مشرقی تہذیب و معاشرہ میں رہتے ہوئے بھی اپنی زبان کے گم ہوجانے اور اپنے کئے پر پشیمان ہم سبھی اس وقت دو راہے پر کھڑے ہیں، ہماری کئی نسلیں اپنی مادری زبان سے نابلد ہیں، اپنی شناخت اور مادری زبان سے ہم نے دامن بچاکر نکلنا سیکھ لیا ہے۔
EPAPER
Updated: October 19, 2025, 12:00 PM IST | Shama Akhtar Kazmi | Mumbai
مشرقی تہذیب و معاشرہ میں رہتے ہوئے بھی اپنی زبان کے گم ہوجانے اور اپنے کئے پر پشیمان ہم سبھی اس وقت دو راہے پر کھڑے ہیں، ہماری کئی نسلیں اپنی مادری زبان سے نابلد ہیں، اپنی شناخت اور مادری زبان سے ہم نے دامن بچاکر نکلنا سیکھ لیا ہے۔
چند سال پہلے ایک فیملی فنکشن میں ایک ایسی خاتون ملاقات ہوئی جو بچوں سمیت انگلینڈ جاکر بس چکی ہیں۔ بڑے تپاک سے ملیں لیکن جیسے ہی اردو زبان، مشرقی تہذیب، بالخصوص مسلم معاشرہ کے تعلق سے گفتگو ہوئی تو ان کے چہرے پر گویا مردنی چھاگئی۔ کہنے لگیں : ’’ایک جوش تھا، جنون تھا بچوں کے شاندار مستقبل کا، معاشرے میں اٹھنے بیٹھنے کے آداب اور سلیقہ انہیں سکھانے کا، ساتھ ہی یہ خواہش بھی تھی وہ فراٹے دار انگریزی بولیں۔ بچوں نے یورپی انداز کی انگریزی تو سیکھ لی اور فرنگی تہذیب کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ ان کا مستقبل تو اب اللہ کے ہاتھ میں ہے، البتہ ایک بات ہے، وہ نہ تو پورے فرنگی بن پائے نہ ہی ان میں مشرقی اقدار کی بو باس ہے، اب ہمیں وہ دن یاد آتے ہیں جب وہ اپنی توتلی زبان سے اردو بولتے تھے۔ اپنی مادری زبان اور اپنی تہذیب و ثقافت کو پرے دھکیل کر صرف معاشی ترقی کو بچوں نے مقصد حیات بنا رکھا ہے۔ ‘‘ اس حقیقت سے آپ بھی واقف ہوں گے کہ کچھ ایشیائی افراد اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی پر نادم ہوتے ہیں مگر اس اعتراف پر انہیں ندامت نہیں ہوتی کہ اُن کے بچے اردو نہیں جانتے۔
جن والدین نے اپنی اولاد کو مادری زبان سے نابلد رکھا، زبان سے دوری بنائے رکھی مگر خود پورے طور پر مشرقی تہذیب وثقافت کو روشنی کا مینار سمجھتے ہیں، ایسے مات کھائے ہوئے سوگوار والدین، اپنی عاقبت نا اندیشی اور اپنی اولاد کے ادھورے پن کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔
اب یہ ایسا درد ہے جو ہجرت پسندوں تک محدود نہیں، یہ ہم سب کا بھی درد ہے۔ مشرقی تہذیب و معاشرہ میں رہتے ہوئے بھی اپنی زبان کے گم ہوجانے اور اپنے کئے پر پشیمان ہم سبھی اس وقت دو راہے پر کھڑے ہیں، ہماری کئی نسلیں اپنی مادری زبان سے نابلد ہیں، اپنی شناخت اور مادری زبان، جو ہمیں تسکین قلب اور روحانی قوت عطا کرتی ہے، سے ہم نے دامن بچاکر نکلنا سیکھ لیا ہے۔
ہماری مادری زبان پر ہر دور میں آفات و خدشات کے بادل منڈلاتے رہے ہیں، اردو زبان کے تشخص پر کبھی دیوناگری رسم الخط کا حملہ ہوا تو کبھی شہ اور مات کی بساط بچھائی گئی، کبھی غیر ملکی زبان کا زرد لیبل چسپاں کیا گیا، اسے اور بھی کئی زاویو ں سے متہم کیا گیا۔ مگر یہ بیرونی حملے تھے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اپنوں نے بھی کچھ کم ستم نہیں ڈھائے، خود اردو داں طبقہ اردو زبان کو طلبہ کی ترقی میں رکاوٹ سمجھتا رہا اور انکے مستقبل کو غیر محفوظ۔
دیکھا جائے تو عالمی سطح پر ہر ملک میں اردو بولنے اور سمجھنے والے افراد موجود ہیں کیونکہ یہ رابطے کی اہم زبان ہے، اردو کے فروغ و بقا اور استحکام میں سب سے بڑی ذمہ داری اہل اردو پر ہی عائد ہوتی ہے، کیونکہ اردو کے معاملے میں اہل اردو بری طرح پچھڑ چکے ہیں۔ اردو کے احیاء کی کوششیں بنیادی سطح سے شروع کرنے کی ضرورت ہے اور ذہن سازی کی بھی، مادری زبان کے فروغ میں اپنی حصہ داری ادا کرنے والے صرف زبان کی بقا میں اپنا رول ادا نہیں کرتے بلکہ تہذیب و ثقافت اور کلچر کو بھی استحکام بخشتے ہیں۔ اردو صرف زبان نہیں تہذیب وتمدن اور تاریخ کا عنوان بھی ہے۔ اردو کو تحفظ و استحکام بخشنے کے لئے کچھ اہم نکات کی طرف ہمیں توجہ دینی ہوگی، مثلاً:
ہر اہل اردو اسے اپنی ذاتی اور سماجی ذمہ داری سمجھے، اپنی مادری زبان کو اپنی دہلیز پر عزت و وقار بخشے اور اپنی زبان کا حق ادا کرےجس کی وہ حقدار ہے۔
اپنے گھر میں بلا ناغہ روزانہ اردو اخبار منگوائیں، جسے گھر کا ہر فرد پڑھے اور پڑھنے کے بعد اخبار کے سرنامے پر اپنی دستخط کردے تاکہ گھر کے دیگر افراد کو بھی مطالعہ کرنے والے کا علم ہوجائے۔
بچوں کو اخبارات اور رسائل و جرائد میں شائع کہانیاں، واقعات، نظمیں، بزرگوں کے احوال و نصیحتیں اور دلچسپ معلومات بہتر انداز میں سنائیں تاکہ وہ بھی اخبار کے منتظر رہیں ، اپنی باری کا انتظار کریں اور اردو لکھنے پڑھنے کا ذوق و جذبہ ان میں پیدا ہو۔
والدین ہفتہ بھر میں کم از کم بار بچوں کو لے کر بیٹھیں۔ اس دن گھر میں بیت بازی کا مقابلہ رکھیں، پہلیاں بجھوائیں، نظمیں خوش الحانی سے سنائیں اور بچوں کو بھی سنانے کی ترغیب دیں۔ اس درمیان شاباشی دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھیں، اگر مہمان آجائیں تو انہیں بھی شامل کرلیں۔ آس پاس کے بچوں کو بھی بلائیں۔ کہانیاں، نظمیں پڑھنے میں اُن کی مدد کریں، اشعار یاد کرائیں، اسکول کے مقابلوں میں اُردو میں تقریر کرنے کی حوصلہ افزائی کریں، املاء، تلفظ اور جملوں کی ادائیگی پر خاص توجہ دیں۔
بیت بازی ایک ایسا دلچسپ مشغلہ ہے جس نے بہتوں کو اردو سکھادی، جن بچوں کو بیت بازی کے شور و شغب کا چسکہ لگ گیا تو یقین جانئے کہ اردو زبان کے شوق و ذوق کو پروان چڑھانے میں زیادہ دقت پیش نہیں آئے گی۔ اگر ابتدائی کوشش کامیاب رہی تو آپ کے گھر میں اردو کی کھیتی کو گل گلزار ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
ہر اہل اردواپنے اطراف کے بچوں اور ان بڑوں کو بھی اردو پڑھنے لکھنے کی طرف راغب کرے بلکہ انھیں پڑھانے کے لئے ذاتی دلچسپی لے جو اردو نہیں جانتے۔
گھروں میں اردو بولنے اور لکھنے پڑھنے کا ماحول بنائیں، گفتگو اردو زبان میں کریں کیونکہ جس زبان کا گھر کے ماحول پر غلبہ ہوگا وہ سینہ بہ سینہ زندہ رہے گی۔ جو زبان سماجی اور عملی زندگی میں رائج ہوگی وہ زبان زد عام ہوگی اور دل و دماغ پر غالب رہے گی۔
بچوں کی سالگرہ پر انھیں اردو کی کتابیں تحفے میں دیں، آسان طریقے سے اردو سیکھنے کی کتابیں بازاروں میں دستیاب ہیں وہ بھی دی جاسکتی ہیں۔ اردو کے الفاظ با معنیٰ یاد کرنے پر ان کا حوصلہ بڑھائیں، انعام دیں۔
اردو میڈیم کے اسکولوں کے انتظامیہ کو چاہئے کہ تمام طلبہ پر ہفتہ میں دو دن لائبریری میں حاضری لازم کر دیں، انہیں کون سی کتاب پڑھنی چاہئے اس کی رہنمائی کریں، بچوں نے جن کتابوں کا مطالعہ کیا، کلاس روم میں اس کا ٹیسٹ لیا جائے تاکہ وہ ہوشمند قاری بنیں، مستقبل میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے لائق ہوجائیں۔
اردو زبان کے فروغ و استحکام کیلئے لازم ہے کہ پرائمری سطح سےلے کرثانوی اور اعلیٰ تعلیمی سطح پر اردو میڈیم کے اسکول اور کالج قائم کئے جائیں، صرف عربی مدارس کے بھروسے اُردو کا فروغ ممکن نہیں۔ ایک عوامی تحریک کے ذریعے گائوں سے لے کر ملک گیر سطح پر عوام الناس کو اردو زبان کی ضرورت اور اہمیت کا احساس دلایا جائے۔
اُردو کو زندہ رکھنا ہے تو نئی نسل میں اردو زبان کے تعلق سے شغف و رغبت پیدا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، ساتھ ہی اس کے فوائد اور دیرپا اثرات سے آشنا کرانا ضروری ہے۔ جب تک اردو زبان کو ٹال مٹول والے رویے سے بچایا نہ جائیگا تب تک اردو زبان صرف ڈگری لینے والی زبان بنی رہے گی، ایسی بے روح زبان سے کسی کا بھلا ہونے والا نہیں جو صرف کاغذ کے صفحات پر ہو اور دل کے نہاں خانے میں ویرانی کا ڈیرہ رہے۔
آج کے عہد میں ایسے بہت سے افراد ہیں جو برسوں اردو کے طالب علم رہے، ان کے پاس بی اے اور ایم اے کی ڈگری بھی ہے مگر ان کی اُردو اتنی خراب کہ نہ املاء درست نہ جملہ درست نہ زبان میں نفاست، نہ شیرینی، نہ قرأت کا سلیقہ۔ طلبہ کو ابتدائی دور میں ہی قرأت سکھائی جانی چاہئے، تاکہ تلفظ اور جملے کی اصلاح ہو جائے۔
اگر بغائر نظر دیکھیں تو گزشتہ کئی دہائی میں جس تیزی سے اردو زبان کی صحت خراب ہوئی ہے، ہماری مادری زبان اور طرز زبان دونوں کا حسن متاثر ہوا ہے۔ آج مادری زبان سے دوری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر مائیں سوشل میڈیا پر یا پھر موبائل میں مصروف ہوتی ہیں، انہیں بچوں سے گفتگو کی فرصت نہیں ہوتی۔ وہ بچوں کی بربادی کا سامان اس کے ہاتھوں میں تھما کر مطمئن ہوجاتی ہیں، یہیں سے ابتداء ہوتی ہے مادری زبان کا حشر و نشر بگڑنے کی۔ شروعات میں معصوم ذہن میں مادری زبان کے الفاظ کی اتنی قلت ہوتی ہے کہ وہ اپنی بات کہنے کی خاطر موبائل اور ٹی وی میں سنی جانے والی زبان استعمال کرتا ہے، ذرائع ابلاغ نے والدین سے لے کر بچے تک کی زبان کو فرسودہ اور بازاری بنا دیا ہے۔ پہلے کی مائیں بچوں کو نصیحت آمیز کہانیاں، صحابۂ کرام کے واقعات سناتی اور دعائیں یاد کراتی تھیں، نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ بچے کم عمری میں ہی بہت کچھ سیکھ لیتے تھے۔ کسی زمانے میں ریڈیو پر بولی جانے والی زبان سے لوگ اپنا تلفظ، لہجہ اور جملہ درست کر لیتے تھے۔ زمانے نے ترقی تو کی اور ریڈیو کی جگہ بہتر آلات نے لے لی ہے مگریہی آلات زبان کو بدترین خسارہ سے دوچار کررہے ہیں۔ اردو کے معاملے میں چونکہ ہم سبھی بہت زیادہ پچھڑ چکے ہیں ، اس زبان کے تحفظ اور استحکام کی خاطر اب مذاکرے اور مباحثے کے لئے مجلسیں سجانے اور مجمع لگانے کی نہیں بلکہ محاسبے اور عمل آوری کی ضرورت ہے۔ بقول شاعر
اپنی اردو کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہے
اب کوئی میر نہ غالب کوئی آنے والا