Inquilab Logo Happiest Places to Work

بحران کا عہد اَور اَدب کی صورت حال

Updated: September 10, 2023, 12:37 PM IST | Mubeen Mirza | Mumbai

اجتماعی بحران، سماجی و سیاسی مسائل، تہذیبی ابتری اور انتشار و افتراق کی جو صورتِ حال اس وقت ہمارے یہاں ہے، اس میں ادیب کو سوچنا ہو گا کہ اس کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟

A writer may be happy or unhappy with the conditions of his nation and country, but he is never oblivious, indifferent and insensitive to them. Photo: INN
ادیب اپنی قوم اور ملک کے حالات سے خوش یا ناخوش تو بےشک ہو سکتا ہے، لیکن ان سے غافل، لاتعلق اور بے حس ہرگز نہیں۔ تصویر:آئی این این

ہمارے یہاں مسلسل بحران کا عہد ہے۔ تانتا سا بندھا ہوا ہے، یکے بعد دیگرے بحران چلے آرہے ہیں ۔ سیاسی بحران، معاشی بحران، تہذیبی بحران، ارضی و سماوی آفات کا پیدا کردہ بحران، باہمی اعتبار و اعتماد کا بحران اور سب سے بڑھ کر حس و شہود کا بحران۔ یوں تو ان میں سے ہر بحران اپنی جگہ سنگین اور مضرت رساں ہے، لیکن آخرالذکر تو خدا محفوظ رکھے، ہماری انسانیت کے درپے ہے۔ ذرا غور تو کیجئے، آج ہمارے آس پاس بلکہ سامنے جو کچھ ہو رہا ہے، ہم اسے یوں دیکھ رہے ہیں جیسے نہیں دیکھ رہے، گویا ہمارا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اجتماعی بحران، سماجی و سیاسی مسائل، تہذیبی ابتری اور انتشار و افتراق کی ایسی صورتِ حال جیسی اس وقت ہمارے یہاں ہے، اس میں ادیب کو سوچنا ہو گا کہ اس کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟
معاشرے کے اور بھی اداروں اور افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان حالات میں سامنے آئیں اور آواز اٹھائیں ، کم سے کم ادیبوں شاعروں کی طرف سے تو کوئی آواز، کوئی سوال، کوئی ردِعمل آنا چاہئے۔ کچھ تو ایسا ہونا چاہئے کہ جس سے ہمیں اپنے اجتماعی وجود اور اپنی ہیئت ِ کلی کا کوئی ثبوت فراہم ہو پائے، ہم جان پائیں کہ قومی، تہذیبی اور اجتماعی سطح پر ہم زندہ اور باہم مربوط ہیں ۔ زندگی کا جو تجربہ ہمارے اردگرد وقوع پزیر ہے، بے شک ہم اپنی انفرادی حیثیت میں اسے روکنے یا بدلنے پر قادر نہیں ہیں ، لیکن ہم اسے قبول بھی نہیں کرتے۔ کیوں ؟ کیا یہ وقت بولنے، جاگنے، سوال اٹھانے اور جگانے کا تقاضا نہیں کرتا؟
بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ وقت ایسا کوئی تقاضا نہیں کرتا۔ کرتا ہے جناب اور پوری شدت سے کرتا ہے، تو کیا ہمارے یہاں ادیب شاعر سب کے سب اٹھ گئے، ادب کی بساط لپیٹی جاچکی؟ ایسا بھی نہیں ہے۔ شعر، افسانہ، تنقید، ناول، تحقیق، ترجمہ، سبھی کچھ تو ہو رہا ہے۔پھر یہ خاموشی چہ معنی؟
اس کا جواب تو ادیب شاعر ہی دے سکتے ہیں ۔ان کی طرف سے کچھ ٹوں ٹاں بھی سنائی دے رہی ہوتی تو پھر سوال کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اصل میں ہمارے ادیب نے اپنے اجتماعی وجود کی طرف سے بے حسی اور لاتعلقی اختیار کر لی ہے۔ بات صرف اتنی بھی ہوتی تو اندوہ ناک کہلاتی، لیکن معاملہ اس سے سوا ہے، یعنی اب قوم کو بھی ادیب کی ضرورت کا احساس نہیں رہا ہے۔ وہ بھی اب ایسی کسی صورتِ حال میں ان کی طرف نہیں دیکھتی۔ معلوم نہیں سماج کو اُن کی طرف سے صبر آگیا ہے یا اُن کی بے وقعتی اور بے اثری کا یقین کر لیا ہے۔ یہ سمجھ لیا ہے کہ ادیب شاعر تو بے چارے اپنی خیالی دنیا میں رہنے والے لوگ ہیں ، ان کی آنکھیں وقت کے تغیرات کی چکا چوند کو سہار سکتی ہیں اور نہ ہی ترقی کے نام پر امڈ کر آتے ہوئے اندھیروں کے پردے چاک کرکے ان کے اندر اتر سکتی ہیں ، لہٰذا اب ان کی طرف کسی امید، کسی توقع، کسی سہارے کیلئے دیکھنا ہی عبث ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ جو آئے دن کتابیں اور رسالے شائع ہو رہے ہیں ، کتابوں کے سالانہ میلے، کانفرنسز اور سیمینارز ہو رہے ہیں ، ان سب کا آخر کیا مطلب ہے؟ 
ن م راشد نے اپنے ایک خط میں اعجاز حسین بٹالوی کو لکھا کہ وہ اُن کے پبلشر کے پاس جائیں اور دریافت کریں کہ وہ ان کی کتاب کا ایڈیشن کس تعداد میں لا رہا ہے، ساتھ ہی یہ بھی تاکید کی کہ اگر وہ اکیس سو (۲۱۰۰) سے کم تعداد کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے بتا دیا جائے کہ کتاب کی اشاعت کا معاہدہ اس سے نہیں ہوسکتا۔ راشد عوامی مقبولیت رکھنے والے شاعروں میں نہیں ہیں ، یعنی اختر شیرانی، مجاز اور جاں نثار اختر کی بات نہیں ہو رہی، راشد کا ذکر ہے، ایک ایسے شاعر کا جس کے موضوعات اور طرزِ اظہار دونوں ایک سنجیدہ اور باشعور قاری کا تقاضا کرتے ہیں جو ادب و شعر کو محض وقت گزاری کے لئے نہیں پڑھتا بلکہ اس کے توسط سے حیاتِ انسانی کے معنی کا فہم حاصل کرتا ہے۔ مگر آج صورتِ حال یہ ہے کہ اچھی خاصی اہم کتاب کا ایڈیشن بھی اڑھائی سو اور تین سو تک آچکا ہے۔ سوچنا چاہئے، کیا ہمارے یہاں پڑھنے لکھنے کا رجحان رخصت ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے؟ اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو ہزار رنج کے ساتھ ہی سہی، اس کو ایک بار تسلیم کر لینا ہی حقیقت پسندی ہے لیکن اب اس مشکل کا کیا کیا جائے کہ یہ جواب اثبات میں نہیں نفی میں آتا ہے۔ یہ بات مشاہدہ نہیں ، ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہی گئی ہے۔ 
 آج کے لکھنے والوں کی کتابیں کم کم، جب کہ سینئر اور پرانے ادیبوں کی نگارشات کہیں زیادہ پڑھی جاتی ہیں ۔ اس دور کے قارئین اپنے سنجیدہ، تہذیبی شعور، ثقافتی حقائق اور سماجی رویوں سے ہم آہنگ ادیبوں سے غافل نہیں ہیں ۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ عہدِ موجود اور اس کے لوگ بھی پڑھے جانے والے ادیبوں اور ان کے کام سے بخوبی آگاہ ہیں اور یہ کہ وقت کے سارے تغیرات اور زندگی کے بدلتے ہوئے رجحانات کے باوجود مطالعے کا ذوق یکسر ختم نہیں ہوا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پڑھنے کا تناسب جو گزشتہ ادوار میں رہا ہے، آج وہ بہرحال نہیں ہے۔ اس حقیقت سے بھی صرفِ نظر ممکن ہے کہ سنجیدہ قارئین کے یہاں اس دور کے ذرا کم لکھنے والوں اور اگلوں کی نسبت اپنے پڑھنے والوں کا حلقہ کم بنایا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ خود اس عہد کے ادیب کا رویہ ہے، مغائرت اور بے حسی کا رویہ۔ پہلے اس نے اپنے سماج سے عدم توجہی اختیار کی ہے، اپنے سماجی رشتے سے اغماض برتا ہے، وہ روحِ عصر سے غافل ہوا ہے، اپنی تہذیبی ذمہ داری سے اس نے روگردانی کی ہے۔
یہاں ادیب کی آزادی اور خودمختاری سے انکار نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی اس کے تخلیقی عمل کو بھاڑے کی شے بنانے کا سوال اٹھایا جارہا ہے، ادیب کو سماجی اصلاح کی کوئی ذمہ داری بھی نہیں سونپی جارہی اور نہ ہی اس کے کام کو معاشرے کیلئے مقیاس الحرارت بنانے کا تقاضا کیا جارہا ہے۔ ادیب سے قومی یک جہتی اور استحکام کے نعرے خلق کرنے کا سوال بھی نہیں کیا جارہا اور نہ ہی کہا جارہا ہے کہ اُس کے لکھے ہوئے لفظ کو بہر صورت ملک و قوم کے لئے فائدہ مند ہونا چاہئے۔ نہیں ، ایسے کسی وظیفے کی بجا آوری کا مطالبہ ادب اور ادیب سے نہیں ہے، تاہم ادیب کا اپنے معاشرے سے ایک رشتہ تو ہوتا ہے، لگائو کا نہ سہی، لاگ کا سہی، دل داری کا نہیں ، دل فگاری کا سہی، راحت کا نہیں ، زحمت کا سہی۔ اس رشتے کا اظہار اُس کے کام میں عملاً ہونا چاہئے۔ دیکھئے، ادب اور ادیب کی حیثیت اپنی جگہ، اس کا مسئلہ نہیں ، اصل مسئلہ غفلت، بے حسی اور مغائرت کا ہے۔ ایک لمحہ سوچ کر دیکھئے، اگر ادیب ملک و قوم سے بیگانہ بھی ہوگا تو کس حد تک اور کن حالات میں ؟ ادیب اپنے سماج کو تباہی کی طرف جاتے ہوئے دیکھ کر یا کسی ابتلا کے زمانے میں اس سے لاتعلق نہیں ہوسکتا۔ ایلیٹ تو اپنی قوم، اس کی روایات و اقدار اور اداروں سے اپنی کھلم کھلا وفاداری کا اعلان کرتا ہے، اسی طرح روس، جاپان اور چین کے ادیبوں میں اکثریت ملک و قوم کا دم بھرتی نظر آتی ہے۔ دوسری طرف ایذرا پائونڈ پر ریاست کی طرف سے مقدمہ چلا، کامیو کا ایک دور وطن پرستی کا ، دوسرا دور حکومت اور ریاستی پالیسی کی مخالفت کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ادیب کا ملک و قوم سے رشتہ اتفاق یا اختلاف دونوں طرح کا ہوسکتا ہے، لیکن رشتہ خواہ کچھ بھی ہو، سچائی اور اخلاص سے خالی نہیں ہوگا اور اہم ترین بات یہ ہے کہ اس رشتے کی تشکیل میں ملک و قوم کے رویے اور ان کے معروضی حالات کا بہرحال ایک دخل ہوگا۔ سو بس طے ہوا کہ ادیب اپنی قوم اور ملک کے حالات سے خوش یا ناخوش تو بے شک ہو سکتا ہے، لیکن ان سے غافل، لاتعلق اور بے حس ہرگز نہیں ۔ 
ہمارے یہاں کیا صورتِ حال ہے؟ ہمارے ادیبوں شاعروں کی اکثریت بلکہ معدودے چند کو چھوڑ کر سب کے سب اپنی دنیا میں مگن ہیں ۔ اپنے زمانے اور اس کے اٹھائے ہوئے سوالات، اپنی قوم اور اُس کے احوال، اپنے ملک اور اُس کو درپیش حالات و مسائل سے اب انھیں ایسی کوئی خاص دلچسپی دکھائی نہیں دیتی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK