شہریار کے گھر سے لگا ہوا گھر کافی دنوں سے خالی پڑا تھا۔ لوگ گھر دیکھنے آتے مگر پتہ نہیں دیکھ کرجانے کے بعد کوئی واپس نہیں آتا۔
شہریار کے گھر سے لگا ہوا گھر کافی دنوں سے خالی پڑا تھا۔ لوگ گھر دیکھنے آتے مگر پتہ نہیں دیکھ کرجانے کے بعد کوئی واپس نہیں آتا۔ شہر یار کو بھی کافی مشقت اور محنت کے بعد اس محلے میں ایک اچھا ساگھر ملاتھا۔ آج سے دو سال پہلے گاؤں سے اس شہر میں ایک سوٹ کیس میں چند کپڑے ،اپنے تعلیمی کاغذات اور ایک انٹرویو کال لیٹر کے ساتھ قدم رکھا تھا۔گھر سے ماں اور ایک بہن نے بڑا دل مضبوط کر کے اسے شہر بھیجنے پر اپنے آپ کو راضی کیا تھا۔ والد کی موت کے بعد آمدنی کا کوئی سہارا نہیں تھا۔ گھر میں جوان بہن اور ایک بوڑھی ماں، کیا بنے گا اس گھر کا؟تعلیم ختم ہونے کے بعد لگاتار اخبارات کے اشتہار دیکھ دیکھ کر درخواست کرتا رہا ،کہیں سے کوئی جواب نہیں آتا ۔کہیں سے جواب آتا مگر انٹرویو میں کامیابی نہیں ملتی ۔ کہیںجانے کے بعد پتہ چلتا کہ یہاں تو پہلے سے ہی معاملہ طے شدہ ہے ۔مگر اس کے اندر کی آواز ہمیشہ یہی کہتی کہ ایک دن قابلیت اور اچھائی کی جیت ضرور ہوگی۔ماں اور بہن کی دعا نے شہریار کو آخر ایک انٹرویو میں کامیاب کرہی دیا ۔ اسےایک پرائیویٹ کالج میں ٹیچر کی نوکری مل گئی اور اللہ اللہ کر کے ایک ٹھیک ٹھاک سے علاقے میں مکان بھی مل گیا۔ اس نے کالج کے بعد محلے کے بچوں کو ٹیوشن دینا بھی شروع کر دیا، گھر کا کرایہ، کھانے پینے کے اخراجات اور ان سب سے ایک بڑی رقم بچا کر ہر مہینے اپنے گھر بھیجنا اس کا معمول بن گیا۔ ضرورتیں اتنی تھی کہ شہریار سے زیادہ اس کی تنخواہ کا انتظار اس کے گھر والوں کو رہتا۔اس لیے شہریار نے ٹیوشن کلاس بھی شروع کردی ۔آج بھی شہریار کلاس ختم کر کے کرسی پر آرام کر رہا تھا کہ کسی نے دروازے کی کنڈی ہلائی ۔
کون ہے ؟ آ جاؤ اندر۔ ایک بزرگ خاتون اور ان کے پیچھے اپنے آپ کو چھپاتی ہوئی ایک جوان لڑکی گھر میں داخل ہوئیں۔ کہیے کیا کام ہے؟ شہریار نے پوچھا ۔میں بی بی آپا اور یہ میری بیٹی انعم ہے۔ ہم آج ہی آپ کے پڑوس میں رہنے آئے ہیں۔ہم نے سنا ہے آپ ٹیوشن پڑھاتے ہیں ! میری بچی انعم بی اے میں ہے۔اس کا دوسرا سال چل رہا ہے سال اول کے کچھ پیپر رہ گئے ہیں اگر آپ اسے پڑھا دیں؟ مگر میں تو صرف چھوٹے بچوں کی ٹیوشن لیتا ہوں ۔ سر آپ کا اتنا نام ہے آپ تو سب کو سب کچھ پڑھا سکتے ہیں ۔ شہر یار سے پھر انکار نہ ہو سکا ۔ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے کل سے بھیج دیں انعم کو ۔بس یہ وقت ہے میرے پاس شام کا چھوٹے بچوں کی ٹیوشن اور رات کا کھانا پکا نے کے درمیان کا۔دوسرے دن انعم اپنے وقت پر آ گئی۔شہریار نے باتوں باتوں میں پوچھا آپ لوگ یہاں کیسے آئے۔ انعم نے کہا کہ ہمارا ایک بڑا گھر تھا اور ہمارے رشتے دار بھی سب پڑھے لکھے ہیںمگر ابّا کے انتقال کے بعد سب بدل گیا۔ گھر ابّا کی پنشن سے چلتا ہے، مکان مالک نے اپنے کرائے کے ڈر سے ہمیں گھر چھوڑنے کو کہہ دیا اور رشتے داروں نے بھی منہ موڑ لیا۔ بس اب امی چاہتی ہیں کہ میں پڑھ لکھ لوں تو میرا کسی اچھی جگہ رشتہ کروادیں۔ یہ کہہ کر انعم شرما گئی۔ امی نے کہا ہےکہ ٹیوشن فیس ذرا آگے پیچھے ہوجائے تو کوئی مسئلہ تو نہیں ہے نا سر کو۔شہریاریہ سن کر مسکرا دیا ۔
اب ہر روز انعم اپنے وقت سے پہلے آ جایا کرتی تھی۔ شہریار بچوں کو پڑھاتا رہتا تو انعم شہریار کے لئے چائے بنا دیتی۔ کبھی اس کے روم میں جا کر اس کا بستر ٹھیک کر دیتی تو کبھی ٹیوشن کے بعد رات کا کھانا بنانے میں مدد کردیتی اور کسی روز اپنے گھر سےہی کھانا لے آتی۔ اب جیسے شہریار کو انعم کا انتظار رہتا۔ وہ دھیرے دھیرے انعم پرمنحصر ہوتا جارہا تھا ۔ بدلے میں شہریار بھی انعم کے گھر کے سارے مردوں والے کام کر دیتا ۔جیسے اناج، سبزی ،بی بی آپا کی دوا اور کبھی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ڈاکٹر کو لانا لے جانا بھی کردیتا۔ وہ سوچتا عورت ذات کہاں ادھر ادھر خوار ہوں گی ۔ شہریار نے بہت ہی دل لگا کے انعم کو پڑھایا۔ اس کے لئے نوٹس بنائے۔ اس کے کالج بھی کئی بار اس کے ساتھ گیا ۔ نہ کبھی فیس کا تقاضا کیا اور نہ بی بی آپا نے کبھی دی ۔
بی اے کے فائنل امتحان کا وقت آ گیا۔ امتحان کا سینٹر گھر سے کافی دور تھا۔دو بسیں بدلنے کا معاملہ تھا مگر شہریار نے یہ ذمہ داری بھی خوشی خوشی قبول کرلی ۔ دل ہی دل میں شہریار انعم کو پسند کرنے لگا تھا ۔ ہر بار اس کی زبان پر اپنے دل کا خیال آتا مگر رک جاتا۔ سوچتا امتحان پاس ہونے کے بعد موقع دیکھ کر بی بی آپا سے رشتے کی بات کرے گا۔
اتوار کی صبح جب شہریار اپنے گھر کے کاموں میں مصروف تھا تو انعم اپنے ہاتھوں میں ایک پرچی لے آئی۔ شہر یار نے دیکھتے ہی کہا کہ ارے کل ہی تو سارا سامان لا دیا ہے آج پھر یہ پرچی ، شہریار پوری لسٹ پڑھنے لگا، مٹھائی، نمکین، سموسے ،ٹھنڈی بوتل ۔واہ! لگتا ہے آج میری دعوت ہونے والی ہے؟ شہریار نے پوچھا۔ انعم نے اپنے دوپٹے کو انگلی میں لپٹتے ہوئے کہا’’آج مجھے لڑکے والے دیکھنے آرہے ہیں، آپ بس یہ سامان لا دیں ،امی آ کر لے جائیں گی، ابھی مجھے تیار بھی ہونا ہے‘‘شہریار پر یہ خبر بجلی بن کر گری ۔وہ بت بنا انعم کو جاتے ہوئے دیکھا رہا۔ پورے کمرے میں کچھ جلنے کی بو آنے لگی۔ کچن میں جا کر دیکھا توسالن پوری طرح جل چکا تھا۔ دو دن بعد کالج سے آتے آتے شہریار کو خیال آیا کہ آج تو انعم کا جوڑا درزی کے یہاں سے سل کر ملنے والا ہے جو ہفتہ بھر پہلے ہی اس نے انعم کے ساتھ جاکر سلنے ڈالا تھا۔ جیب تلاش کرنے پر شہریار کو رسید بھی مل گئی۔ جوڑا لے کر وہ سیدھا انعم کے گھر گیا۔ انعم سامنے والے کمرے میں بیٹھی تھی اور بی بی آپا اندر کے کمرے میں آرام کر رہی تھی۔ انعم نے اپنا جوڑا فوراً شہریار کے ہاتھوں سے لیا اور شہریار کا ہاتھ پکڑ کر اسے سیدھا گھر کے باہرلے آئی اور تھوڑے درشت لہجے میں کہا کہ’’ سنو،اب میرا رشتہ ہوگیا ہے۔ محلے والوں کو بھی پتہ ہے اور لڑکے والوں کے گھر سے بھی کوئی نہ کوئی آتا جاتا رہتا ہے۔ اس لئےمناسب یہی ہے کہ آپ میرے سارے کام باہر ہی کر دیا کریں۔ ایک دم سے گھر پر مت آ ئیے۔ مجھے کال کر کے بتا دیا کیجیے۔ میرا کوئی بھی سامان اپنی ٹیوشن کلاس کے بچوں سے بھیج دیا کیجیے ۔ ہاں ایک بات اور امی کی کھانسی کی دوا ختم ہو گئی ہے، آپ کو نام تو پتہ ہے بازار کی طرف جانا ہو تو لیتے آنا۔‘‘
شہریار کو تو جیسے سکتہ ہوگیاتھا۔ اس کے دونوں ہونٹ سل گئے تھے۔ اسے محسوس ہوا کہ اس پر کوئی بھاری پتھر رکھ دیا گیا ہو۔ بہت کوشش کے بعدنہایت دھیمی آواز میں اس کی زبان سے ایک لفظ ادا ہوا ’’جی‘‘۔