Inquilab Logo

تماشائے اہل ِاَدب دیکھتے ہیں

Updated: September 17, 2023, 1:40 PM IST | Shafiqa Farhat | Mumbai

راوی کہتا ہے کہ جھوٹ بولنے والے پر خدا کی مار اور دنیا کی پھٹکار (گو اہل ِ ہمت دونوں سے بے نیاز ہیں !) تو بہرحال راوی کہتا ہے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

راوی کہتا ہے کہ جھوٹ بولنے والے پر خدا کی مار اور دنیا کی پھٹکار (گو اہل ِ ہمت دونوں سے بے نیاز ہیں !) تو بہرحال راوی کہتا ہے۔ ایک صبح جو انتہائی غیرسہانی تھی ، شہر کے ایک برسراقتدار گروہ نے جس کے اقدارِ عالی کی خبر سوائے ان کے اور ان کے باوفا نوکروں کے کسی کو نہ تھی اور جو تنقیدی اور ادبی صلاحیتوں کی تلاش میں رکشوں اور بسوں میں بھر بھر کر در در اور گھر گھر کی خاک چھان رہے ہیں ، غلطی سے ہمارے درِ دولت پر بھی چھاپہ مارا اور لوک سیوا آیوگ ارتھات پبلک سروس کمیشن کی قاتلانہ اداؤں کے ساتھ ہمارا انٹرویو لیا۔ ان کے سوال ہمارے لئے فلسفہ و منطق سے کم نہ تھے لیکن حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہم نے کچھ ایسے گول مال جواب دیئے کہ سننے والوں کے پلّے کچھ نہ پڑا اور انہوں نے گھبرا کے ہمیں اپنی ہی طرح شہرت یافتہ پرچے کا ایڈیٹر بنا دیا!
 اور یہ راز تو بہت بعد میں کھلا کہ وزیر بے قلمدان کی طرح ہم کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہیں ۔ ہم نہ صرف ان کے رسالے کے ایڈیٹر، منیجر، کلرک اور چپراسی تھے بلکہ کتابت اور طباعت بھی خود ہی کرلیا کرتے اور تصویریں بھی بناتے اور اگر ممکن ہوتا تو کاغذ بھی خود ہی بنالیتے اور لگے ہاتھوں ادبی دنیا میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہوجاتا…!
 یوں تو ہمارے اپنے گرانقدر مقالے، افسانے، ڈرامے، نظمیں اور غزلیں وغیرہ پرچے کے لئے کافی تھیں اور عہدۂ ادارت سنبھالتے وقت ہمارا نصب العین بھی یہی تھا مگر پھر دوسرے لکھنے والوں کے لئے ہمارے دل میں رحم کا جذبہ لہریں لینے لگا اور ہم نے انہیں بھی آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا موقع دینے کا فیصلہ کرلیا۔
 پشتوں سے سن رکھا تھا کہ شہرت یافتہ ادیبوں کی چیزیں خریداروں اور دکانداروں کو مرعوب و مسرور کرنے کے سلسلے میں بڑی کارآمدثابت ہوتی ہیں ، خواہ وہ کتنی ہی اوٹ پٹانگ کیوں نہ ہوں اور خواہ ان میں سے ہر ایک پچھلے دس برسوں سے مسلسل ملک کے مختلف رسالوں میں کیوں نہ شائع ہورہی ہوں ۔ خیر ، تو اس نسخے کی آزمائش پر ہم نے بھی حقیقی اور روایتی کمر باندھی اور ہر طرف خطوں کے گدھے گھوڑے دوڑائے اور نامہ بر کے انتظار میں ہر قسم کے ہجر و فراق کے شعر رٹنے لگے۔
  ا۔ب۔ج۔ صاحب کے چمکتے دمکتے صحت مند لفافے نے اس کربناک کیفیت کو ختم کیا۔ ابھی ہم لفافے سے مضمون بھانپ لینے والے الہامی درجے پر نہیں پہنچے تھے لہٰذا ضخامت سے کہانی کی امیدیں وابستہ کرلیں اور دھڑکتے دل اور لرزتے ہاتھوں سے لفافہ کھولا۔کہانی تو اس میں کیا ہوتی ، کہانی کا سامان البتہ تھا … اور وعدۂ خوش آئند بھی کہ ’’آپ کے لئے کہانی ضرور لکھوں گا۔‘‘
 دوتین ہفتے بعد آپ نے تسلی دی ’’بس ایک تھوڑی سی فرصت اور…‘‘ ہم اس ’’تھوڑی سی‘‘ کے ضرب تقسیم میں مصروف ہی تھے کہ آپ نے مژدہ سنایا ’’کہانی کا عنوان سوچ لیا ہے بلکہ پلاٹ بھی، اور پہلا پیراگراف بھی لکھ لیا ہے۔‘‘ لیکن جب کئی ہفتے گزرگئے تو ہم نے عرض کیا کہ ’’جس کہانی کا پہلا پیراگراف لکھ چکے تھے امید ہے کہ اس کا آخری پیراگراف بھی لکھ لیا ہوگا…!‘‘جواب ملا ’’جی بس عنقریب۔‘‘وہ دن اور آج کا دن …آپ کا عنقریب ابھی تک قریب نہیں آیا!
  محترمہ د ۔ذ۔ڑ۔ز صاحبہ نے کہ جن کی شہرت کا راز بس راز ہی رہنے دیجئے، انتہائی شفقت آمیز انداز میں اطلاع دی ’’ ویسے تو تم میری اپنی ہو، تم سے اقرار انکار کیا، مگر میرا اصول ہے کہ میں پیشگی رقم لئے بغیر کسی کو کچھ نہیں بھیجتی۔‘‘
 یہ اصول والوں سے ہم اپنی ازلی اور ابدی بے اصولی کی بنا پر ہمیشہ مرعوب ہوجایا کرتے تھے۔ پھر خمارِ ادارت بھی ذرا نیا نیا تھا، پچا س روپیہ تو کیا ان پر ہم کونین کی دولت بھی لٹا سکتے تھے…! لیکن جب منی آرڈر کی رسید کے کئی ہفتے بعد بھی کہانی کی خوشبو تک نصیب نہیں ہوئی تو ہمارا سارا عشق ہوا ہوگیااور کانوں میں نوٹوں کی دلآویز کھڑکھڑاہٹ گونجنے لگی۔ تب اپنی نئی نویلی ادبیت کا سارا زور لگا کر ہفتوں کی عرق ریزی اور چائے نوشی کے بعد انہیں ایک عدد خط لکھا جس میں پہلے ان کی ، ان کے شوہر کی ، ان کے بچوں کی خیریت پوچھی۔ پھر ان کے محلوں والوں ، بھینسوں ، مرغیوں اور بکریوں کا حال چال پوچھا۔ اس کے بعد ان کے ادبی غیر ادبی (بعض گھریلو…) مشاغل کو تفصیلی طور پر سراہا اور آخر میں ڈرتے ڈرتے دبے دبے الفاظ میں کہانی کا ذکر کیا…خاصے طویل عرصے بعد جواب ملا:’آئے ہائے ، تمہیں کہانی نہیں ملی؟ وہ تو میں نے کب کی بھیج دی۔ شاید ڈاک میں گڑبڑ ہوئی ہو۔ نیا رسالہ جو ہے…! خیر دوسری بھیج رہی ہوں !!‘‘
 ایک شاعر صاحب تھے۔ بڑی خوبصورت نظمیں کہنے والے۔ غلطی سے آپ سے افسانے کی فرمائش کردی گئی۔ ترنگ میں آپ نے لکھ دیا : ’’حکم کی تعمیل کی جائیگی۔‘‘ تین چار دن بعد جو ہوش آیا تو ہڑبڑا کر اطلاع دی ’’جی مگر میں افسانے لکھتا کب ہوں …!‘‘ کوئی درجن سوا درجن خطوں کے جواب میں جناب ع۔غ۔ف۔ق صاحب نے خوردبین سے پڑھے جانے والے خط میں دوصدی پرانے کاغذ کا صرف ایک پرزہ بھیجا جو بقول ان کے پوری کہانی تھی بلکہ ناولٹ جسے دوتین قسطوں میں چھاپا جاسکتا تھا۔ ہم نے اسے ہر طرف سے الٹا پلٹا، ہر قسم کی عینک لگا کر دیکھا اور جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو ماہر لسانیات کی کمیٹی کے سپرد کردیا جو انتہائی غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی کہ یہ رسم الخط ہے تو اردو ہی ، صرف اس میں نقطے نہیں ہیں ، مرکز نہیں ہیں اور شوشے نہیں ہیں لہٰذا ع۔غ۔ف۔ق صاحب کو کرایہ بھیج دیا گیا کہ آپ خود اسے پڑھ دیجئے…!
 محترم ج۔چ۔ح۔خ نے ہماری اور پڑھنے والوں کی دس بارہ پشتوں پر احسان کرتے ہوئے ایک ریڈیائی ڈرامہ داغ دیا جس کے کردار کچھ اس قسم کے تھے:
 لرزتی آواز… بوڑھی آواز… جوان آواز… زنانی آواز… مردانی آواز… لڑکھڑاتی آواز… لہلہاتی آواز۔
 جب ان سے ان بل کھاتی لہلہاتی آوازوں کو ایک ایک عدد نام دینے کی درخواست کی گئی تو ان کا ادبیانہ جوش لہریں مارنے لگا۔ تب تو وہ کاغذی بم گولے چلے کہ اگر فاصلہ اتنا زیادہ نہ ہوتا تو ہم میں سے ایک کی شہادت یقینی تھی…!
 جناب ل۔م۔ن۔و صاحب نے ہر تقاضے کے جواب میں ایک نئے اسٹائل کی معذرت کی اور آخر میں معاملے پر یوں خاک ڈالی: ’’آہ۔ آپ کے تقاضوں کے جواب میں آپ کو جتنے خطوط لکھ چکا ہوں اگر اتنی ہی سطروں کا ایک مضمون لکھ کر بھیج دیتا تو آج آپ کی اور میری یہ حالت نہ ہوتی اور آہ آہ۔ ہم سب کرکے پچھتاتے ہیں اور پچھتانے کے بعد پھر کچھ نہیں کرتے تاکہ پچھتانے کا پھر موقع مل سکے…!‘‘
 ادیبوں اور شاعروں کی محبوبانہ اداؤں اور وعدوں سے جب ہم پوری طرح متعارف ہوگئے تو ہمارے بھی پرپرزے نکل آئے۔ اب ان پر اعتبار کرکے خوشی خوشی راہی ٔ ملک عدم ہونے کے بجائے ان سے چیزیں بھیجنے کی صحیح تاریخ مانگنے لگے یہاں بھی م۔ک۔گ صاحب ہمیں وہ مات دے گئے کہ جب تک جئیں گے ماہی ٔ بے آب (بلکہ مردے بے آب کہ آج پانی بھی کسے نصیب ہے) کی طرح تڑپتے رہیں گے بلکہ اگر ہم میں ذار بھی خودداری باقی ہوتی تو ہم کب کا سنیاس لے چکے ہوتے۔
  ہوا یہ کہ ہمارے تقاضوں کے جواب میں آپ نے انتہائی وثوق سے فرمایا… ’’نظم آپ کو اپریل کے آخری ہفتہ میں مل جائے گی۔ اطمینان رکھئے۔‘‘
 اپریل کا آخری ہفتہ گزرا، مئی کا آخری ہفتہ گزرا اور پھر جون، جولائی، اگست اور مارچ سب کے پہلے اور آخری تمام ہفتے اسی سبک رفتاری سے ہمارا منہ چڑاتے ہوئے گزر گئے اور آنجناب کے اطمینان میں ذرا فرق نہیں آیا۔
 پتہ چلا کہ یہاں بھی قصور اپنا ہی ہے، ک۔گ صاحب کا نہیں ! انہوں نے اپریل کا آخری ہفتہ کہا تھا اور اپریل تو ہر سال آتا ہے…! اگر ہم اس سے آدھے بھی عقلمند ہوتے جتنا خود کو سمجھے ہوئے تھے تو ہمیں چاہئے تھا ان سے سن بھی لکھوالیتے !
 تو صاحب ، اگر آپ اپنے جسم پر چڑھی ہوئی چربی کی تہوں کو بغیر ڈائیٹنگ کے اتارنا چاہتے ہیں ، اپنے دین کے چین کو شکر اور رات کی نیند کو مٹی کا تیل (عرف عنقا) بنانا چاہتے ہیں تو آئیے، کرسی ٔ ادارت حاضر ہے…!
 خدا جانے سچ یا جھوٹ۔ راوی تو کہتا یہی ہے…!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK