• Sun, 02 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

قدیم اَدب کے مطالعے کے سلسلے میں ماضی کا کوئی نہ کوئی تصور ناگزیر ہے

Updated: November 02, 2025, 12:16 PM IST | Syed Ehtisham Husain | Mumbai

ہر زمانے کے ادبی ذوق کی داستان الگ ہے جس کے بننے میں صوتی، لسانی، معنوی، جمالیاتی، قومی اور فکری تغیرات حصہ لیتے ہیں ، اس لئے ہر دور کے ادبی مطالعے سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کیلئے ادبی روایات سے واقفیت ازحد ضروری ہے۔

Unless the reader reaches the historical period of an era and studies literature in the light of the literary taste of that era, he cannot understand the beauty and ugliness of literature. Photo: INN
جب تک پڑھنے والا کسی عہد کے تاریخی دور میں پہنچ نہ جائے اور اسی عہد کے ادبی ذوق کی روشنی میں ادب کا مطالعہ نہ کرے، ادب کے حسن و قبیح کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ تصویر: آئی این این

سماجی تاریخ میں ادب (خاص کر شاعری) کی قدامت مسلم ہے اور چونکہ ادب کے بعض بنیادی تقاضے اور مظاہر اکثر زمانوں اور ملکوں میں یکساں یا کم و بیش یکساں رہے ہیں اس لئے کچھ لوگوں نے شاعری میں ابدیت کے عناصر بھی لازمی قرار دیئے ہیں۔ اس سے شاعر کے تلمیذ ِرحمانی اور غیرمعمولی انسان ہونے کا عقیدہ بھی وابستہ کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس کچھ نقاد اور فلسفی، ادب کی عصریت پر اس قدر زور دیتے ہیں کہ اس کا آفاقی عنصر نظرانداز ہوجاتا ہے اور وہ محض عارضی لمحات اور کیفیات کا وقتی ترجمان بن کر رہ جاتا ہے۔ اگر اسے درست سمجھ لیا جائے تو ہر عہد اور ہر ملک کا ادب صرف اسی عہد اور اسی ملک کے ادب کی نمائندگی کرے گا اور دوسرے عہد کے لوگ اسے صرف تاریخی اہمیت دیں گے۔ اس کے برعکس جب شاعری اور ادب کی ابدیت ہی کو اہمیت دی جائے گی تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے اثر کی تاریخ ہر عہد میں ایک ہوگی اور عہد اس سے وہی کیفیت حاصل کرے گا جو اس سے پہلے کے عہد نے کی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخی مطالعے کی روشنی میں ان میں سے کوئی بات درست نہیں نظر آتی۔ نہ تو کوئی ادبی کارنامہ مکمل طور سے ہر عہد میں یکساں تاثر پیدا کرتا ہے اور نہ اس کا تاثر یا جمالیاتی حظ اتنا محدود ہوتا ہے کہ دوسرے عہد کے لوگ اس سے کسی قسم کا کیف حاصل ہی نہ کرسکیں۔ علمی اور فلسفیانہ نقطۂ نظر سے اس مسئلے کی نوعیت یہ ہوگی کہ کلاسیکی ادب کا جدید مطالعہ ایسے کن اصولوں کے تحت ہونا چاہئے جو تشفی بخش ہو؟ یہ سوال ہے تو بہت سادہ لیکن اس کے ضمن میں چند ایسے بنیادی سوال اور پیدا ہوتے ہیں جن پر غور کئے بغیر کسی نتیجے تک پہنچنا ممکن ہی نہیں ہے۔ 
ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ماضی کا حال سے کیا تعلق ہے، ادبی اور تہذیبی قدروں کے متعین کرنے میں ماضی سے کیا حاصل کیا جاسکتا ہے اور ماضی کی طرف کیا رویہ ہونا چاہئے؟ وقت ہی کے تصور پر ماضی کے سمجھنے یا نہ سمجھنے، ضروری یا غیرضروری قرار دینے اور حال سے اس کا رشتہ جوڑنے کا انحصار ہے۔ زندگی کے واقعات اور حادثات وقت کے تسلسل اور بہاؤ میں کبھی ٹھہراؤ اور کبھی تبدیلی ٔ رفتار کا احساس پیدا کراتے ہیں اور ابدیت یا عارضیت کے تصورات کو بدلتے ہیں۔ جو واقعہ یا حادثہ تسلسل ٹوٹنے یا بدلنے کے باوجود وقت کا ساتھ دیتا رہتا ہے اس میں ابدیت کی جھلک دکھائی دے جاتی ہے اور جو کسی خاص مقام پر دم توڑ دیتا ہے اسے وقتی اور ہنگامی قرار دے کر تاریخ کے کسی گوشے میں محفوظ کردیا جاتا ہے، یا اس طرح نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ حال اور مستقبل اس سے بالکل متاثر نہیں معلوم ہوتے۔ وقت کی اس اضافیت نے جدید ذہن کو شعوری اور غیرشعوری طور پر اس حد تک متاثر کیا ہے کہ بہت سے علمائے نفسیات ذہنی عمل میں ماضی اور حال اور مستقبل کو گڈمڈ مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسانی شعور کی رو ماضی اور مستقبل دونوں کی راہ سے گزر کر حال کے تجربوں کو پیچیدہ بنادیتی ہے۔ مشہور انگریزی شاعر ایلیٹ اپنی ایک نظم کی چند سطروں میں اس کیفیت کو اس طرح بیان کرتا ہے: (ترجمہ)’’حال اور ماضی، غالباً دونوں مستقبل کے اندر موجود ہیں، اور مستقبل ماضی کے بطن میں ہے۔ اگر ہر وقت ابدی طور پر حال ہی ہے تو کسی وقت سے مفر نہیں۔ ‘‘
وقت کا یہ تصور کوئی گورکھ دھندا نہیں ہے۔ گزرانِ وقت کے احساس کی روشنی میں انسانی تجربے پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وقت کے گزرنے کی مفروضہ رفتار اس کے محسوس کرنے کی جذباتی رفتار سے مختلف ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ماضی اور مستقبل دونوں حال ہی میں اپنی جلوہ گری دکھاتے ہیں اور انسانی جذبے اور فکر کو اس طرح متاثر کرتے ہیں کہ انسان بہ یک وقت ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں میں رہ لیتا ہے۔ یوں بھی ذرا سے غور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مستقبل کی پرچھائیاں حال کے پردے پر اپنا عکس ڈالتی رہتی ہیں اور مستقبل کی تشکیل میں ماضی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ حال ماضی کے بغیر وجود میں نہیں آتا۔ اپنے تسلسل اور بہاؤ میں سب ایک دوسرے میں شامل ہیں اور احساس میں الگ الگ بھی۔ یہی دشواریاں ہیں جن کی وجہ سے ماضی کی قدر و قیمت کے تعین میں الجھن پیدا ہوتی ہے۔ وقت کے سائنٹفک تصور سے علاحدہ عام انسانی تجربے اور احساس میں ماضی کا خیال حال میں اس کی اہمیت کے ساتھ ہی آتا ہے اور اس شعور کے آئینے میں منعکس ہوتا ہے جو حال نے فراہم کیا ہے۔ یہی صورت مستقبل کی ہے۔ عام انسان اس کی تصویر اپنے خواب و خیال کے آئینے میں دیکھتا ہے اور اپنے حال کو اس کے مطابق تشکیل دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہاں بحث صرف ماضی سے ہے کیونکہ قدیم ادب کے مطالعے کے سلسلے میں ماضی کا کوئی نہ کوئی تصور ناگزیر ہے۔ اس کا ایسا معروضی مطالعہ تقریباً ناممکن ہے جو حال کی بصیرت سے خالی اور ماضی کو اس کی مکمل ’’ماضیت‘‘ کے ساتھ سمجھے اور قبول کرلے۔ 
جیسے ہی ہم کسی ادب کو قدیم یا کلاسیکی کہتے ہیں، ایک تاریخی یا رومانی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں اور مطالعے کی کم سے کم ایک بنیاد سامنے آجاتی ہے۔ حالانکہ بعض علمائے ادب تاریخی مطالعے کی زبردست مخالفت کرتے ہیں لیکن ان سے یہ گتھی کبھی نہیں سلجھ سکی ہے کہ ایک عہد کا ادب دوسرے عہد کے ادب سے کیوں مختلف ہوجاتا ہے اور دوسرے عہد کے دل میں اس کے تاثرات وہی کیوں نہیں ہوتے جو اس کے عہد ِتخلیق میں رہ چکے تھے۔ ہر زمانے کے ادبی ذوق کی داستان الگ ہے جس کے بننے میں صوتی، لسانی، معنوی، جمالیاتی، قومی اور فکری تغیرات حصہ لیتے ہیں، اس لئے ہر دَور کے ادبی مطالعے سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لئے ’’روحِ عصر‘‘ کے سامنے پر زور دیا گیا ہے، ’’تاریخی جبر‘‘ اور ’’ماحول‘‘ پر نظر رکھنے کی تاکید کی گئی ہے اور ’’ادبی روایات‘‘ سے واقفیت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لسانی اور ادبی روایات کو کسی نہ کسی حد تک پیش نگاہ رکھے بغیر ادبی مطالعے میں ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ 
لیکن ’’روح عصر‘‘ ہے کیا؟ تاریخیت سے کیا مراد ہے؟ ماحول کا عمل کسی انفرادی ادبی کارنامے پر کس طرح ہوتا ہے؟ فلسفہ ٔ تاریخ کے علماء نے ہر دور کی خصوصیات کا الگ الگ تعین کیا ہے جس کا اثر ان کے خیال میں اس دور کے فلسفے، مذہبی تصورات اور ادبیات، غرض کہ ہر شعبۂ زندگی پر پڑتا ہے۔ روح عصر ایک ایسی مجموعی بنیادی وحدت کہی جاسکتی ہے جس کے زیراثر ہر جز ایک مخصوص محور پر حرکت کرتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی شخص کسی مخصوص قدیم عہد کے ادب کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے روح عصر کا تلاش کرنا ناگزیر ہوگا۔ جب تک وہ ہاتھ نہ آئے گا ماضی ایک عقدۂ لاینحل بنا رہے گا۔ تاریخیت کا مطالعہ کرنے والوں کا خیال یہ ہے کہ جب تک پڑھنے والا کسی عہد کے تاریخی دور میں پہنچ نہ جائے اور اسی عہد کے ادبی ذوق کی روشنی میں ادب کا مطالعہ نہ کرے، ادب کے حسن و قبح کو سمجھ ہی نہیں سکتا کیونکہ اس عہد کی زبان، محاورات، افکار و خیالات، تشبیہات، تلمیحات اور طرز اظہار کی ادبی روایات کا محض علم کافی نہیں ہے، اس فضا میں سانس لینا بھی ضروری ہے اور خامیوں خوبیوں پر اُسی وقت کے نقطۂ نظر سے رائے دینا لازمی ہے۔ ہمیں ماضی پر ماضی کے اصولوں کی روشنی میں تبصرہ کرنا چاہئے۔ 
(بحوالہ: اعتبار نظر)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK