ہنگری کے مصنف لاسلو کراسناہورکائی کے نام کا اعلان کرتے ہوئے سویڈش اکیڈمی نے یہ بھی کہا کہ ان کی تصنیفات بصارت سے بھرپور اور قاری کو اپنی گرفت میں لینے والی ہیں۔
EPAPER
Updated: October 12, 2025, 12:00 PM IST | Mumbai
ہنگری کے مصنف لاسلو کراسناہورکائی کے نام کا اعلان کرتے ہوئے سویڈش اکیڈمی نے یہ بھی کہا کہ ان کی تصنیفات بصارت سے بھرپور اور قاری کو اپنی گرفت میں لینے والی ہیں۔
گزشتہ ہفتہ نوبیل انعام یافتہ ناموں کے اعلان کا تھا۔ پیر کے روز طب کے شعبے میں اس انعام کے تین حقداروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا تھا، منگل کو فزکس، بدھ کو کیمیا، جمعرات کو ادب اور جمعہ کو امن کے نوبیل انعام یافتگان کے ناموں کا اعلان کیا گیا۔ پیر کے روز سال رواں کے آخری اور اقتصادیات کے شعبے کے نوبیل انعام کی حقدار ٹھہرائی جانے والی شخصیت یا شخصیات کے ناموں کا اعلان کیا جائے گا۔
سالِ رواں کے نوبیل انعام برائے ادب کا قرعۂ فال ہنگری کے ۷۱؍سالہ ادیب لاسلو کراسناہورکائی کے نام نکلا۔ ان کے نام کا اعلان کرتے ہوئےسویڈش اکیڈمی کے مستقل سیکریٹری اور ادبی مؤرخ ماٹس مالم نے کہا:”انہیں یہ اعزاز ان کے دلکش اور بصیرت افروز ادبی کام کے لئے دیا گیا ہے جو خوف و ہراس کے عالم میں بھی فن کے طاقتور اثر کو ثابت کرتا ہے۔ “ سویڈش اکیڈمی کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ”ہنگری کے اس ادیب کے لکھے گئے ناول اپنے کرداروں اور کہانی میں اکثر فلسفیانہ ہوتے ہیں، لیکن ساتھ ہی تاریکی میں مزاح اور حیرانی کا سبب بننے والے بھی، جو اکثر ایک ایک جملے سے بھی پوری طرح کھل جاتے ہیں۔ “ اکیڈمی کے ایک رکن کے مطابق ’’کراسناہورکائی وسطی یورپ کی ادبی روایت کے عظیم رزمیہ نگار ہیں وہ روایت جو کافکا سے شروع ہو کر تھامس برنہارڈ تک جاتی ہے، اور جس میں بے معنویت (absurdism) اور غیرمعمولی پن (grotesque) نمایاں ہیں۔ ‘‘
لاسلو کراسناہورکائی ۵؍جنوری ۱۹۵۴ء کو ہنگری کے جنوب مشرقی شہر گیولا میں پیدا ہوئے، جو رومانیہ کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف سگیڈ سے قانون اور بعد میں ادب کی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کے بعد انہوں نے ادبی دنیا میں قدم رکھا اور افسانہ نگاری کو اپنا پیشہ بنایا۔ گیولا کی طرح کا ایک دور افتادہ دیہی علاقہ ان کے پہلے ناول Sátántangó (شیطانی تانگو) کا پس منظر ہے۔ ۱۹۸۵ء میں شائع ہونے والا یہ ناول ہنگری میں ایک بڑا ادبی واقعہ ثابت ہوا اور انہیں بین الاقوامی شہرت تک لے گیا۔ یہ ناول کمیونزم کے خاتمے سے ذرا پہلے ایک ویران اجتماعی فارم پر رہنے والے چند مایوس باسیوں کی کہانی بیان کرتا ہے۔ خاموشی اور انتظار کی فضا چھائی رہتی ہے، جب تک کہ کرشماتی شخصیت ایریمیاس اور اس کا ساتھی پیٹرینا، جنہیں سب مردہ سمجھ بیٹھے تھے، اچانک واپس نہیں آ جاتے۔ رہائشیوں کے لئے ان کی آمد کسی معجزے یا فیصلے کا پیغام معلوم ہوتی ہے۔ کتاب کے عنوان میں ” شیطانی“عنصر دراصل ان کے جھوٹے نجات دہندہ والے رویے اور ایریمیاس کے مکارانہ دھوکے میں چھپا ہے، جو جتنے مؤثر ہیں اتنے ہی تباہ کن۔ سب لوگ کسی معجزے کے منتظر ہیں، لیکن کتاب کا آغاز ہی کافکا کے اس جملے سے ہوتا ہے جو ان کی امیدوں کو توڑ دیتا ہے:” اس صورت میں، میں انتظار کرتے کرتے موقع ہی کھو دوں گا۔ “ اس ناول پر ۱۹۹۴ء میں ہدایت کار بیلا ٹار کے ساتھ مل کر ایک منفرد فلم بھی بنائی گئی۔
امریکی نقاد سوزن سانٹاگ نے کراسناہورکائی کو ”عصر حاضر کے قیامت کے ادیب“ کا لقب دیا۔ اس رائے کی بنیاد ۱۹۸۹ء میں شائع ہونے والا ان کا دوسرا ناول Az ellenállás melankóliája (مزاحمت کا المیہ) تھا، جو ایک چھوٹے ہنگری قصبے میں برپا ہونے والی خوفناک اور پراسرار کہانی بیان کرتا ہے۔ شروع سے ہی قاری مسز پفلام کے ساتھ ایک ہنگامی کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے۔ نحوست کے اشارے ہر طرف پھیلے ہیں۔ کہانی میں ایک پراسرار سرکس کا آنا اہم موڑ بن جاتا ہے، جس کا مرکزی تماشا ایک بڑے وہیل کی لاش ہے۔ اس مہمیز سے طاقتور اور تاریک قوتیں بیدار ہوتی ہیں، تشدد اور بدامنی پھیلتی ہے اور فوج کا کمزور ردعمل ایک آمرانہ قبضے کا موقع پیدا کر دیتا ہے۔ کراسناہورکائی خواب جیسی مناظر نگاری اور عجیب و غریب کرداروں کے ذریعے نظم و ضبط اور انتشار کے بیچ ہونے والی خوفناک کشمکش کو بے مثال انداز میں بیان کرتے ہیں۔
۱۹۹۹ء کے ناول Háború és háború (جنگ جنگ) میں مصنف کا دھیان ہنگری کی سرحدوں سے نکل کر عالمی منظر نامے پر آ جاتا ہے۔ مرکزی کردار کورن، جو ایک معمولی آرکائوسٹ ہے، اپنی زندگی کے آخری عمل کے طور پر بوداپیسٹ کے مضافات سے نیویارک کا سفر کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تاکہ وہ لمحہ بھر کے لئے دنیا کے مرکز میں اپنی جگہ بنا سکے۔ اس نے ایک قدیم رزمیہ داستان دریافت کی ہے جسے وہ دنیا تک پہنچانا چاہتا ہے۔
کراسناہورکائی کی نثر کا انداز وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا گیا۔ انہوں نے طویل اور رواں جملوں کو اپنی شناخت بنایا جن میں وقفے یا فل اسٹاپ نہیں ہوتے، بلکہ ایک مسلسل بیانیہ تخلیق کرتے ہیں جو ان کے کام کو منفرد بناتا ہے۔ ان کا اسلوب گہری فلسفیانہ سوچ سے بھرپور، تحریروں میں ڈسٹوپیا، اداسی اور مشرقی روحانیت کے اثرات نمایاں ہیں۔ ساتانتانگواور مزاحمت کا المیہ مشہور ناول ہیں جن پر فلمیں بھی بنی ہیں۔
کراسناہورکائی۲۰۲۵ء کے نوبیل ادب انعام کے اعلان سے پہلے بھی کئی سے مشہور بین الاقوامی ادبی انعامات اور اعزازات حاصل کر چکے ہیں ۔ ۲۰۱۵ء میں جب انہیں مین بُکر انٹرنیشنل پرائز کے لئے منتخب کیا گیا تھا، اس وقت بھی جیوری کے ماہرین نے اعتراف کیا تھا کہ ان کی تحریروں میں ’’عام جملے بہت غیر معمولی ہوتے ہیں، جو کبھی بہت مختصر اور کبھی بہت طویل بھی ہوتے ہیں، لیکن اپنی روانی میں جذبات اور سوچوں کے بدلتے ہوئے رنکوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ‘‘
گزشتہ برس ادب کا نوبیل انعام جنوبی کوریا کی خاتون ادیب ہان کانگ کو دیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر آج تک ادب کا نوبیل انعام ۱۱۷؍ مرتبہ اور کُل ۱۲۱؍ ادبی شخصیات کو دیا چکا ہے۔ ۲۰۲۵ء کے نوبیل انعام کی حقدار قرار دی گئی تمام شخصیات کو یہ انعامات ۱۰؍ دسمبر کوا سٹاک ہوم اور اوسلو میں ہونے والی دو مختلف تقریبات میں دیئے جائیں گے۔ ان انعامات کی تقسیم سویڈن کے مشہور سائنسدان اور صنعتکار الفریڈ نوبل کی برسی کے موقع پر کی جاتی ہے، جن کا انتقال ۱۰؍ دسمبر ۱۸۹۶ء کو ہوا تھا۔
(مآخذ: عالمی ادب کے اردو تراجم اور ڈی ڈبلیو)