Inquilab Logo Happiest Places to Work

دِلی ّکا آخری ادیب: میرزا فرحت اللہ بیگ

Updated: April 27, 2025, 12:00 PM IST | Agha Mohammad Ashraf | Mumbai

میرزا فرحت اللہ بیگ کی باتوں میں جوانوں کا سا جوش ہوتا تھا۔ بچوں کی طرح ہر بات میں دلچسپی لیتے تھے۔ وطن سے باہر رہنے والوں کے دل میں ہمیشہ وطن کی محبت زیادہ ہوتی ہے مگر میرزا صاحب کو تو دلی سے محبت نہیں، عشق تھا۔ ہر ہر قدم پر انہیں پرانی دلی اور اُس کے رہنے والے یاد آجاتے تھے۔ صاحب قلم تھے مگر فن خطابت پر بھی بلا کی دسترس تھی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

میرزا فرحت اللہ بیگ کا سب سے پہلا مضمون میں نے لکھنؤ کے رسالے الناظر میں پڑھا تھا۔ یہ مئی ۱۹۲۷ء کا ذکر ہے۔ رسالہ الناظر میں ان کا مشہور مضمون ’’دلی کا آخری مشاعرہ‘‘ چھپا تھا اور مجھے اب تک یاد ہے کہ اس مضمون کی پہلی قسط پڑھنے کے بعد دوسری قسط کا مجھے کس قدر بے چینی سے انتظار تھا۔ 
اس کے بعد میرزا صاحب کے اور بھی مضمون مَیں نے پڑھے لیکن میرے ذہن میں ان کا تصور ہمیشہ دلی کا آخری مشاعرہ لکھنے والے ادیب کی حیثیت سے ہی رہا۔ میرا خیال ہے کہ دلچسپی کے اعتبار سے ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کا درجہ بھی بہت اونچا ہے۔ مجھے یہ مضمون اس لئے بھی پسند آیا کہ ڈپٹی نذیراحمد کے پوتے سراج الدین احمد میرے ہم جماعت تھے اور میں ان کے ساتھ اکثر ڈپٹی صاحب کے بتاشوں کی گلی والے مکان میں آیا جایا کرتا تھا۔ بہت ممکن ہے کہ داستان کا لطف بڑھانے کیلئے انہوں نے اپنے بیان میں کسی حد تک مبالغے سے بھی کام لیا ہو مگر مَیں ایسے لطیف مبالغے کو ایک ادیب کیلئے جائز سمجھتا ہوں۔ جس طرح مصور کو اپنی تصویر کے رنگوں میں ایک حد تک مبالغے کی اجازت ہوتی ہے، اُسی طرح ایک ادیب اور انشاپرداز کو بھی حق حاصل ہے کہ مبالغے کی رنگ آمیزی سے اپنے بیان کو رنگین بنالے۔ ڈپٹی نذیراحمد کے ہاں مکانوں اور کتابوں کا حساب کتاب لکھنے پر ایک بوڑھے منشی صاحب ملازم تھے۔ غالباً انہوں نے اپنی جوانی میں ڈپٹی صاحب کو دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ باتوں باتوں میں ان سے مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضمون کاذکر آگیا تو بولے واقعی فرحت صاحب نے ڈپٹی صاحب کی تصویر کھینچ دی ہے۔ 
میرزا فرحت اللہ بیگ سے میری پہلی ملاقات دسمبر ۱۹۳۸ء میں ہوئی۔ اگرچہ خط و کتابت اُن سے ۱۹۳۷ء میں شروع ہوچکی تھی۔ اُن دنوں مَیں دُون اسکول دہرہ دون میں استاد تھا اور ہائی اسکول کے طلبہ کیلئے اردو کا ایک نصاب تیار کررہا تھا۔ میری میرزا صاحب سے بالکل بھی واقفیت نہ تھی لیکن ان کے مضمون کو پڑھ کر اتنا اندازہ ضرور ہوگیا تھا کہ یہ دلی پر جان دیتے ہیں۔ چنانچہ اسی تقریب سے میں نے انہیں خط لکھا اور اپنے نصاب میں میرزا صاحب کے ایک مضمون کو شامل کرنے کی اجازت چاہی۔ چند روز کے بعد میرے خط کا حیدرآباد سے جواب آگیا۔ اس خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ مردِ غازی پر مالِ غنیمت حلال ہے۔ تم شوق سے میرے مضمون کو اپنے انتخاب میں شامل کرلو۔ 
نومبر ۱۹۳۸ء میں دون اسکول میں سالانہ جلسے کے موقع پر میں نے دلی کے آخری مشاعرے کا ایک سین اسٹیج پر پیش کیا اور اس کی بھی باقاعدہ اجازت میرزا صاحب سے مانگی۔ میرزاصاحب نے صرف اجازت ہی نہیں دی بلکہ اسٹیج کے متعلق چند کارآمد مشورے بھی لکھ کر بھیجے جن سے میرا کام بہت آسان ہوگیا۔ 
دسمبر ۱۹۳۸ء میں کرسمس کے موقع پر میں دلّی آیا۔ اُنہی دنوں میرزاصاحب بھی دلی آئے ہوئے تھے۔ اس بات کی خبر مجھے لالہ لاڈلی پرشاد صاحب رئیس دہلی کی زبانی ہوئی۔ میں نے میرزاصاحب سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا اور شاید یہ بات لالہ صاحب نے میرزاصاحب تک پہنچا دی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اُسی دوران میرے عزیز دوست بھارت چند کھنہ بھی دلی آئے ہوئے تھے اور اب حیدرآباد دکن واپس جارہے تھے۔ خداجانے میرزاصاحب تک یہ خبر کیسے پہنچ گئی کہ میں حیدرآباد جارہا ہوں۔ چنانچہ یہ دلی کے ریلوے جنکشن پر تشریف لے آئے۔ میں کھنہ کو رخصت کرنے اسٹیشن تک آیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ حیدرآبادی وضع کی شیروانی پہنے پلیٹ فارم پر ادھر اُدھر چکر لگارہے ہیں۔ میں سمجھا کوئی صاحب اسی ٹرین سے جارہے ہوں گے۔ ان کے ساتھ ایک دلی کے صاحبزادے بھی تھے کہ جنہیں میں خوب جانتا تھا۔ بار بار میرا ان کا آمنا سامنا ہوا مگر انہیں میں پہچان نہیں سکا۔ ایک دفعہ جب یہ بزرگ میرے قریب سے گزرے تو میں نے اِن کو یہ کہتے سنا: اچھا یہ ہیں آغا اشرف۔ چلو دیکھ لیا اِن کو، بس اب چلو۔ جیسے مجھے کسی غیبی آواز نے خبر دی۔ میں نے فوراً پوچھا: آپ میرزا فرحت اللہ بیگ تو نہیں ؟ پھرتو میں ان سے لپٹ گیا۔ جن دوست کو میں ٹرین پر رخصت کرنے آیا تھا خدا جانے ان کا کیا حشر ہوا مگر میں تو میرزا صاحب کے ساتھ ایسا چپکا کہ رات کے نو بجے تک باتیں ہوتی رہیں۔ 
ریلوے اسٹیشن کے پاس ہی کمپنی باغ کا ایک کلب تھا۔ یہ مجھے اپنے ساتھ وہاں لے گئے۔ کلب میں ان کے ایک دوست بلیرڈ کھیل رہے تھے۔ ہم دونوں کرسیوں پر باتیں کرتے رہے مگر باتوں باتوں میں میرزاصاحب اپنے دوست کو کھیل کے اشارے بھی بتاتے جاتے تھے۔ اس روز یہ خود تو بلیرڈ نہیں کھیلے مگر جس انداز سے یہ کھیل کے متعلق ہدایتیں دے رہے تھے اس سے مجھے یہ خیال ضرور ہوا کہ میرزاصاحب کو کھیل سے خوب واقفیت تھی۔ 
ان کی باتوں میں جوانوں کا جوش تھا۔ بچوں کی طرح ہر بات میں دلچسپی لیتے تھے۔ وطن سے باہر رہنے والوں کے دل میں ہمیشہ وطن کی محبت زیادہ ہوتی ہے مگر میرزا صاحب کو تو دلی سے محبت نہیں، عشق تھا۔ ہر ہر قدم پر انہیں پرانی دلی اور اُس کے رہنے والے یاد آجاتے تھے۔ 
کئی برس ہوئے میں نے میرزاصاحب کا ایک مضمون پڑھا تھا جس میں انہوں نے پرانی دلی کا موجودہ زمانے کی دلی سے مقابلہ کیا تھا۔ جامع مسجد، چاؤڑی بازار، چاندنی چوک اور قطب صاحب میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کا ذکر اس مضمون میں میرزاصاحب نے بہت چبھتے ہوئے لفظوں میں کیا تھا۔ انہوں نے آج سے پچاس سال پہلے کی دلی دیکھی تھی۔ اس وقت کی دلی میں اور آج کی دلی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ تو پچاس برس کا فرق ہے۔ میرے دیکھتے دیکھتے گزشتہ بیس پچیس برس میں دلی میں عجیب و غریب تبدیلیاں ہوئی ہیں ، ایسی تبدیلیاں کہ ان کے خیال سے دل کو رنج ہوتا ہے۔ 
دسمبر ۱۹۳۸ء کے آخری ہفتے میں میرزاصاحب سے میری کئی ملاقات ہوئی۔ انہی دنوں مشن کالج دہلی میں طلباءِ قدیم کا ایک جلسہ ہورہا تھا۔ اس میں مَیں بھی میرزاصاحب کے ساتھ گیا۔ وہاں سی ایف اینڈریوز بھی تشریف رکھتے تھے۔ ان سے بہت محبت سے ملے اور یہ دونوں بہت دیر تک پرانے دوستوں کا ذکر کرتے رہے۔ رات کو کالج میں ڈنر تھا۔ ڈنر کے بعد احباب کی فرمائش پر میرزا صاحب نے بھی تقریر کی۔ میرا خیال ہے کہ جو تازگی، سلاست اور ظرافت ان کے مضامین میں پائی جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ لطف ان کی تقریر میں مجھے آیا۔ بہت دیر تک یہ مشن کالج میں اپنے دورِ طالب علمی کا ذکر کرتے رہے اور ہر دلچسپ واقعے کو اس خوبی سے ادا کرتے تھے کہ اس کی ہوبہو تصویر آنکھوں کے سامنے کھنچ جاتی تھی۔ جلسے کے دوران مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ طالب علمی کے زمانے میں میرزا صاحب کرکٹ اور فٹبال کے بہت عمدہ کھلاڑی تھے اور ہر سال کالج میں شیکسپئر کے ڈرامے اسٹیج کرنے میں سب سے پیش پیش رہتے تھے۔ 
انہی دنوں جوشؔ ملیح آبادی بھی دلی آئے ہوئے تھے۔ میں نے اپنے مکان پر میرزا صاحب اور جوشؔ کو چائے کی دعوت دی۔ ان دنوں مَیں کشمیری دروازے کے اپنے قدیم خاندانی مکان میں رہا کرتا تھا۔ میرزا صاحب کو جب بلاوا دینے گیا تو احتیاطاً مکان تک پہنچنے کا نقشہ بھی بیان کرنے لگا کیونکہ میرا مکان بہت سی گلیوں کے اندر تھا۔ اس پر یہ بہت بگڑے اور کہا کہ دلی کی کون سی گلی ایسی ہے جس کا راستہ مجھے نہیں معلوم۔ میاں میں دلّی والا ہوں اور دلی کے ہر گلی کوچے سے واقف ہوں۔ چنانچہ مقررہ وقت پر میرزا صاحب میرے مکان پر پہنچ گئے۔ اس میں لطیفہ یہ ہے کہ اس موقع پر میں نے خواجہ حسن نظامی، جوش، حکیم آزاد انصاری مرحوم اور چند دوسرے دوستوں کو بھی بلایا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کو راستہ ڈھونڈنے میں دیر لگی مگر میرزا صاحب ٹھیک وقت پر آن پہنچے۔ اس روز کی محفل میں پہلی مرتبہ مجھے معلوم ہوا کہ میرزا صاحب شعر بھی کہتے ہیں۔ 
میرزاصاحب سے میری آخری ملاقات ۳۱؍ دسمبر ۱۹۳۸ء کی رات کو ہوئی۔ اس شب دہلی ریڈیو اسٹیشن سے نئے سال کی خوشی میں اور پرانے سال کو وداع کہنے کے لئے ایک پروگرام براڈکاسٹ ہوا تھا۔ یہ پروگرام میرزاصاحب نے مکالمے کی شکل میں لکھاتھا۔ ۱۹۳۸ء اور ۱۹۳۹ء کا آپس میں تعارف ریڈیو کیلئے ایک نئی چیز تھی۔ میرزاصاحب ۱۹۳۸ء یعنی قدیم سال تھے اور مَیں نئے سال (۱۹۳۹ء) کا پارٹ ادا کررہا تھا۔ اس مکالمے میں انہوں نے واقعات ِ حاضرہ پر جس انداز سے تبصرہ کیا تھا، یقین جانئے یہ ریڈیو کی تاریخ میں ایک نیا باب تھا۔ 
اس کے چند ہفتے بعد میرا تقرر لندن یونیورسٹی میں اردو کے لیکچرار کی حیثیت سے ہوگیا اور لندن جانے سے پہلے میں نے میرزاصاحب کو لکھا کہ آپ نے مکالمے میں مجھے ۱۹۳۹ء بنایا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات مجھے راس آگئی۔ 
لندن کے دورانِ قیام میں ان کے چھوٹے صاحبزادہ میرزا رفعت اللہ بیگ سے ملاقات ہوئی جو اُن دنوں ویلز میں ڈاکٹری کی تعلیم پارہے تھے۔ ان کے ذریعے میرزا صاحب کی خیریت کا حال اکثر معلوم ہوتا رہتا تھا۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء میں ایک کمیٹی کے سلسلے میں مسز سروجنی نائیڈو کے ہاں ڈاکٹر غلام یزدانی سے میری ملاقات ہوئی۔ میرزا فرحت اللہ بیگ نے ڈپٹی نذیر احمد کے مضـمون میں ڈاکٹر غلام یزدانی کا ’’دانی میاں ‘‘ کے نام سے بار بار ذکر کیا ہے اور اسی وجہ سے مَیں ان سے خوب واقف تھا۔ ڈاکٹر یزدانی سے سب سے پہلے میں نے میرزا صاحب کی خیریت پوچھی۔ اس واقعے کے چھ مہینے بعد شملہ میں مجھے انہی ڈاکٹر یزدانی کے خط سے معلوم ہوا کہ دلی کے آخری ادیب ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے۔ 
دلی کی خاک سے جو محبت میرزا فرحت اللہ بیگ کو تھی اُس کی جھلک ان کے مضامین میں ملتی ہے مگر میں نے اس محبت کا اندازہ ان کی گفتگو سے بھی کیا تھا۔ اسی محبت نے میرزا صاحب کے قلم سے دلی کے تاریخی مشاعرے جیسا مضمون لکھوایا۔ میرزا فرحت اللہ بیگ نے بیسوں مضمون لکھے اور ان میں سے ہر مضمون ان کی طرزِ تحریر کا ایک عمدہ نمونہ ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اگر یہ دلی کے تاریخی مشاعرے کے سوا کوئی اور مضمون نہ بھی لکھتے تب بھی ان کا درجہ اردو ادب کی تاریخ میں ویسا ہی قائم رہتا۔ 
(بحوالہ: یادگارِ فرحت)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK