے، اُس میں کنکریٹ کی بنی ہوئی چھ سات سیڑھیاں چڑھ ہی رہا تھا کہ ایک چوکیدار نے مجھے روکا، ’’لڑکے کس سے ملنا ہے؟‘‘۔ ۔ ۔ ’’پروفیسر تلوک چند محروم سے۔ ‘‘میں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا۔ میں نے بعد میں سوچا، میں نے منشی تلوک چند محروم نہیں کہا، پروفیسر تلوک چند محروم کیوں کہا؟ چوکیدار نے ایک لان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’وہ سامنے بیٹھے ہیں۔ محروم صاحب دھوپ میں اخبار پڑھ رہے ہیں۔ اُن کے رشتے دار ہو ؟‘‘
میں بغیر کچھ کہے اُس طرف ہو لیا۔ دھیرے دھیرے چلتا ہوا پاس جاکر کھڑا ہو گیا۔ جب بزرگ شاعر کو احساس ہوا کہ اُن کے حصے کی دھوپ میں کچھ رخنہ پڑ گیا ہے تو انہوں نے اخبار سے نظریں اُٹھائیں : ’’جی سر! نمستے۔ میں آپ کا نیازحاصل کرنے چلا آیا۔ ‘‘ میں نے عرض کرنے کے آداب ابھی نہیں سیکھے تھے۔ انہوں نے میرے لڑکپن کے بے داغ چہرے کو دیکھا۔ پھر پوچھا ’’کہاں پڑھتے ہو؟‘‘ سوال سیدھا سادا تھا۔ جواب میں مجھے ہچکچاہٹ نہ ہوئی۔ ’’جی، مشن ہائی اسکول میں۔ ‘‘ اور پھر ہمت بٹور کر کہا، ’’کل آپ کو اور آزاد صاحب کو ڈی اے پی کالج کے مشاعرہ میں سنا تو سوچا، مجھے آپ سے نیاز حاصل کرکے کچھ سیکھنا چاہئے۔ ‘‘ مسکراتے ہوئے کہا، ’’تو شاگردی کیلئے آئے ہو برخوردار؟ کسی سے پوچھ لیتے، میں شاگردی استاذی پر یقین نہیں رکھتا۔ ‘‘ پھر کچھ سوچ کر بولے، ’’ہاں ! کبھی کبھی ملتے رہو تو کوئی حرج نہیں۔ ذرا دھوپ چھوڑ کر کھڑے ہو جائو۔ کرسی تو کوئی نہیں ہے، گھاس پر ہی بیٹھ جائو۔ ‘‘
میں بیٹھ گیا۔ اپنا بستہ کھول کر غزلوں کی کاپیاں نکالنے لگا تو محروم صاحب کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ’’یہ تو بتائو برخوردار، یہ جملہ’ دھوپ چھوڑ کر کھڑے ہو جائو‘ کہیں تاریخ کے اوراق میں پہلے بھی نظر سے گزرا ہے ؟‘‘ ’’جی‘‘میں نے ذہن پر بغیر زور دیئے بغیر کہا’’یہ وہ جملہ ہے جو یونانی فلسفی دیو جانس کلبی نے سکندرِ اعظم سے کہا تھا۔ ‘‘
ستیہ پال آنند نے اپنی پہلی ملاقات میں ہی تلوک چند محروم جیسی شخصیت کو متاثر کر دیا تھا اور اُن کے ہر سوال کا جواب نہ صرف اطمینان بخش دیا تھا، بلکہ اتنی کم عمر میں اپنی قابلیت کا جادو بھی جگا دیا تھاجس سے محروم نہ صرف بہت متاثر ہوئے، بلکہ اِتنی اونچی اُڑان کا جذبہ دیکھ کر وہ آنند کی تعلیم اور تربیت میں دلچسپی لینے لگے۔ اور شعر و ادب سے متعلق طرح طرح کے سوال کرنے لگے جن کا جواب ستیہ پال آنند خوش اسلوبی سے دیتے۔
آنند کی غزلوں کے علاوہ اُن کی ایک نظم سن کر محروم نے ہی کہا تھا کہ’’ تم غزل کہنا چھوڑ دو، اور نظم کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنائو۔ میں تمہاری نظموں میں ایک بڑے نظم نگار کے جوہر دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘ اِس طرح آنند غزل کو چھوڑ کر نظم کے میدان میں اپنے قلم کے جوہر دکھانے لگے، اور دیکھتے ہی دیکھتے اردو نظم کا ایک معتبر نام بن گئے۔ اُن کی چند نظموں کے اقتباس ملاحظہ کریں، جن سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے نمائندے تھے۔ پہلی نظم جو یہاں نقل کی جارہی ہے اُس کا عنوان ہے: اِنَا لِلٰہ۔ ۔
کیوں یہ لگتا ہے کہ میرا /حال بھی جیسے تڑپتا لمحہ لمحہ مر رہا ہو
اور مستقبل میں جب یہ حال بھی ماضی بنے گا
مجھ کو پھر اِک بار اس مردے کو کندھوں پر اُٹھائے
دفن کرنے کے لئے جانا پڑ ے گا
کنوئیں کے باہر
لاکھوں ارجن اُس کی منڈیر پہ/اپنے دھنش زمیں پر رکھے
چپ بیٹھے ہیں /لیکن سب بہرے ہیں شاید!
فَتَکلّمُواَ تُعرَفُوا
عجیب معجزہ ہوا کہ ایک دن
میں اپنے گھر کی دیوڑھی میں صم بکم کھڑا تھا
تماشہ دیکھتا تھا اِک جلوس کا
علم اُٹھائے جس میں لوگ’یا حسین، یا حسین‘ کہتے
سینہ پیٹتے، لہولہان جا رہے تھے
اور میں، جسے زبان آوری کا کچھ پتہ نہ تھا
نہ جانے کیسے اس سکوت کے
اندھیرے غار سے نکل کے بول اُٹھا:
’’حسین! یا حسین! یاحسین!!‘‘
اور پھر مرا سکوت/نطق میں، کلام میں، سخن میں ڈھل گیا
میں صاف بولنے لگا
اِن نظموں کے اقتباسات سے اُن کی فکر اور سوچ تک رسائی آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے۔ اِن نظموں میں ابہام کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ اُنہیں تاریخی اور مذہبی معلومات بے حد تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے علمبردار شاعر تھے۔ اُن سے ساہتیہ اکادمی میں کئی ملاقاتیں رہیں اور اردو نظم پر گفتگو بھی ہوئی، خاص طور سے’ کتاب نما‘کے ایک اداریے کے متعلق تبادلہ ٔ خیال ہوا، جس میں انہوں نے غزل کی مخالفت کی تھی۔ کافی دیر تک بحث و مباحثہ جاری رہا۔ وہ غزل کے سخت مخالف تھے۔ اُن کاکہنا تھا کہ غزل میں اب کچھ نیا کہنے کو نہیں بچا ہے۔ سہ ماہی’انتساب‘ میں بھی اُن کی تخلیقات شائع ہوتی رہتی تھیں۔ گزشتہ دنوں جب اُن کے انتقال کی خبر سنی تو رنج ہوا اور پھر اُن سے کی گئی ملاقاتوں کی تمام یادیں سمٹ کر میری آنکھوں میں بستی چلی گئیں۔
(مضمون نگار سہ ماہی ’انتساب‘ کے مدیر ہیں )