۹؍ جولائی کو شکاگو میں آخری سانس لینے والااُردو کا یہ سپاہی یوپی کے مشہور شہر بارہ بنکی کا سپوت تھا۔ اُن کا جانا اُردو کا بڑا نقصان ہے۔ یہ خاکہ اُن کی حیات میں لکھا گیا اور شائع ہوا تھا۔
EPAPER
Updated: July 13, 2025, 12:28 PM IST | Shamim Hanfi | Mumbai
۹؍ جولائی کو شکاگو میں آخری سانس لینے والااُردو کا یہ سپاہی یوپی کے مشہور شہر بارہ بنکی کا سپوت تھا۔ اُن کا جانا اُردو کا بڑا نقصان ہے۔ یہ خاکہ اُن کی حیات میں لکھا گیا اور شائع ہوا تھا۔
کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنی زمین سے کٹ جاتے ہیں، انہیں نئی زمین آسانی سے قبول نہیں کرتی۔ چودھری محمد نعیم نے بارہ بنکی کی سکونت ترک کرکے اب سے تقریباً چالیس برس پہلے شکاگو بسالیا تھا، جب سے وہیں آباد ہیں اور ہندوستان میں اودھ کے ایک سوئے سوئے سے، لکھنؤ کے مضافاتی علاقے سے، جو ان کا آبائی وطن ہے، ہمیشہ کے لئے دسبتردار ہوکر بہت دور جابسے ہیں۔ اب وہ امریکی شہری ہیں۔ سال کے سات آٹھ مہینے شکاگو میں یا جہان ِ دگر کے بہت مختلف، بہت متمول، بہت ترقی یافتہ جدید شہروں کی سیاحی میں گزارتے ہیں، باقی تین چار مہینے ہندوستان کے دھول اور دھوپ سے بھرے ہوئے راستوں پر۔ یہاں بھی خوش، وہاں بھی خوش۔ بے اطمینانی اور اضطراب کی ایک مستقل کیفیت یہاں بھی اور وہاں بھی ہے۔ نعیم صاحب نے ایک ساتھ دو دنیاؤں کے تضادات سے جس طرح سمجھوتا کیا ہے شاید کم لوگوں کے بس میں ہوگا۔ لیکن میں نے یہ جو سمجھوتے والی بات کہی، شاید غلط کہی۔ نعیم صاحب کی سوانح کی لغت میں اس لفظ ’’سمجھوتے‘‘ کے لئے گنجائش بہت مشکل سے نکلتی ہے۔ وہ بااصول، بے باک، بڑی حد تک کھرّے اور منہ پھٹ قسم کے انسان ہیں۔ ایسا خال خال ہی ہوتا ہے کہ ان کے دل میں کچھ ہو، زبان پر کچھ اور۔
۱۹۷۱ء کے امس بھرے موسم میں، ایک روز وہ اپنے انڈو امریکن بچوں طاہر اور فرح کے ساتھ علی گڑھ میں وارد ہوئے، اس ارادے سے کہ یہ نقل مکانی راس آئی تو یہیں رہ جائینگے۔ ان دنوں پروفیسر آل احمد سرور شعبہ ٔ اردو کے صدر تھے اور انہوں نے تقابلی ادبیات کی ریڈرشپ پر نعیم صاحب کو بلالیا تھا۔ نعیم نے کم و بیش ایک سیشن یونیورسٹی میں گزارا۔ مگر یہ تجربہ انہیں راس نہ آیا۔ ایک صبح میں نے یہ تماشا دیکھا کہ فیکلٹی آف آرٹس کی عمارت کے برآمدے اور راہداری سے وہ دھڑادھڑ سائیکلیں اٹھا کر باہر فوارے سے ملحق آب زاروں کی طرف اچھال رہے ہیں اور طیش میں ہیں۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا تو غصے اور غصے کو ضبط کرنے کے باعث کانپتی ہوئی آواز میں بولے: ’’صاحب، حد ہوگئی! یونیورسٹی ہے یا کباڑخانہ۔ لوگ یہ تک نہیں دیکھتے کہ آنے جانے کا راستہ بھی ہے یا نہیں۔ ہر طرف سائیکلیں پارک کر رکھی ہیں !‘‘ اسی حالت میں ایک خط فیکلٹی کے ڈین کو لکھ بھیجا۔ ان دنوں شعبہ ٔ فلسفہ کے صدر پروفیسر ظفر احمد صدیقی آرٹس فیکلٹی کے سربراہ تھے۔ روز اسی طرح سرجھکائے آڑی ترچھی سائیکلوں سے بچتے بچاتے اپنے دفتر میں داخل ہوتے تھے، مگر بے بس تھے۔ اب ایسی باتوں کا نوٹس کون لیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نعیم کی بے زاری بتدریج بڑھتی گئی۔ اس عرصے میں ان کی بیگم بھی شکاگو سے آئیں اور علی گڑھ کے ماحول کا معائنہ کرکے واپس چلی گئیں۔ بالآخر نعیم نے بھی واپسی کے سفر کا فیصلہ کرلیا۔ پھر وہ دن اور آج کا دن انہیں دوبارہ اپنے بارہ بنکی کے گھر کو گھر بنانے کا خیال نہیں آیا۔ ہر سال عزیزوں اور اہل خاندان سے ملاقات کیلئے آتے ہیں اور لوٹ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی شکاگو کی کسی سرد اور سنسان سہ پہری میں آنکھیں بند کئے کئے کسی پرانی ہندی فلم کا کوئی گیت سن رہے ہوتے ہیں تو اچانک ایک جھرجھری سی آتی ہے، پھر آنکھیں کھولتے ہیں اور اپنے روزمرہ میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
بارہ بانکوں کا شہر بارہ بنکی لکھنؤ سے صرف ۲۷؍ کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے۔ مقامی گورنمنٹ ہائی اسکول سے نعیم صاحب نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا۔ اس پریشان اور پراگندہ مزاج یونیورسٹی کے حال سے اس کے ماضی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اُس زمانے میں، جب نعیم صاحب یہاں سے بی اے کررہے تھے، یہ یونیورسٹی چاردانگ عالم میں جانی جاتی تھی۔ یہاں پروفیسر ڈی پی مکھرجی تھے، پروفیسر سدھانت تھے، پروفیسر وحید مرزا، پروفیسر مصطفیٰ علوی اور ڈاکٹر محمد احسن فاروقی تھے۔ شعبۂ اردو فارسی کے سربراہ پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب تھے۔ سرور صاحب، احتشام صاحب، ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی، ڈاکٹر نذیر احمد اور ڈاکٹر عبدالعلیم تھے۔ اولڈ انڈیا کافی ہاؤس تھا جہاں ڈاکٹر لوہیا اور نیشنل ہیرالڈ کے ایڈیٹر چیلاپتی راؤ، حیات اللہ انصاری اور فیروز گاندھی اور مجازؔ اور سلام مچھلی شہری، سبھی بیٹھتے تھے۔ ’’شام غریبان لکھنؤ‘‘ کا یہ آخری سنبھالا تھا۔ قرۃ العین حیدر نے ’’آگ کا دریا‘‘ میں اور محمد احسن فاروقی نے ’’شام اودھ‘‘ میں اس ماحول کی کچھ تصویریں ابھاری ہیں۔ مرزا جعفر حسین کی ’اودھ کی آخری بہار‘‘ یا سردار جعفری کی ’لکھنؤ کی پانچ راتیں ‘ دیکھئے تو آنکھیں آج بھی غبارآلود ہوجاتی ہیں اور دھندلے دھندلے سے کچھ سائے سامنے آجاتے ہیں۔ نعیم صاحب ہر روز صبح شام ریل گاڑی سے لکھنؤ آتے جاتے تھے اور اس دنیا میں چین سے بسر کرتے تھے۔ پھر ان کا انتخاب راک فیلر فاؤنڈیشن کے تحت چھ ہفتے کے لسانیات کے ایک کورس کی تکمیل کیلئے ہوگیا اور وہ دکن کالج (پونہ) کی طرف چل پڑے۔ یہ مغرب کی سمت سفر کا پہلا زینہ تھا اور اپنی مانوس دنیا سے ترک ِ تعلق کی پہلی دہلیز۔ پھر پونہ اور دہرادون ہوتے ہوئے انہوں نے کیلیفورنیا یونیورسٹی، برکلے کا رخ کیا۔ یہ ۱۹۵۷ء کی خزاں کا آخری دور تھا۔ اس سنہ سے مغرب، خصوصاً امریکہ میں اُردو زبان و ادب سے شغف اور ان کی ترویج کا ایک طویل دور شروع ہوا جسے اگر ایک عنوان دیا جاسکتا ہے تو وہ چودھری محمد نعیم کا نام ہے۔ ہمارے ادبی معاشرہ میں اپنی ڈفلی اپنا راگ کا چلن اب اتنا زور پکڑ چکا ہے کہ لوگ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ دوسروں کا امتیاز اپنی جیب میں ڈالنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں ، سو، ’’بین الاقوامی ادبی حیثیت‘‘ پر اصرار کے فیشن نے ایک معاشرتی ابتذال کی شکل اختیار کرلی ہے۔ نعیم صاحب نے اپنی زبان سے کبھی کوئی دعویٰ نہیں کیا مگر واقعہ یہ ہے کہ شکاگو میں نعیم صاحب نے، وسکانسن میں محمد عمر میمن نے اور انگلستان میں اگر رالف رسل اور ڈیوڈ میتھیوز نے اردو زبان اور ادبیات کی تعمیر اور ترقی کا بیڑا نہ اٹھایا ہوتا تو مغربی دنیا میں اُردو زبان و ادب کی تدریس اور قبولیت کا قصہ یقیناً مختلف ہوتا۔
مغرب میں اردو زبان و ادب کے مسلسل بڑھتے پھیلتے دائرۂ اثر کا جائزہ جب بھی لیا جائے گا، نعیم صاحب کی تصویر بھی بتدریج صاف ہوتی جائے گی۔ وہ ایک خاموش، شرمیلے، اپنی ’’کارکردگی‘‘ کے احساس سے کترا کر چلنے والوں میں سے ہیں۔ ذاتی نوعیت کی گفتگو وہ کبھی نہیں کرتے، کبھی انٹرویو نہیں دیتے، کبھی اپنے علمی اور ادبی کارناموں کی تفصیل نہیں بتاتے اور یہ تک نہیں بتاتے کے اودھ کے ایک چھوٹے سے قصبے کو چھوڑ کر ’’جہانِ دیگر‘‘ سے تعلق استوار کرنے میں انہوں نے کتنے پاپڑ بیلے۔ بتائیں بھی تو شاید لوگ شک کی نظر سے انہیں دیکھیں گے کیونکہ نعیم صاحب نے ابھی تک اپنے وجود سے بارہ بنکی اور لکھنؤ کی گرد جھاڑی نہیں ہے اور وقت کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے کی کوئی نمائشی جستجو نہیں کی ہے۔ وہ تو بھلا ہو ان کے شاگردوں اور ساتھیوں کا کہ انہوں نے یہ کٹا پھٹا افسانہ اپنی ایک کتاب A Wilderness Of Possibilities کے طور پر مرتب کردیا ہے۔ اس کتاب کے مرتبین کیتھرین ہینسن اور ڈیوڈ للی ویلڈ ہیں اور اسے اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے ۲۰۰۵ء میں شائع کیا ہے۔
اس کتاب میں شامل سوانحی تفصیلات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ برکلے میں نعیم صاحب نے ۱۹۶۱ء میں نئے سرے سے ایم اے لسانیات کی تکمیل کی۔ اس کے کچھ عرصے بعد شکاگو یونیورسٹی کی دعوت پر وہ پہلے مشرقی مطالعات سے، پھر لسانیات کے شعبوں سے وابستہ رہے۔ بالآخر جنوب ایشیائی زبانوں اور تہذیبوں کا مرکز ان کا دارالامان مقرر ہوا۔ اس کے سائے میں ایک لمبی عمر گزر گئی۔ یہاں کچھ اور ممتاز رفیقوں کے علاوہ نعیم صاحب کو معروف شاعر اے کے رامانجن کا ساتھ بھی میسر آیا۔ اسی یونیورسٹی کی کہکشاں میں ادب کے نوبیل انعام یافتگان سال بیلو اورکوئٹزری جیسے منتخب افراد بھی تھے۔ اسی دوران نعیم نے اپنے معروف جرنل ’’محفل‘‘ کی داغ بیل ڈالی جو آگے چل کر جرنل آف ساؤتھ ایشین لٹریچر کے نام سے جانا گیا۔