Inquilab Logo Happiest Places to Work

پیوند کار

Updated: June 16, 2025, 4:57 PM IST | Dr. Zakir Khan | Mumbai

 شہر ناپُرساں کی گلیوں میں وقت کی چال کبھی یکساں نہ تھی۔ دھوپ یہاں جھک کر چلتی تھی، جیسے روشنی کا بوجھ اسے تھامے ہوئے ہو۔ تنگ گلیوں میں خواب تار تار ہوتے تھے اور لوگ زمین پر قدم رکھتے ہوئے بھی ڈرتے تھے، جیسے ہر چال ایک قرض ہو۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

 شہر ناپُرساں کی گلیوں میں وقت کی چال کبھی یکساں نہ تھی۔ دھوپ یہاں جھک کر چلتی تھی، جیسے روشنی کا بوجھ اسے تھامے ہوئے ہو۔ تنگ گلیوں میں خواب تار تار ہوتے تھے اور لوگ زمین پر قدم رکھتے ہوئے بھی ڈرتے تھے، جیسے ہر چال ایک قرض ہو۔ دھیمے لہجے میں باتیں کرتےکہ لفظوں کی قیمت کہیں جیب سے نہ نکل جائے۔ خواب یہاں مہنگائی کے نرخ نامے سے بندھے تھے، جیسے بازار کا کوئی پرانا کھلونا، جسے خریدنے سے پہلے سو بار آنکھوں ہی آنکھوں میں ناپا تولاجاتا ہو۔ 
 انہی گلیوں کے ایک موڑ پر، جہاں دو کھنڈرات آپس میں سرگوشیاں کرتے تھے، ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ سائن بورڈ پر لکھا تھا، ’’سلیم درزی: پیوند کاری کے ماہر‘‘۔ کاغذ پر یہ الفاظ برسوں کی نمی سے دھندلاچکے تھے، جیسے سلیم نے انہیں لکھ کر بھلا دیا ہو۔ دکان کے اندر نیم تاریکی تھی، جہاں زنگ آلود سلائی مشین خاموشی سے اپنی داستان سنا رہی تھی۔ کچی لکڑی کی میز پر ٹیڑھی سوئیاں اور پرانے دھاگے بکھرے تھے۔ دیوار پر آویزاں کیلنڈر سات سال سے ایک ہی تاریخ پر رُکا ہواتھا۔ وہی دن جب سلیم کی بیٹی شبنم ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی تھی۔ دکان میں پرانے دھاگوں کی بو، ماضی کی سیلن اور یادوں کی ماندپڑتی خوشبو بس گئی تھی جیسے یہ جگہ صرف کپڑوں کی نہیں، ٹوٹے ہوئے لمحوں کی بھی مرمت گاہ ہو۔ 
 سلیم بخش، جو کبھی شہر کا نامور درزی تھا، اب خود کو ’’پیوندکار‘‘ کہتا تھا۔ وہ کپڑوں کے ساتھ وقت، غم، یادیں اور تھکے ہوئے خواب سیتا تھا مگر اس کی یہ ہنرمندی شہر کے شور میں گم تھی۔ اس کی زندگی اسی لمحے تھم گئی تھی جب غربت نے شبنم کے سینے پر آخری سانس کی چادر بُنی تھی۔ اس دن دوا کے پرچے پر لکھے حروف اور جیب میں کھنکتے دو سکوں نے اس کے دل میں ایک خلاء چھوڑا تھا، جو آواز سے بھی پُر نہ ہوتا تھا۔ 
 شبنم کی ہنسی سلیم کے دل میں چراغ جلاتی تھی۔ وہ اسکول جانا چاہتی تھی، ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھتی تھی۔ ایک شام جب دھوپ گلیوں سے رخصت ہو رہی تھی، سلیم نے اس سے کہا، ’’بیٹی، خواب اونچے رکھنامگر سلائی مشین کی آواز سے بلند نہ ہونے دینا۔ ‘‘شبنم نے مسکرا کر جواب دیا، 
’’ابو، اگر مشین کی آواز میں خواب سل جائیں، تو چاک بھی چنری بن سکتا ہے۔ ‘‘مگر وہ چنری کبھی مکمل نہ ہوئی۔ تیز بخار میں شبنم نے آنکھیں بند کیں اور جب کھولیں تو ہاتھ میں دوا کا پرچہ تھا اور لبوں پر سوال، ’’ابو، کیا وقت کو دوا سے خریدا جا سکتا ہے؟‘‘سلیم کا سکوت اسی لمحے قیامت بن گیا۔ اس نے گھڑی اتار دی، کیلنڈر پلٹنا چھوڑ دیا اور مشین کے نیچے رکھی پرانی ٹوپی میں دو سکے رکھ دیے.... شبنم کی آخری نشانی۔ 
 ایک شام، جب گلیوں میں دھوپ کی جگہ سایوں نے بسیرا کیا، ایک اجنبی دکان کے دروازے پر آیا۔ اس کا چہرہ گرد آلود تھا، جیسے ہوا نے اس کی شناخت پر خاک کا پردہ ڈال دیا ہو۔ آنکھوں میں ایسی تھکن تھی جو ہڈیوں تک اتر جاتی ہے اور لباس پر دھول، مٹی اور وقت کی سستی جم گئی تھی۔ ہاتھ کانپ رہے تھے، شاید سردی سے... شاید یادوں کے بوجھ سے... وہ دروازے پر رکا، جیسے اندر کی گمشدگی کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہو اور پھر دھیمے سے بولا، ’’کیا آپ وقت کو سی سکتے ہیں ؟‘‘
 سلیم نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا، جیسے اس کی بات کو تول رہا ہو۔ ’’میں کپڑوں کو سیتا ہوں، وقت کو نہیں۔ ‘‘اجنبی نے آہستہ سے کہا، ’’پھر بھی، میری بات سن لیجیے۔ ‘‘وہ دکان کے اندر بیٹھا۔ اس کی آواز میں ایک عجیب سی گہرائی تھی، جیسے برسوں کی خاموشی لبوں پر ٹوٹ رہی ہو۔ 
 ’’میرے پاس ایک پرانی قمیص ہے۔ اس میں ایک سوراخ ہے مگر یہ محض کپڑے کا سوراخ نہیں۔ یہ اس لمحے کا سوراخ ہے جب میری زندگی بدل گئی۔ جب بھی اسے پہنتا ہوں، ماضی ٹپکتا ہے۔ ایک ایسا ماضی جو دھاگوں سے نہیں، آہوں اور آنسوؤں سے سلا گیا۔ اس سوراخ کے گرد کا کپڑا چھوؤں تو یادوں کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ رات کو جب نیند آتی ہے، یہ قمیص میرے ساتھ لیٹتی ہے اور خواب آتے ہیں۔ بھاری.... نمناک.... بکھرے ہوئے.... کبھی ماں کا چہرہ آدھا دھند میں چھپا ہوتا ہے، کبھی بیٹی کے کھلونے ویرانے میں پڑے ہوتے ہیں۔ ہر خواب اسی بند گلی میں رُک جاتا ہے جہاں کچھ چھوٹ گیا تھا۔ شاید ایک وعدہ.... شاید ایک آواز... یا شاید وہ آخری لمس جسے میں آج تک ڈھونڈ رہا ہوں۔ ‘‘
 سلیم کی آنکھوں میں شبنم کی جھلک چمکی۔ اس نے گہری سانس لی اور کہا، ’’تم کیا جانو، میں خود وقت کے دھاگے سے بندھا ہوں۔ میری بیٹی شبنم بھی ایک سوراخ چھوڑ گئی۔ ایک ایسا سوراخ جو کوئی دھاگہ جوڑ نہیں سکتا۔ مگر بتا، کیا چاہتا ہے؟‘‘اجنبی نے تھیلی سے ایک قمیص نکالی۔ اس پر دھبے تھے۔ شاید آنسو..... شاید خون.... یا شاید وقت کی گرد.....’’یہ سوراخ جوڑ دو۔ شاید اس سے وہ لمحہ واپس آ جائے۔ ‘‘
 سلیم نے سوئی تھامی، مشین میں دھاگہ پرویا اور مشین پر قمیص رکھ دی۔ جب پہلی سلائی چلی، مشین کی آواز گونجی۔ چک...چک... چک.. یہ وہی آواز تھی جو برسوں پہلے شبنم کے کپڑے سیتے وقت گونجتی تھی۔ سلیم کے ہاتھ لرز اٹھے۔ اسے لگا جیسے شبنم سامنے بیٹھی ہے، ہاتھ میں پرچہ، آنکھوں میں سوال:’’ابو، وقت کو پیوند لگا سکتے ہو؟‘‘ایک آنسو اس کی آنکھ سے گرا، سوئی پر ٹپکا اور دھاگے میں جذب ہو گیا۔ اس نے سلائی مکمل کی اور قمیص اجنبی کو دے دی۔ اجنبی نے قمیص پہنی، ایک لمحہ رکا اور پھر بولا، ’’اب وقت بہتا ہے۔ جیسے کوئی دریا اپنی راہ پر لوٹ آیا ہو۔ ‘‘
 وہ چلا گیا، مگر اس کی آواز دکان کی دیواروں میں جذب ہو گئی۔ اگلے دن سلیم نے کیلنڈر کا صفحہ پلٹا، گھڑی پہن لی اور دکان کے باہر تختی بدل دی۔ اب لکھا تھا:’’وقت کے پیوند:یہاں خواب بھی سلتے ہیں۔ ‘‘
 چند شامیں گزریں اور ایک نئی آہٹ دکان کے دروازے پر ہوئی۔ ایک عورت تھی، چہرہ رومال سے ڈھانپے، جیسے اپنی شناخت کو سایوں سے چھپا رہی ہو۔ اس کے ہاتھ میں ایک پھٹی ہوئی چادر تھی جس کے کناروں پر دھاگے ادھڑ کر ریشمی فیتے سے لڑ رہے تھے۔ وہ دھیمے سے بولی، ’’سلیم بھائی، کیا یہ چادر جوڑ سکتے ہو؟ یہ میری ماں کی آخری نشانی ہے۔ ‘‘سلیم نے چادر کو ہاتھ میں لیا۔ اس کا کپڑا نرم تھا، مگر ہر تار میں ایک کہانی سانس لیتی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر بولا، جیسے شبنم کی آواز اسے سنائی دے رہی ہو، ’’یہ چادر محض کپڑا نہیں، ایک امانت ہے۔ بتا، اس کی کہانی کیا ہے؟‘‘
 عورت کی آنکھیں چمک اٹھیں، جیسے کوئی برسوں بعد اس کی بات سننے کو تیار ہوا ہو۔ ’’یہ چادر میری ماں نے اپنی شادی کے دن اوڑھی تھی۔ اس کے رنگ اب دھندلے ہیں مگر ہر رنگ میں ایک وعدہ چھپا ہے۔ جب اسے اوڑھتی ہوں، ماں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ وہ کہتی تھی، ’بیٹی، یہ چادر تیری امانت ہے، اسے سنبھال کر رکھنا۔ ‘ مگر ایک رات، جب طوفان آیا، یہ چادر پھٹ گئی۔ اس کے ساتھ ماں کی آواز بھی کہیں کھو گئی۔ کیا تم اس آواز کو جوڑ سکتے ہو؟‘‘سلیم نے چادر کو میز پر رکھا۔ اپنی انگلیاں کپڑے پر پھیریں، جیسے وہ دھاگوں سے آواز نکالنے کی کوشش کر رہاہو۔ ا سے شبنم کی بات یاد آئی، ’’ابو، اگر مشین کی آواز میں خواب سل جائیں تو چاک بھی چنری بن سکتا ہے۔ ‘‘ وہ بولا، ’’آواز دل میں ہوتی ہے، بی بی۔ مگر یہ چادر تیری ماں کی امانت ہے تو اسے جوڑ کر شاید وہ لمحہ لوٹ آئے۔ ‘‘
 وہ سلائی مشین پر بیٹھا۔ چک...چک...چک....کی آواز دوبارہ گونجی۔ اس بار اسے محسوس ہوا جیسے شبنم اس کے پیچھے کھڑی ہنستے ہوئے کہہ رہی ہو۔ ’’ابو، یہ چادر سی دو، مگر اس کی کہانی کو مت بھولنا۔ ‘‘سلیم نے ہر سلائی میں ایک دعا پروئی، جب چادر مکمل ہوئی، اس نے عورت کے حوالے کردی۔ ’’اب اسے اوڑھ کر دیکھ۔ شاید تیری ماں کی آواز لوٹ آئے۔ ‘‘ عورت نے چادر اوڑھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر لبوں پر مسکراہٹ۔ ’’سلیم بھائی، یہ چادر اب گنگناتی ہے۔ ماں کی آواز واپس آگئی۔ ‘‘
 وہ چلی گئی، مگر دکان میں اس کی دعا کی خوشبو رہ گئی۔ گلی کے بچوں نے دکان کے باہر کھیلنا شروع کر دیا۔ ایک بچے نے پوچھا، ’’سلیم چاچا، آپ کپڑوں سے کیا باتیں کرتے ہیں ؟‘‘سلیم نے ہنس کر جواب دیا، ’’جو باتیں انسان نہ کہہ سکیں، کپڑے وہ سب کہہ دیتے ہیں اور میں انہیں سن کر، سل کر، جوڑ دیتا ہوں۔ ‘‘
 اب سلیم کی دکان محض درزی کی دکان نہ تھی۔ یہ ایک ایسی پناہ گاہ تھی جہاں وقت کے سوراخ، خوابوں کے چاک اور دلوں کے زخم سلے جاتے تھے۔ ہر آنے والااپنے دکھ کا ایک ٹکڑا لاتا اور سلیم اسے دھاگوں سے جوڑ کر ایک نئی کہانی بناتا۔ شبنم، جو کبھی قمیص کے دھبوں میں چھپی تھی اب دکان کی دیوار پر ایک ننھی مسکراہٹ لئے تصویر میں جھومتی نظر آتی اور جب رات کے سائے گہرے ہوتے، سلیم اپنی مشین بند کرتا، شبنم کی تصویر کو دیکھتا، اور آہستہ سے کہتا، ’’بیٹی، ہم نے وقت کو سی لیا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK