Updated: October 12, 2025, 3:04 PM IST
| London
لندن کا سالانہ دیوالی جشن، جو میئر آفس کے تحت۱۲؍ اکتوبر۲۰۲۵ء کو مانایا جائے گا،اس میں اداروں کے انہی نیٹ ورک کو شامل کیا گیا ہے جن پر پہلے وشو ہندو پریشد (یو کے) کے ساتھ وابستہ ہونے پر تنقید کی گئی تھی۔ وشو ہندو پریشد ایک فرقہ وارانہ انتہا پسند ہندو قوم پرست تنظیم ہے جس پر ہندوستان میں مسلم مخالف تشدد کو منظم کرنے کے الزامات ہیں۔
لندن کا سالانہ دیوالی جشن، جو میئر آفس کے تحت۱۲؍ اکتوبر۲۰۲۵ء کو مانایا جائے گا،اس میں اداروں کے انہی نیٹ ورک کو شامل کیا گیا ہے جن پر پہلے وشو ہندو پریشد (یو کے) کے ساتھ وابستہ ہونے پر تنقید کی گئی تھی۔ وشو ہندو پریشد ایک فرقہ وارانہ انتہا پسند ہندو قوم پرست تنظیم ہے جس پر ہندوستان میں مسلم مخالف تشدد کو منظم کرنے کے الزامات ہیں۔اس کے ساتھ بوچاسن واسی اکشر پرشوتم سوامی نارائن سنستھا (BAPS) بھی شامل ہے جس پر بیرون ملک اپنے مندروں میں مزدوروں کی اسمگلنگ اور ذات پر مبنی استحصال کے الزامات ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکی مسلم گروپ نے وینزویلا کی اسرائیل حامی لیڈر کو امن کا نوبیل انعام دینے پر شدید تنقید کی
دیوالی ان لندن کے سرکاری آرگنائزر پیج پر د رج دی ورلڈ کونسل آف ہندو ٹیمپلز اورایلفورڈ ہندو سینٹر نے گزشتہ سالوں کی طرح اب واضح طور پر وشو ہندو پریشد کا حوالہ دینا چھوڑ دیا ہے۔ تاہم، اس گروپ کا انگریزی نام اور نعرہ، ’’دھرم ان کی حفاظت کرتا ہے جو اس کی حمایت کرتے ہیں،ــ‘‘ بالکل وشو ہندو پریشد جیسا ہی ہے۔ اس نعرے کا اصل سنسکرت ورژن، دھرمو رکشتی رکشیتہ وشو ہندو پریشد کی عالمی شاخوں میں استعمال ہوتا ہے۔ایک سادہ سی سرچ سے تصدیق ہوتی ہے کہ ایلفورڈ ہندو سینٹر درحقیقت وی ایچ پی کا رجسٹرڈ اڈہ ہے، جو اس نئے درج نام اور پہلے تنقید کا نشانہ بننے والے نیٹ ورک کے درمیان براہ راست تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔واضح رہے کہ شو ہندو پریشد(وی ایچ پی)کی بنیاد۱۹۶۴ء میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کی حمایت سے رکھی گئی، جو ایک نیم فوجی تنظیم ہے جس پر پورے ہندوستان میں ہندو برتری پسند تحریکوں کو ہوا دینے کا الزام ہے۔ وی ایچ پی پر مسلم مخالف تشدد بھڑکانے کے براہ راست الزامات ہیں، جن میں۲۰۰۲ء کے گجرات کی ہلاکت خیز فرقہ وارانہ فسادات بھی شامل ہیں ۔ جبکہ سوامی نارائن سنستھا کے امریکہ میں واقع مندروں پر الزام ہے کہ وہاں دلت مزدوروں کی اسمگلنگ اور استحصال کیا جاتا تھا، جیسا کہ الجزیرہ اور دی نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے۔ایک اور ساتھی، انٹرنیشنل سوسائٹی فار کرشنا کانشسنس (اسکان)نےکے ساتھ مل کر ہندو مینی فیسٹو 2024 پر دستخط کیے ہیں، جو برطانیہ میں ہندوتوا سے وابستہ گروپوں کے ساتھ سیاسی ہم آہنگی کی علامت ہے۔
یہ بھی پڑھئے: انڈونیشیا کا عالمی ایونٹ کیلئے اسرائیلی کھلاڑیوں کو ویزے دینے سے انکار
بار بار اپیلوں کے باوجود، یہ تنظیمیں اس اتحاد کا حصہ بنی ہوئی ہیں جو میئر آفس کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں تاکہ وہ تقریب پیش کی جا سکے جسے سرکاری طور پر ’’لندن کی دیوالی‘‘ کہا جاتا ہے۔ہندو اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے پچھلے سال، لندن کے میئر کو ایک کھلا خط لکھا گیا جس پر ۳۳؍ سے زیادہ تنظیموں اور افراد نے دستخط کیے تھے، جس میں وی ایچ پی اور دیگر ہندوتوا نواز گروپوں کے ساتھ شہر کی شراکت داری کی مذمت کی گئی تھی۔ اسے لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے لیکچرر ڈاکٹر صبیر سنہا، اور۲۰۰۲ء کے گجرات نسل کشی کے مسلم متاثرین میں سے ایک یوسف داؤد جیسے اسکالرز اور کارکنوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کا چین پر مزید ۱۰۰؍ فیصد ٹیرف، امریکی اسٹاک مارکیٹ کریش
خط میں اس شراکت کو ’’احتیاطی تدابیر میں سنگین غفلت‘‘ قرار دیا گیا تھا۔میئر آفس نے اس وقت ان خدشات کا تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا، اور وی ایچ پی سے وابستہ تنظیم اس سال کی تقریبات میں اپنا کردار ادا کرتی رہی۔ہندوز فار ہیومن رائٹس یو کے کے ڈائریکٹر راجیو سنہا نے مکتوب میڈیا کو بتایا کہ وی ایچ پی کی شمولیت لندن کے کثیر الثقافتی تانے بانے کیلئے ایک سنگین مسئلہ ہے۔سنہا نے کہا، اس کی واحد وضاحت منافقت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس طاقت ہے، اور میئر آفس نے ان کے ساتھ مصروفیت کا ہوشمند فیصلہ کیا ہے۔سنہا نے اس اتحاد کو ’’توہین آمیز اور سنگین قسم کی تنظیموں کا مجموعہ‘‘ قرار دیا۔
واضح رہے کہ لندن کا دیوالی جشن اکثر ہندوستان سے باہر سب سے بڑے تہواروں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے، جو روشنی، برادری اور کثیرالثقافتی ہم آہنگی کی علامت ہے۔ لیکن بیرون ملک مقیم بہت سے لوگوں کے لیے، سوال اب بھی موجود ہے کہ یہ ہندومت کے کس تصور کی نمائندگی کرتا ہے؟سنہا کی دلیل ہے کہ وی ایچ پی اور اس کے ساتھی صرف ایک محدود اشرافیہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہندوز فار ہیومن رائٹس یو کے جیسی مزید تنظیموں کی ضرورت ہے۔