• Mon, 01 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بلڈوزر

Updated: December 01, 2025, 12:52 PM IST | Muhammad Rafi Ansari | Bhiwandi

میرے پوتے ’حَسن‘کے کھلونوں  میں اب ایک نئے کھلونے کا اضافہ ہوا ہے۔ اُس کھلونے کا نام ’بلڈوزر‘ ہے۔ بلڈوزر اس کے من کو ایسا بھا گیا ہے کہ وہ ہر وقت اسی کی بات کرتارہتاہے۔

Picture: INN
تصویر:آئی این این
میرے پوتے ’حَسن‘کے کھلونوں  میں اب ایک نئے کھلونے کا اضافہ ہوا ہے۔ اُس کھلونے کا نام ’بلڈوزر‘ ہے۔ بلڈوزر اس کے من کو ایسا بھا گیا ہے کہ وہ ہر وقت اسی کی بات کرتارہتاہے۔ اسکول جانے سے پہلے اور اسکول سے انے کے بعد ایک بار ضرور ’بلڈوزر ‘ کے متعلق پوچھتا ہے۔میں اس کے سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ کبھی میری باتوں سے مطمئن ہوتا ہے ،کبھی نہیں۔ اس کے کھلونوں میں نت نئی گاڑیاں،ایمبولنس سے لے کر فائر انجن تک بہت کچھ ہے۔کھلونوں کی دکان پر ہفتہ میں ایک دن حاضری دینا اس کا معمول ہے۔ اب تودکاندار سے میری بھی کچھ واقفیت ہو گئی ہے۔  دکاندارہے تو ہندوستانی مگر اس کی شکل جاپانیوں جیسی ہے۔ دکان کے بیچوں بیچ ’اسٹیچو‘ کی طرح بیٹھا رہتا ہے۔بولتا کم مسکراتا زیادہ ہے۔مسکراتا ہے تو انکھیں اندر کو دھنس جاتی ہیں۔دام کم کرنے کی بات کرو تومطلوبہ کھلونا ہاتھ سے لے کرغیر طلبیدہ کھلونے کی پیشکش کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتا۔انکار کرو تو خاموشی اختیار کرلیتا ہے۔کھلونے والاایک دن  مجھ سے کہے لگا’ جناب!ان دنوں بچوںمیں اچانک بلڈوزر کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے۔میں ان کی فرمائش پوری کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہ دیکھو! اس مہینے کی کھیپ میں یہ آخری ’ پیس ‘ بچا ہے، لے جاو ورنہ دیر ہوجائے گی۔۔چنانچہ بلڈوزر‘ کا آخری پیس لے کر میرا پوتا پہلے سے زیادہ خوش  ہوگیا۔
عجیب شوق ہے اس کا بھی۔حسن کو اپنی کھلونا گاڑیوں کو اپس میںلڑانابہت پسند ہے۔وہ اپنے دوست ’ثمر‘ کے ساتھ گاڑی سے گاڑی ٹکراکربہت خوش ہوتا ہے ۔پرسوںمیں نے اسے بلڈوزر کو گاڑیوں سے ٹکر مارتے دیکھا تو مجھ سے دیکھا نہ گیا۔ میں نے پوچھا ’حسن یہ تم کیا کررہے ہو؟ بولا گاڑیوں کو کچل رہا ہوں۔میں نے کہا ایسا کرنے میں تمہیں کیا ملتا ہے؟ بولا اس میں ایک اورہی مزہ ہے۔اس کے منہ سے بڑوں جیسی بات سن کر مجھے اپنا قد چھوٹا محسوس ہوا ۔
اِ دھر شہر میں توڑ پھوڑ کی کارروائی ہونے والی ہے۔سڑکوں کی مرمت کے نام پر شہری انتظامیہ نے ایک بلڈوزر کی خدمات  بھی حاصل کر لی  ہے۔ وہ سڑک کے کنارے کھڑا کردیا گیا ہے۔ اس خبر سے حسن بہت خوش ہے۔ اب اس کی مصروفیت بھی بڑھ گئی ہے۔ اسکول چھٹنے پر وہ کچھ دیر بلڈوزرکی رفاقت میں گزار کر پھولے نہیں سماتا۔ اِک صبح کہنے لگا  معلوم ہے دادا میں بڑا ہوکر کیا بنوں گا؟اس نے سینہ تان کر کچھ یوں کہاکہ میں متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔
’کیا بنو گے‘ ؟ میں نے شوق سے پوچھا ۔ بولا ’میں بڑا ہوکر لیڈر بنوں گا.... اور پھرایک بڑا سا بلڈوزر خریدوں گا اور اسے لے کر نکلوں گا تو سب لوگ مجھے سلام کریں گے ۔ اس بارحسن کی باتیں سن کر مجھے ہنسی بھی آئی اور رونا بھی آیا۔ میں نے سوچا اب تک کسی سیاسی جماعت نے ’بلڈوزر‘ کو اپنا انتخابی نشان نہیں بنایا ہے۔ لیکن حالات و کوائف کو دیکھتے ہوئے کچھ کہا بھی نہیں جاسکتا۔ اسی شام حسن خوشی خوشی پھر میرے پاس آیااور کہنے لگا’دادا! مجھے بلڈوزر پر دس سطریں لکھ کر دیجئے۔ اسکول میں مضمون نویسی کا مقابلہ ہے۔ میں نے وفورِ شوق سے کہا ’ میرے عزیز ! تم فکر نہ کرو میں تمہاری پوری مدد کروں گا۔ حسن کے مضمون کی دس سطریں جب اس کے منشاء کے مطابق تیار ہو گئیں تو میں نے انھیں ایک ایک کر کے سنایا
’’بلڈوزر ایک طاقتور اور وزنی مشین ہے۔بلڈوزر وزنی چیزوںکو دھکیلنے اور سامان ڈھونے کے کام اتا ہے۔ اسے ’ڈوزر‘ بھی کہتے ہیں۔ اس کے آگے کی طرف دھات کی بلیڈ ہوتی ہے۔یہ بلیڈ دھکیلنے کے کام آتی ہے۔بلڈوزرکا رنگ پیلا ہوتا ہے۔اس کے ڈرائیور کو’بلڈوزر آپریٹر‘کہتے ہیں۔اس کا وزن پندرہ ہزار کلو سے ایک لاکھ پچاس ہزار کلو تک ہوتا ہے۔اس کی قیمت پندرہ لاکھ رو پے سے ڈیڑھ کروڑ  روپے تک ہوتی ہے۔ اس کاغلط استعمال ’صحیح ‘ نہیں۔‘‘
ان سطروں کو دیکھ کر حسن کو بڑی خوشی ہوئی۔ لیکن میں جانتا تھا کہ ہر سطر کے اندر کتنی سطریں وہ ہیں جو ’ان کہی ہی رہ گئیں‘ ہیں۔ میں نے اس کو یہ نہیں بتایا کہ میرے عزیز،بلڈوزر کو دیکھ کر بہت زیادہ ہنسنے والے بھی ہنسی بھول جاتے ہیں۔یہ ایک طاقتور مشین ہے۔طاقت کا استعمال کرنے والے اسے بڑی آسانی سے استعمال کرکے اپنا مطلب نکالتے ہیں۔ اس کے آگے جو بلیڈ ہوتی ہے دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔ میں نے اسے یہ بھی نہیں کہا کہ اس کا رنگ پیلا اس لیے ہوتا ہے کہ اسے رات میں بھی دیکھ کر عبرت پکڑی جاسکے۔یہ مشین اونٹ سے مشابہت رکھتی ہے۔ اونٹ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کی کوئی ’کَل‘ سیدھی نہیں ہوتی۔ کم و بیش اس کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اسے دیکھ کر پرندوں کے بھی کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کی آواز بھی کچھ مختلف قسم کی ہوتی ہے۔ اونٹ کا بولنا ’گھرگھرانا‘ کہلاتا ہے۔ بلڈوزر کی کئی قسمیں ہیں ۔اس کی آوازیں بھی مختلف ہوتی ہیں ۔میں نے اس کو یہ بھی نہیں بتلایا کہ تجاوزات (یعنی غیر قانونی قبضہ) کو ہٹانے کے لیے بلڈوزر کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ تجاوزات سے علاقہ کو پاک کرنے میں بلڈوزر اکثر حد سے تجاوز بھی کر جاتاہے۔ بلڈوزکی اہم کڑی اس کا ڈرائیور بھی ہے۔ اسے ’بلڈوزر آپریٹر کہتے ہیں۔ اس کی تنخواہ تو بڑی پُر کشش ہوتی ہے مگر خود اس میں کشش کی کمی ہوتی ہے۔بعض  بلڈوزر آپریٹرتو وزنی مشین کے سامنے بڑے بے وزن اور بے جوڑ معلوم ہوتے ہیں۔چند ایسے بھی آپریٹر ہیںجو بلڈوزر پر بیٹھے ہوئے  اونٹ کے منہ میں زیرہ معلوم ہوتے ہیں۔پھر یوں ہوا کہ دیوالی کی چھٹیاں شروع ہو گئیں۔حسن چند روز کے لیے اپنا ’سرمایہ حیات ‘ چھوڑ کر نانی کے گھر چلا گیا۔ جاتے جاتے اس نے مجھے اپنے کھلونوں بطورِ خاص ’بلڈوزر‘ کا خیال رکھنے کو کہا۔میں نے اسے یقین دلایا کہ بابا’تم شوق سے نانی گھر جاو میں تمہاری چیزوں کا خیال رکھوں گا۔
اس دن میں قدرے دیر سے بیدار ہوا ، معلوم ہواکہ رات گئے حسن نانی گھر سے لوٹ آیا ہے اور سویرے ہی اسکول چلا گیا ہے۔ابھی تک لوٹا نہیں ہے سب اس کی راہ تک رہے ہیں۔میں بھی سراپا انتظار ہوگیا۔ کچھ دیر کے لیے مجھے کسی کام کے باہر نکلنا پڑا۔۔واپس آیا تو  پھر بھی مجھے حسن کہیں نظر نہ آیا۔گھر میں تلاش کیا تو وہ ایک گوشہ میں بہت اداس بیٹھا ملا۔ پتہ چلا وہ جب سے اسکول سے آیا ہے بہت خاموش خاموش ہے۔ اس کی والدہ نے اس سے بارہا پوچھا بھی ’کہ بابا کیا بات ہے؟ کیا کسی سے تمہارا جھگڑا ہوا ہے؟ کیا کسی نے تم سے کچھ کہا ہے؟ لیکن وہ مسلسل ’گم صم ‘ رہا۔ بارے مجھ سے نہ رہا گیا میں نے اسے لاڈ سے اپنے قریب بلایا۔ وہ آکر مجھ سے لپٹ گیااور بلک بلک کر رونے لگا۔ اول تو میری بھی سمجھ میں کچھ نہ ایا۔ پھر میں نے اپنے دل کو مضبوط کیا۔ پہلے اسے رونے دیا اور اسے تھپتھپاتا رہا۔بارے کچھ دیر بعد چُپ ہوا تو خود ہی کہنا شروع کیا’ دادا مجھے ’بلڈوزر ‘ نہیں چاہیے۔اسے میری نظروںکے سامنے سے ہٹا دو۔ مجھے اس سے نفرت ہو گئی ہے۔میں اسے توڑ پھوڑ دوں گا۔میں نے کہا ٹھیک ہے بابا ۔ تم فکر نہ کرو۔ کچھ دیر بعدپھرکہنے لگا دادا۔آج بازار میں بلڈوزر نے قیامت برپا کردی ۔اس نے انکل کی کھلونوں کی دکان کو بھی برباد کردیا ہے، دادا کسی نے اسے روکا بھی نہیں۔ چل کر دیکھ لو ۔ اتنا کہتے ہی وہ سسک سسک کررونے لگا۔ میں اس کی باتیں سن کر سنّا ٹے میں آگیا۔میرے حواس بجاہوئے تو میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا :ابھی چل کر پتہ لگاتے ہیں۔کچھ دیر تک ہم دونوں خاموش رہے۔پھر میں نے اسے دلاسا دیتے ہوئے کہا’’میرے عزیز،تم اطمینان رکھو۔تھوڑے دنوں بعد وہاںکھلونوں کی نئی دکان بنے گی۔دیکھنا وہ پہلے سے زیادہ اچھی ہوگی۔ اس میںزیادہ کھلونے ہوںگے۔دکان میں زیادہ رونق بھی ہوگی اور ہوسکتا ہے دکان  پہلے سے بڑی بھی ہو جائے ۔
میری یہ ناصحانہ باتیںمعصوم بچے کے من کو بھا گئیں۔ اس کے لبوں پر ہلکی سے مسکراہٹ پھیل گئی۔ حالانکہ حسن کو معمول پر آنے میں کئی دن لگ گئے۔پھر جیسے بات آئی گئی ہو گئی۔ آج  وہ بڑے چاؤ سے اپنے کھلونے کو سجانے میں لگا ہوا ہے۔(یہ دیکھ کر میرا دل بھر آیا ہے)   وہ کچھ کچھ گنگنابھی رہا ہے، میں اور بھی خوش ہوگیا ہوں۔پھرمیں نے اس کے کھلونوں کا جائزہ لیا تو مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہو ئی کہ اس کے کھلونوں میں کہیں ’ بلڈوزر ‘ نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK