• Wed, 17 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : آخر یہ خواب بکھرنے ہی تھے!

Updated: December 17, 2025, 3:35 PM IST | Maryam Bint Mujahid Nadwi | Mumbai

کیا قربانی دینے کی ذمہ داری صرف عورت کی ہے؟ یہ افسانہ سماج سے ایک چبھتا ہوا سوال کرتا ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
جیا نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایک پرانی سہیلی کی کال اس کے برسوں پرانے زخموں کو یوں تازہ کر دے گی۔
’’جیا، کہاں ہو یار؟ شادی کے بعد تم تو ہمیں بھول ہی گئی ہو!‘‘ اپنی سہیلی مہ وَش کی پُر جوش آواز سن کر جیا مسکرا اُٹھی۔ ’’تمہارے جیسے مخلص لوگوں کو کون بھول سکتا ہے؟‘‘ گفتگو آگے بڑھی تو جیا کو معلوم ہوا کہ مہ وَش کی شادی پچھلے سال ہی ایک بزنس مین سے ہوئی ہے، جو بیرون ملک جاب کرتا ہے۔ مہ وَش بھی وہیں رہتی ہے، آج کل وہ اپنی امی کے پاس آئی ہوئی تھی۔ اور وہ خود بھی ایک اچھی کمپنی میں جاب کرتی ہے جیسا کہ اس کا خواب تھا۔ مہ وَش اپنی زندگی میں وہ حاصل کر پائی تھی جس کی اس نے خواہش اور جستجو کی تھی۔ وہ ایک کامیاب عورت تھی، جسے زندگی نے اپنے خواب مکمل کرنے کے کئی مواقع فراہم کئے تھے۔ جیا نے اس سے ملنے کا وعدہ کیا اور کال منقطع کر دی۔
جس خواب کو دیکھے جیا کو کئی زمانے گزر چکے تھے، آج پھر وہ اس کو بے چین کر رہے تھے۔ جیا نے اپنے اندر کی آوازوں کو اندر ہی دبا دیا، اور لان میں آکر بیٹھ گئی، ساتھ میں چائے کا بھانپ اُڑاتا کپ بھی تھا۔ لیکن وہ کب تک ان آوازوں کا گلا گھونٹنے میں کامیاب ہوسکتی تھی؟ آج اسے لگا جیسے دسمبر کی سرد ہوا پرانی یادیں بھی اپنے ساتھ سمیٹ لائی ہے۔
اس کی زندگی میں کئی سال پہلے ایک ایسا موڑ آیا تھا، جہاں سے مڑکر وہ اپنے خواب کو عملی جامہ پہنا سکتی تھی۔ ایک انٹیریئر ڈیزائنر بن سکتی تھی۔ اس کا وہ خواب جو وہ بچپن سے دیکھتی آئی تھی۔ اور شاید اب بھی اس خواب کی تعبیر کی خواہش اس کی ذات میں کہیں نہ کہیں پیوست تھی۔ مگر انسان ہر وقت جو چاہتا ہے اور جیسا منصوبہ بناتا ہے، ویسا ہوتا نہیں ہے۔ کئی وجوہات کی بنا پر جیا کو بھی اپنا خواب، اپنے منصوبوں کو پیچھے کہیں چھوڑنا پڑا۔ اسے آج بھی یاد ہے جب اس نے بارہویں کے امتحانات میں نہایت اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کی تھی، اور اسکول کے ہر معلم و معلمہ کا مشورہ یہ تھا کہ وہ فوری طور پر کسی انٹیریئر ڈیزائننگ کے کورس میں داخلہ لے لے۔ ان کے مطابق اس بات کے مکمل آثار تھے کہ وہ اس فیلڈ میں کامیاب ہو کر ایک اچھی جاب حاصل کرسکتی تھی۔ لیکن اس کے شاندار نتائج کے جشن کا شور ابھی تھما بھی نہ تھا کہ اک شام اس کی امی اس کے کمرے میں آئی تھیں، ا ن کا التجا بھرا لہجہ، آنسو سے ڈ بڈبائی آنکھیں! جب انہوں نے جیا سے ایک چیز مانگی تو وہ انہیں انکار نہ کرسکی۔ ’’تم میری سبھی بیٹیوں میں سب سے سمجھدار اور سب کا خیال رکھنے والی بیٹی ہو، جیا۔ میں اور تمہارے ابو چاہتے ہیں کہ.... کہ.... وہ.... ہم تمہاری فیس.... اور عالیہ کی شاد....دی.... کا خرچ ایک ساتھ.... نہیں اٹھا سکیں گے.... تو....‘‘ شرمندہ لہجہ جیا کا دل گداز کر گیا، وہ تو پھول کے مرجھا جانے پر افسوس کرنے والی ایک عام سی لڑکی تھی۔ اپنی ماں کی بات کیسے ٹال سکتی تھی۔ اسے ایک بات سمجھ میں آگئی تھی کہ زندگی میں کچھ فیصلے ایسے بھی کرنے پڑتے ہیں جن کے لئے دل راضی ہوتا ہے نہ دماغ، مگر اپنوں کے لئے، ان کی خوشی کے لئے کچھ کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔ اس نے بھی اپنی بڑی بہن اور تین چھوٹی بہنوں کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ پی لیا تھا۔ اس کا ایک انٹیریئر ڈیزائنر بننے کا خواب صرف ایک خواب بن کر رہ گیا۔ بات یہ تھی کہ جس وقت جیا کے کورس میں داخلے کی فیس جمع کروانی تھی، اسی وقت جیا کی بڑی بہن کی شادی بھی طے تھی۔ دونوں اخراجات ایک ساتھ اٹھانا جیا کے ابو کے لئے ممکن نہیں تھا، وہ پہلے ہی کافی مقروض ہوچکے تھے۔
جیا کے ابو ایک سرکاری فرم میں ایماندار ملازم تھے۔ معمولی سی تنخواہ جس میں آٹھ افراد کی ضرورتیں، پانچوں بیٹیوں کی پڑھائی کا خرچ، جیا کی دادی کی دوائی وغیرہ، بڑی مشکل سے مہینہ گزرتا تھا۔ بلکہ گزارا جاتا تھا۔ اپنی خوا ہشوں کا گلا گھونٹ کر جیا نے وہ دن کیسے گزارے تھے، کیسے جھوٹی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے وہ شادی میں آئے مہمانوں سے ملی تھی، اور ان کے سوالوں کے جواب دیئے تھے۔یہ وہ خود بھی نہیں جانتی!
زندگی کا وہ دور گزرا ہی تھا کہ جیا کی بھی شادی ہوگئی۔ نئے گھر کے تقاضوں نے جیا کو مصروف کر دیا۔ اور جیا کے خواب بھی عام لڑکیوں کی طرح دل کے کسی کونے میں دب کر رہ گئے۔ دن گزرتے گئے اور اس کے بچے اس عمر کو پہنچ گئے کہ ان کی آنکھوں میں بھی مستقبل سنوارنے اور کچھ بننے کے خواب چمکنے لگے۔ اس کا بیٹا ایک سرجن بننا چاہتا تھا، بڑی بیٹی ایک ٹیچر بننا چاہتی تھی اور نجمہ، سب سے چھوٹی بیٹی ایک پائلٹ بننا چاہتی تھی۔
اب ان تینوں کے خواب جیا کے بھی خواب بن چکے تھے۔ زندگی کی مصروفیات اور الجھنوں نے اسے اپنے خواب کے بارے میں سوچنے کا بھی وقت نہیں دیا۔ جیا کی زندگی بس وہی روز مرہ کے کاموں سے شروع ہوکر، مہینے بھر پیسوں کی بچت کی جدو جہد پر ختم ہو جاتی تھی۔
فون کی رنگ کی آواز پر وہ چونکی۔ اس کی چائے ٹھنڈی ہوچکی تھی، وہ صرف آدھے گھنٹے میں ماضی کے کئی برسوں کا سفر طے کر چکی تھی۔ ٹھنڈی آہ بھر کر اس نے فون کان سے لگا لیا۔
ز ز ز
اگلے دن جیا اپنی سہیلی مہ وَش سے ملنے اس کے گھر گئی، دونوں تپاک سے ملیں اور کافی دیر تک پرانی باتوں کو تازہ کرتی رہیں، ساتھ میں شامی کباب، چکن سینڈوِچ، شکر قند کا چاٹ اور تازہ جوس سے انصاف بھی کر رہی تھیں۔ باتوں ہی باتوں میں مہ وَش بولی، ’’تم انٹیریئر ڈیزائننگ میں کریئر بنانا چاہتی تھی ناں، جیا؟ لیکن کچھ وجوہات کی وجہ سے نہیں کرسکی۔ میرے ایک کولیگ ہیں، جو ایک این جی او چلاتے ہیں۔ جو عورتوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد اور مواقع فراہم کرتی ہے۔ جو خواتین پہلے کسی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کرسکیں، ان کی مدد کرتی ہے۔ تم بھی کوشش کرو۔ پرسو اس کا فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے۔‘‘ جیا نے نچلا ہونٹ دباتے ہوئے تھوڑا سوچ کر اسے جواب دیا، ’’مَیں گھر میں مشورہ کرکے تمہیں بتاتی ہوں۔‘‘
گھر آتے وقت وہ عجیب کیفیت میں مبتلا تھی۔ وہ خواب جو کئی سال پہلے مکمل نہیں ہوا، شاید آج مہ وَش کے ذریعے پورا ہوجائے۔ واپسی کے سفر میں اسے آس پاس راستے میں بکھرے خزاں کے مرجھائے پتے بھی بہار نما لگے! وہ سارا راستہ مسکراتی ہوئی گھر لوٹی تھی۔
ز ز ز
رات میں بچوں اور اپنے گھر والوں کے سامنے اس نے یہ مدعا رکھا، تو سب حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ جیسے جیا نے مریخ پر جانے کی بات کر دی ہو۔ تینوں بچے جو آج تک اپنی ماں کا پیشہ ’ہوم میکر‘ لکھتے رہے تھے، عجیب الجھن کا شکار تھے۔ اس کی بڑی نند نجمہ بھی وہاں موجود تھی، جو اس کی بات سن کر دوپٹہ کے کونے کو منہ میں دبائے ہنس رہی تھی۔ گویا کوئی اس بڑی تبدیلی کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھا۔ ’’تمہیں کیا ضرورت ہے اپنے پیروں پر کھڑاہونے کی؟ اپنا گھر دیکھو، اور آرام سے رہو۔‘‘ اس کے شوہر اکبر نے سرد لہجے میں کہا، اور اس کی طرف دیکھا، جیسے کہہ رہا ہو، ’’مجھے تم سے اس حماقت بھری بات کی امید نہیں تھی۔‘‘ اور پھر وہ بچوں کی جانب متوجہ ہوگیا۔ اس کی ساس کشمالہ بیگم، منہ میں پان چباتے ہوئے بہو کو دیکھنے لگی ’ بی بی، کچھ دنوں میں شمسہ (جیا کی چھوٹی نند کی بیٹی) کی شادی ہے۔ اب اگر تم یہ فارم بھر دو، تو گھر کی ذمہ داریوں کے لئے ہمیں ایک عدد ملازمہ رکھنی پڑے گی۔‘‘ سب کی طرف سے صاف انکار تھا۔
جیا نے کمرے میں بیٹھے ہر نفوس کو دیکھا جو اس موضوع کو دفع کرکے اپنی ہی گفتگو میں مشغول ہوگیا تھا۔ وہ بھرے کمرے میں ان سب اپنوں کے درمیان گویا تنہا محسوس کر رہی تھی۔ وہ جس کھڑکی سے ٹیک لگائے کھڑی تھی، وہاں سے آتی اوائل دسمبر کی سرد ہوا بھی اسے بہلا نہ پائی۔ بڑی نند نجمہ کی فرمائش پر وہ چائے بنانے کچن میں چلی گئی۔
چائے بناتی ہوئی جیا کئی سال پہلے گزر جانے والے غم سے پھر سے گزر رہی تھی، جب امی نے اسے بتایا تھا کہ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے وہ اس کورس میں داخلہ نہیں لے سکتی، آج پھر اپنے خواب کو ٹوٹتا دیکھ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ کیا زندگی میں ایک عورت کو اتنا حق بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے، شرعی حدود میں رہتے ہوئے، اپنے خوابوں کے لئے بھی جدوجہد کرے؟ اس کے ذہن میں پھر ایک سوال ابھرا جو کئی سال پہلے بھی گزر چکا تھا: اگر میری جگہ کوئی بیٹا ہوتا تو کیا امی اور ابو اتنی آسانی سے اسے منع کرسکتے تھے؟ شاید نہیں۔
زندگی کی اس دوڑ میں شاید عورت کو ہی اپنے خواب کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اور جیا بھی یہی سوچ رہی تھی۔ ’’میرے گھر والے اتنی بڑی تبدیلی کو ماننے لئے تیار ہی نہیں، کسی نے سچ کہا ہے آخرکار عورت کو ہی اپنے خواب قربان کرنے پڑتے ہیں.... اسے ہی پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ آخر میں اسے اور اس ہی کے خوابوں کو بکھرنا پڑتا ہے۔‘‘
اس نے یہ سب سوچا، ایک غمگین مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔ وہ اپنی ہتھیلی کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوئے زکریا شاذ کا یہ مشہور شعر گنگنا نے لگی:
اے گردش ایام ہمیں رنج بہت ہے
کچھ خواب تھے ایسے کہ بکھرنے کے نہیں تھے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK