Inquilab Logo Happiest Places to Work

تخت راؤ

Updated: June 23, 2025, 2:59 PM IST | Gopichand Dhangar (Translated from Marathi: Moinuddin Usmani) | Mumbai

بھری محفل میں مت دے تو مونچھوں پر تاؤ، بڑے دنوں بعد پڑا ہے تجھ سے پالا‘‘، ’’ہو ہو رے راما‘‘، گرام دیوتا کھنڈے راؤ مندر کے پاس جمع بھیڑ۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ڈبانگ، ڈبانگ، ڈبانگ، ڈبانگ، ڈبانگ، ڈبانگ، ڈبانگ، ڈبانگ ڈڈم ڈام ڈام ڈم، ڈڈم ڈام ڈام ڈم، ’’بھری محفل میں مت دے تو مونچھوں پر تاؤ، بڑے دنوں بعد پڑا ہے تجھ سے پالا‘‘، ’’ہو ہو رے راما‘‘، گرام دیوتا کھنڈے راؤ مندر کے پاس جمع بھیڑ۔ جہاں پیر رکھنے کی بھی گنجائش نہیں۔ چیتر مہینے کے تیرس کی یہ بھیڑ یہ شو ر غوغا۔ صدیوں سے انسانوں کے زندہ رہنے کا یہ اجتماعی حصہ۔ چھوٹے، بڑے، عورتیں بچے آس پاس کے چار پانچ گاؤں کے ساری عوام کا کھنڈے راؤ دیوتا پر کامل یقین۔ آج یاترا کا دن، خوشیوں کی طغیانی کا دن۔ گائوں کی جترا، اور مہتمم سترا۔ ہر ایک کاالگ سر، علاقے میں بڑے بڑے بینر، بینر پر گاؤں کے رہنماؤں کی نیک خواہشات کی بڑی بڑی تصاویر، پانچ بجے جترا کی بارہ گاڑیاں کھینچنے کی رسم۔ بارہ گاڑیاں کھینچنے کا موقع، ہے فکر ی کا۔ سبھی کے کلیجے کی تائید کا۔ بارہ گاڑیوں کو آگے ڈھکیلنے والے ہاتھ اور گاڑیوں پر چڑھ کر خرمی کرنے والے نوجوان۔ نوجوانوں کی چیخ وپکار، سیٹیاں ، تالیاں اور بہت کچھ۔ سب طرف خوشیوں کے لمحات۔ اسی ماحول کے ساتھ ہی ایک نئی دنیا، آدمی کے حصے میں آئی ہوئی زندگی۔ اپنے ہی گمان میں جینے والے، اپنے اندرون کی فنی للک، فن کو زندگی کا درجہ دینے والے، عوامی فنکاروں کا اپنی پیشکش پر اعتماد، اسی اعتماد کے ہمراہ جینے والا گویا راما۔ اور اسی اعتماد کے ساتھ راما گویا تہذیبی گیت پیش کر رہا تھا۔ تال اور سر میں۔ 
 ’’زمیں کا پیٹ پھاڑ کر کھودا کنواں /ناٹک سجانے والا ایسا بھانڈ کون سا رے/ہو ہو رے راما رے‘‘راما تہذیبی گیت گا رہا تھا۔ دو نچنیا ہاتھ مٹکا مٹکا کر ناچ رہی تھیں۔ چونڈک ٹن ٹن بج رہا تھا۔ طنطنہ تن تن کر رہا تھا۔ تہذیبی گیت آگے بڑھ رہا تھا۔ کھیواڑی کے لوگ زمین پر بیٹھے تھے۔ مٹی پر مانڈی مار کر نشستیں بنائی تھیں۔ تماش بین احباب تہذیبی گیت سن رہے تھے، دم سادھے بیڑیاں پھونک رہے تھے۔ میلے میں بجنے والے کھلونے نوجوان زور زور سے بجا رہے تھے۔ کچھ لوگ نشے میں دھت تھے۔ نشہ آور اشیا کی بُو چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ پاس ہی ایک شخص آڑا پڑا تھا۔ جس پر مکھیاں بھنبھناتے نظر آ رہی تھی۔ سبھی خاموش رہنے کی کوشش کررہے تھے۔ تماشے میں تہذیبی گیت جو سننا تھا۔ 
 آپس میں کھسر پھسر شروع تھی ’’تہذیبی گیت کیا ہوتا ہے رے بھائی ‘‘، ارے وہ ایک علم ہوتا ہے، کون سا شہریت کا؟ارے کیا پھینکتا ہےتو، اٹھ یہاں سے۔ ارے خاموش رہو رے بوگان ہو۔ ارے سننے دو نہ۔ تمہاری طرح وہاٹس ایپ اور فیس بک والوں کو کیا سمجھے گا ?۔ کیا گھنٹہ سمجھے گا کہ تہذیبی گیت کیا ہوتا ہے۔ سمجھنے کو کیا تم راجہ رام شاستری وایا جار ہے ہو؟ ایک دوسرے پر فقرہ کسی، ہر ایک کی قابلیت پر سوالاور ایک دوسرے پر چھینٹا کشی شروع تھی۔ کچھ جاننے والے محض تہذیبی گیت سننے ہی علاقے سے آئے تھے۔ وہ کچھ نہ بولتے صرف تہذیبی گیت سن رہے تھے۔ راما شاعر بلند آواز میں تہذیبی گیت گا رہا تھا ?۔ نچنیا لڑکیاں جوش وخروش سے ناچ رہی تھیں۔ ناچنے ناچتے پسینے سے شرابور ہو رہی تھیں۔ گرمیوں کے دن تھے۔ بہت دور سےسبھی فنکار دوپہر میں پہنچے تھے۔ کچھ دیر آرام کیا تھا۔ آرام کے بعد سبھی کا ’’تخت راؤ‘‘ گاؤں سے نکالا گیا تھا ? گلی کوچوں سے ہو کرتخت راؤ گاؤں کے باہر کھنڈے راؤ کے مندر کے قریب پہنچ گیا تھا۔ تخت راؤ پر تقریباً دس بارہ فنکار تھے۔ جیتو طنطنیہ، وٹھو ڈھولکی، رمیا چوڑکیا، سمیا تال، اتم کڑی چھایا، ویشئی ، سنگیت، مائی، سنتوش ناچیہ، یہ سب پیٹ کی خاطر مشقت کرتے۔ 
 راما شاعر نے تہذیبی گیت کا مکھڑا پیش کیا۔ ’’ ارے پہاڑ پر چیل نے دیکھا خوشبو دار پانی/آئی اصل ممتا شکتی پنڈ جھٹپٹایا اس نے، ہو ہو رے راما‘‘تہذیبی گیت کا مطلب راما لا جواب حسن کے ذریعے کہہ رہا تھا۔ تاریخی، تہذیبی حوالوں کے ذریعے تہذیبی گیت کی اہمیت بتلا رہا تھا ?۔ راما کے اس بیان کے دوران ہی پبلک سے آواز آتی ہے۔ ’’ابے او یہ بند کر، اچھا سا گانا لگاؤ ?‘‘، ارے صاحب یہ حکمت سن لیجئے۔ شور نہ کریں ، یہ علم ہے حکمت ہے۔ حکمت رکھ اپنے پاس ، زیادہ ہشیاری مت کر۔ ارے مائی باپ، ہم آپ کی خدمت کے لئے آیے ہیں۔ ارے ہندی گانا لگاؤ، ہمیں ڈانس کرنا ہے۔ صحیح ہے ہمیں ناچنا ہے۔ لگائو دو چار گانے۔ 
 ارے بھائی یہ کھنڈے راؤ کے نزدیک کی حاضری ہے۔ مقدس خدائی علم کی جگہ ہے۔ تہذیبی گیت اسی مقام پر پیش کیا جاتا ہے۔ رات میں تماشا شروع ہوا تو سارے آپ کی پسند کے گانے پیش کریں گے ?۔ ہم فنکاروں کا فن آپ ہی کے لیے ہے میرے مائی باپ۔ 
 فنکار عاجزی کر رہے تھے۔ گاوں کے لوگ مگر ان کے دل جیسی بات نہ ہونے کے سبب ہمری تمری پر اتر آئے تھے۔ کچھ سمجھ دار لوگ فنکاروں کی حمایت کر رہے تھے ایسے ایسے میں گاؤں کے نوجوان دو گروپ میں تقسیم ہوگے۔ بحث و مباحثہ ہوا۔ آپس میں جھگڑا ہو جاتا۔ ایسی نوبت آگئی۔ کچھ نوجوان یہ ساری کارروائی موبائل میں شوٹ کررہے تھے۔ وہاٹس ایپ کے ذریعے مختلف گروپس میں فارورڈ کر رہے تھے ?۔ گاؤں کے گروپ کچھ اس طرح کے تھے، دنیا داری، اپنی اسکول، جھٹکا، اشارہ، لنگوٹی یار، راہل بھاؤ پریوار، ہم ہی راجہ، ہماری ہوا ایسا لگنے لگا تھا کہ ایک ہی حادثے کے ثمرات چاروں طرف پھیلتے کیا؟ مگر ایسا کچھ ہوا نہیں۔ اس وقت فنکاروں نے کھنڈوبا کا گیت لگایا تھا ?۔ پوری دل جمعی سے وہ گیت پیش کر رہے تھے ?، ناچ رہے تھے۔ تماشا میدان کا مالک بھیکاتیہ وہاں حاضر ہوگیا۔ کچھ ہی دیر قبل اس نے کھلبلی سے متعلق فون کردیا گیا تھا۔ بے ڈھب، بڑی ہوئی ڈاڑھی، بدن پر سفید کرتا، مٹ میلا مفلر، کان میں بالی، ہاتھوں میں چاندی کے کڑے۔ بائیں ہاتھ کی تین انگلیوں میں انگوٹھیاں۔ پیروں میں بوٹ اور توند باہر کو نکلی ہوئی، ایسی بھدی جسمانی بناوٹ والا یہ اکھاڑہ مالک۔ پڑوس میں راما شاعر اس کے کان میں کچھ پھسپھسا رہا تھا ? کچھ دیر بعد ڈرتے ڈرتے مایا اس کے قریب آتی ہے ?۔ کنارے پر موجود بچہ اس کے چہرے کو مٹ مٹ دیکھ کر ہنستا ہے ۔ اسی اثناء اکھاڑہ مالک اس کے رخسار پکڑ کر پوچھتا ہے کہ راجے بھوک لگی ہے کیا؟تبھی مایا کہتی، اتنی جلدی ہم ماں بیٹے کی یاد آگئی ؟ارے دوپہر کو گاڑی میں نیند ہو نہ سکی۔ شام میں ذرا آنکھ لگ گئی تبھی یہ فون آیا۔ رات میں کھڑا ہونا پڑتا ہے نہ۔ تمہیں تو خوب معلوم ہے کہ مجھ پر ہی انحصار ہے۔ اب اپنے راجہ کو گاڑی میں لیکر جاؤ۔ اگر سویا نہیں تو رو رو کر بے زار کر دے گا۔ ہم دو چار گیت پیش کر کے آتے ہیں۔ 
 مایا اور اکھاڑہ مالک نے دو سال قبل ہی شادی کی تھی۔ نو دس ماہ کا ان کا یہ بچہ۔ نارائن گاؤں میں تماشا کرتے ہوئے مایا پر اس کا دل آگیا تھا۔ اس نے اسے اپنے اکھاڑے میں شامل ہونے کے لئے اصرار کیا تھا۔ مایا بہترین لاونی پیش کر نے والے نچنیا تھی۔ اکھاڑے کی تو ہی مالکن ہوجا ایسا اس نے کہا تھا ?۔ ویسے دیکھا جائے تو گاؤں کی جانب اکھاڑہ مالک کا خاندان بھی تھا۔ اسے دو بچے بھی تھے۔ تماشے کا موسم ختم ہوتے ہی وہ گاؤں کی زمین کا رخ کرتا اور کھیتی کرکے خاندان کی پرورش کیا کرتا تھا ?۔ اب اکھاڑے والی یہ عورت اور بچہ بھی ساتھ میں تھا۔ مایا کی وجہ سے دونوں میں اکثر تکرار ہوتی۔ تماشہ فنکاروں کے درمیان زندگی گزارتے ہوئے اس طرح کے معاملات کبھی محسوس تو کبھی غیر محسوس طور پر ہونا عام سی بات تھی۔ مایا گو کہ تماشہ مالکن تھی لیکن پھر بھی ہر وقت جب تخت راؤ ہوتا یا رات کا لوک ناچ وہ ہمیشہ پیش پیش رہتی۔ ناچ پیش کرنے کا اس کا مخصوص طریقہ تھا۔ ایک طرح کی چھاپ تھی۔ مایا لاونی ماہر اور تماشہ پسند سامعین کی پسند تھی، کھن کھن کرتے سکے کی مانند تھی۔ تخت راؤ کے سبھی فنکاروں نے روحانیت سے بھرپور دوچار گیت سنائے۔ کھنڈے راؤ مہاراج کی جے بول کر ٹریکٹر تماش گاہ کی جانب چل پڑا۔ ان کے پیچھے گاؤں کے شوقین۔ مراد بردار اور غلاف بردار چیخ رہے تھے۔ خوشیاں منا رہے تھے۔ اس موقع پر چاروں طرف دھول پسر گئی تھی۔ تخت راؤاب گاؤں سے نکل کر کھنڈے راؤ مندر کی زیارت اور حاضری کے بعد دوبارہ رات میں تماشا پیش کرنے کے لئے تیار ہوگیا تھا ?۔ 
 رات کے کھانے کے بعد فنکار طنابوں کے پیچھے میک اپ میں مشغول تھے۔ گاؤں کے باذوق حضرات کی نظریں تیاری میں مصروف فنکاروں کی جانب تھیں۔ باذوق سامعین اپنی اپنی نشستیں سنبھال رہے تھے۔ اسٹیج پر رنگ برنگے قمقموں اور ساؤنڈ سسٹم سے مزین تھے۔ سامنے تین آلات صوت تھے۔ داخلہ اور خروج کے لئے اسٹیج کے مرکز پر دو بڑے بڑے پردے تان د ئیے گئے تھے۔ اسٹیج پر چونڈک، نال، طنطنے، ڈھولکی، کڑی، ڈھولک اور دیگر ساز پڑے تھے۔ تماشہ پیش کرنے سے قبل گیت پیش کرنے والے چار ساتھی اسٹیج پر آتے اور گیت پیش کرتے ہیں۔ ڈبانگ، ڈبانگ، ڈبانگ، ڈبانگ ڈبانگ، ڈبانگ، ڈبانگ، ڈبانگ، ڈڈم، ڈام ڈام ڈم، ڈڈم، ڈام ڈام ڈم، گن نیمی لا سومواری سومواری ....آلے مہادیوا چی سواری ....ہو ہو راما جی ر جی

(مراٹھی سے ترجمہ : معین الدین عثمانی )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK