Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ: آسیب زدہ

Updated: June 13, 2025, 5:29 PM IST | Afshan Malik | Mumbai

اتنے عرصے میں مَیں نے نہیں دیکھا کہ انہیں علاج کے لئے کسی اسپتال وغیرہ لے جایا گیا ہو۔ ان کا علاج بس یہی تھا کہ جب ان کی ہیجانی کیفیت ہوتی اور وہ بےقابو ہو جاتیں تب کسی ڈاکٹر کو بلا کر سکون یا نیند کی کوئی دوا یا انجکشن دلوا دیا جاتا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

دادی کے کمرے سے ڈاکٹر کے ہمراہ ابو جی کو نکلتے دیکھا تو مَیں سمجھ گئی کہ پھوپی کی پھر وہی کیفیت ہوگئی ہوگی.... مَیں بھی تیز قدموں سے دادی کے کمرے کی طرف بڑھی۔ امی اور تائی بھی و ہیں موجود تھیں اور دادی ہمیشہ کی طرح پھوپھی کے پلنگ کے پاس کرسی پر بیٹھی ہوئی آہستہ آہستہ قرآنی آیات پڑھ رہی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں تھمی تسبیح کے دانے جس تواتر سے اک اک کرکے گر رہے تھے آنکھوں سے آنسوؤں کی بوندیں بھی اسی تواتر سے ٹپک رہی تھیں۔ پھوپھی اب انجیکشن کے زیر اثر سو رہی تھیں۔ پچھلے کئی سال سے میں ان کی یہی کیفیت دیکھ رہی تھی وہ اچانک بیٹھے بیٹھے زور زور سے رونے لگتیں، اپنا سر دیواروں سے ٹکراتیں، چہرے کو اپنے ہی ہاتھوں سے پیٹ پیٹ کر لال کر لیتیں، زیادہ تر وہ خود کو ہی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھیں اور اس بری طرح بکھرتی تھیں کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔ سننے میں تو یہ بھی آیا تھا کہ ایک بار انہوں نے خودکشی کی بھی کوشش کی تھی۔
اتنے عرصے میں مَیں نے نہیں دیکھا کہ انہیں علاج کے لئے کسی اسپتال وغیرہ لے جایا گیا ہو۔ ان کا علاج بس یہی تھا کہ جب ان کی ہیجانی کیفیت ہوتی اور وہ بےقابو ہو جاتیں تب کسی ڈاکٹر کو بلا کر سکون یا نیند کی کوئی دوا یا انجکشن دلوا دیا جاتا۔ وہ دوا کے زیر اثر گھنٹوں سویا کرتیں اور جب دوا کا اثر ختم ہو جاتا تو کئی دن تک مضمحل سی رہتیں پھر رفتہ رفتہ معمول پر آجاتیں، مگر ان کی سونی آنکھوں کی ویرانی کبھی ختم نہ ہوتی۔ ان کی ایسی حالت دیکھ کر میرے دل میں طرح طرح کے خیالات آتے تھے۔ کبھی یوں لگتا کہ انہیں کوئی دماغی مرض ہے، کبھی محسوس ہوتا کہ شاید کوئی شدید ذہنی صدمہ پہنچا ہے اور کبھی یقین ہونے لگتا کہ کوئی ایسا حادثہ ضرور ہوا ہے ان کے ساتھ جس کی وجہ سے ان کی ذہنی حالت اتنی ابتر ہوگئی ہے۔ دورہ پڑنے پر جیسی جنونی حالت ہو جاتی تھی ان کی اگر مسلسل یہی کیفیت رہتی تو یقیناً ان کا شمار پاگلوں میں ہی کیا جاتا۔
جمیلہ پھوپی اسم با مسمٰی تھیں، عمر کے اس پڑاؤ پرجبکہ وہ پچاس پار کر چکی تھیں اور لمبے بالوں میں چاندی کے تار چمکنے لگے تھے ان کے چہرے پر ایک انوکھی سی کشش تھی۔ صاف شفاف رنگت، تیکھے نقوش، چھریرا جسم اور مناسب قد لیکن اس تمام خوبصورتی پر اداسی نے ایک چادر تان دی تھی۔ جھیل سی گہری آنکھوں میں ویرانی ہر وقت ڈیرہ جمائے رہتی۔ خاموش لبوں پر ان کہی شکایتیں لئے وہ یوں نظر آتیں جیسے کوئی چلتا پھرتا مجسمہ چہار دیواری میں قید اپنی رہائی کا منتظر ہو! نہ معلوم روح جسم سے آزادی چاہتی تھی یا جسم اس زنداں سے نکلنا چاہتا تھا! یہ زنداں ہی تو تھا جہاں ہذیانی کیفیت سے چیختی چلاتی عورت کو نیند کے ایک انجکشن سے کچھ وقت یا کچھ دنوں کے لئے پر سکون کر دیا جاتا، سب کچھ عارضی.... نہ روح کا علاج تھا نہ جسم کا!
پھوپی کہیں آتی جاتی بھی نہیں تھیں وہ اور دادی ایک ہی کمرے میں رہتی تھیں۔ رات کو ایک بڑی سی مسہری پر دادی کے ساتھ اس طرح لپٹ کر سوتی تھیں جیسے کوئی خوف زدہ بچہ ماں کی اوٹ میں خود کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہو۔ دادی کی دنیا بھی صرف جانماز، تسبیح اور جمیلہ پھوپی تک ہی محدود تھی ان کا زیادہ تر وقت عبادت میں ہی گزرتا تھا۔ بیٹی کے دکھ نے ان کے چہرے کی جھریوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا تھا۔
ادھر کچھ دنوں سے پھوپی جسمانی طور سے بھی بیمار رہنے لگی تھیں اور بہت کم اپنے کمرے سے نکلتی تھیں۔ ان کی دن بہ دن گرتی ہوئی صحت دیکھ کر نہ جانے کیوں میرے اندر ایک انجانا سا خوف گھر کرتا جا رہا تھا، دادی کے سجدے اور طویل ہو چلے تھے۔ لیکن میرے بس میں کچھ بھی نہیں تھا، مدد تو دور مجھے حقیقت کا بھی علم نہیں تھا۔ نہ کسی سے پوچھنے کی ہمت تھی نہ خود سے کوئی بتانے کو تیار تھا۔ لیکن پھوپی کا شکستہ وجود اور مضمحل چہرہ ایسی کھلی کتاب تھا جس کے ہر ورق پر ان کے درد کی داستان رقم تھی۔ ان کی ایسی حالت دیکھ کر مجھے یقین سا ہو چلا تھا کہ وہ ضرور کسی طوفان کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان کی خاموشی سے اب مجھے گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔ میں دل ہی دل میں اللہ سے دعا مانگتی کہ کسی طرح پھوپی کی اس تکلیف دہ کیفیت کی اصل وجہ تک میری رسائی ہو جائے اور میں ان کی کوئی مدد کر سکوں!
پھوپی اب کبھی کبھی میرے کمرے میں آنے لگی تھیں۔ حالانکہ کوئی خاص بات تو نہ کرتی تھیں بس میری کتابوں کی الماری کھول کر کھڑی ہو جاتیں، کوئی رسالہ یا ناول نکال کر لے جانے کی اجازت مانگتیں اور دو چار دن بعد پڑھ کر واپس کر دیتیں۔ ان کا سلیقہ حیران کرنے والا ہوا کرتا، کتاب کو جہاں سے نکالتی تھیں پڑھنے یا دیکھنے کے بعد واپس اسی جگہ رکھتی تھیں۔ میری کتابوں اور رسائل و جرائد کے جگہ جگہ مڑے ہوئے صفحے دیکھ کر بڑی دھیمی آواز میں کہتیں، ’’نغمہ کتاب پڑھ کر بند کرتے ہوئے یاد دہانی کے لئے ورق مت موڑا کرو نشانی رکھا کرو۔‘‘ اور مَیں شرمندہ ہو جاتی۔ مجھے یاد آتا کہ میرے ابو جی بھی ہمیشہ مجھے کتاب کا ورق موڑنے کے لئے منع کیا کرتے تھے اور میری وہ خراب عادت آج تک نہیں گئی تھی!
پھر ایک دن مجھے بڑی حیرت ہوئی، پھوپی نے اس دن میرے ساتھ کافی وقت گزارا اور غیر متوقع طور پر اپنے بچپن اور لڑکپن کی بہت سی باتیں دہراتی رہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ، ’’بچپن میں انہیں کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا اور یہ بات ابّا جی جانتے تھے اس لئے جب بھی شہر جاتے میرے لئے رسالے وغیرہ ضرور لایا کرتے لیکن اماں کو میرا رسالے اور ناول پڑھنا قطعی پسند نہیں تھا۔ اس بات کو لے کر مَیں اور ابا دونوں اکثر اماں کی ڈانٹ کھایا کرتے تھے۔ شاید اماں بھی ٹھیک ہی سوچتی تھیں وہ ایک دیندار مشرقی عورت تھیں اور مجھے بھی دینی کتابیں پڑھنے کی تاکید کرتے ہوئے کہتیں، ’’ہر لڑکی کو ’بہشتی زیور‘ پڑھنا چاہئے کہ اس کتاب میں زندگی گزارنے کے رہنما اصول بتائے گئے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہو کر دین و دنیا دونوں سنوارے جاسکتے ہیں۔ وہ مجھے آخرت کا خوف دلا کر نصیحتیں کرتیں کہ، ’’اسی دنیا میں نہیں رہنا ہے بی بی، خدا کو بھی منہ دکھانا ہے.... پھر اماں نے یہ کہہ کر کہ ’’پھوہڑ لڑکی کی سسرال میں اس کی ماں پر نام پڑتے ہیں کہ لڑکی کو کچھ سکھایا نہیں۔‘‘ کھانا پکانے سے لے کر سلائی کڑھائی تک ہر کام میں مجھے طاق کیا پھر شادی بھی ہوئی اور.... پھر.... پھر.... پھر.... آہ!‘‘
پھر کیا پھوپی....؟ مجھے لگا کہ شاید آج حقیقت سے کوئی پردہ سرکنے والا ہے۔ مگر وہ ایک دم سے اٹھ کر چل دیں۔ ابھی دس پندرہ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ دادی کی آواز آئی، ’’جلدی آؤ جمیلہ کو دورہ پڑ گیا ہے۔‘‘
اس دن تو مَیں ڈر ہی گئی تھی کیونکہ پھوپی ابھی ابھی میرے کمرے سے ہی گئی تھیں۔ مَیں بھاگ کر دادی کے کمرے میں پہنچی تو دادی انہیں سنبھالنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔ امی فون پر ڈاکٹر کو بلا چکی تھیں۔ ڈاکٹر نے آکر معمول کے مطابق نیند کا انجکشن لگا دیا، کچھ دیر میں ان پر غنودگی چھا گئی، تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے اور وہ پرسکون ہو گئیں۔ گھر کے دیگر افراد ہمیشہ کی طرح اک اک کرکے کمرے سے نکل گئے۔
اس دن کے بعد سے پھوپی اکثر میرے کمرے میں آکر بیٹھ جاتیں، بات بہت کم کرتی تھیں پھر بھی ان کا چہرہ دیکھ کر نہ جانے کیوں مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہیں اور کہہ نہیں پا رہی ہیں۔ میں تو منتظر ہی تھی کہ کسی طرح ان کے اندرون تک میری رسائی ہو جائے اور پھر بہت دن نہیں لگے ایسا طوفان آیا کہ ان کے ساتھ ہی میرے دماغ کی طنابیں اکھڑ گئیں، میرا وجود ریزہ ریزہ ہوگیا.... پھوپی نے اپنی خاموشی کو زبان دے دی!
’’یہ درد اب نا قابل برداشت ہوتا جا رہا ہے نغمہ! دل کی رگیں بس ٹوٹا ہی چاہتی ہیں.... شاید روح کا پنچھی اڑنے کے لئے پَر تول رہا ہے.... وقت کم ہے اب اور مجھے کچھ کہنا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میری خاموشی میرے بعد مجھے مجرم ٹھہرا دے.... نہیں بتایا تو سب کچھ میرے ساتھ ہی دفن ہو جائے گا.... کوئی کچھ نہیں جان پائے گا....! حالانکہ اس قیامت کی گھڑی کو زبان سے دہرانا بھی میرے لئے کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ لیکن اس انکشاف کے بعد شاید مَیں جی نہ سکوں گی.... نہ ہی کسی سے آنکھ ملا پاؤں گی.... تم سے بھی نہیں۔‘‘ وہ خود کلامی کے سے انداز میں بات کر رہی تھیں!
’’آپ ایسا کیوں سوچ رہی ہیں پھوپی....؟ آپ کو کچھ نہیں ہوگا.... یقین کریں.... اور آپ پریشان نہ ہوں!‘‘ میں نے ہمت کرکے بڑے لاڈ سے پھوپی کے گلے میں ہاتھ ڈال دیئے اور ایک لمحہ گنوائے بغیر خود ہی ایک تجویز بھی پیش کر دی، ’’پھوپی آج رات کو ہم لوگ اسٹڈی روم میں بیٹھ کر بہت ساری باتیں کریں گے....؟‘‘
’’ہمم....‘‘ کچھ سوچتے ہوئے انہوں نے میری طرف دیکھا اور تائیدی انداز میں سر ہلا دیا۔ جمیلہ پھوپی کے جانے کے بعد مَیں نے معمول کے کام نمٹائے اور اپنے شوہر راشد سے کہہ دیا کہ، ’’مجھے آج رات اسٹڈی روم میں کچھ وقت لگے گا، بہت دنوں سے کچھ لکھا نہیں ہے سوچ رہی ہوں کچھ لکھا پڑھا جائے۔ پلیز آپ بچوں کے پاس لیٹ جائیں کچھ دیر۔‘‘ راشد نے پہلے میری طرف بڑی گہری نظروں سے دیکھا اور پھر کوئی سوال کئے بغیر مسکرا کر حامی بھر لی۔
راشد یوں تو اپنی پھوپی سے بہت محبت کرتے تھے لیکن ان کی اس نفسیاتی کیفیت کے تعلق سے انہوں نے مجھ سے کبھی کوئی بات نہیں کی بلکہ پھوپی کے ساتھ میرے بڑھتے تعلق سے وہ اکثر پریشان سے ہو جاتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مَیں پھوپی کے کسی معاملے میں دخل دوں۔ اس لئے مَیں نے پھوپی سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں راشد کو کچھ نہیں بتایا مگر میری بے چینی عروج پر تھی اور اک یقین سا تھا کہ آج پھوپی اپنا کوئی راز مجھے ضرور بتانے والی ہیں۔ میں بھی تو یہی چاہتی تھی کہ پھوپی کی ذات کا کوئی روزن مجھ پر ہی کھل جائے، کسی راز سے کوئی پردہ اٹھ جائے، کوئی راستہ نظر آجائے۔ لیکن یہ تو مجھے ہر گز نہیں معلوم تھا کہ پھوپی اس زہر کو میرے اندر انڈیلنے والی ہیں جس کو وہ پچھلے تیس برس سے گھونٹ گھونٹ پی رہی تھیں اور تِل تِل مر رہی تھیں....!
اوائل مارچ کی ہلکی سرد رات میں جب آسمان پر ستارے مدھم سے پڑ گئے تھے بادلوں سے اٹھکھیلیاں کر کرکے چاند تھک سا گیا تھا.... اندھیرے نے فضامیں ایک فسوں خیز خاموشی بکھیر دی تھی۔ اسٹڈی روم کے دروازے پر آہٹ ہوئی، میری نظر اٹھی اور جمیلہ پھوپی کا سوگوار حسن مجھے حیران کر گیا.... افففف....! میرے منہ سے بےساختہ نکلا....! ایک لمحے کو جیسے میں پتھر کی ہوگئی.... کندھوں پر کالی شال لپیٹے موم کا اک مجسمہ تھا جو چل کر میرے کمرے میں آگیا تھا۔ پھوپی کی نفسیاتی کیفیت سے ہٹ کر شاید میں نے کبھی ان کی خوبصورتی پر یوں غور ہی نہیں کیا تھا.... وہ خود ہی اندر آگئیں اور مجھے ہوش آگیا۔ ان کو دیوان پر بٹھا کر میں نے ایک ہلکا سا کمبل ان کے پیروں پر ڈال دیا، گاؤ تکیہ ان کی کمر سے لگایا اور خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئی، ’’پھوپی آپ آرام سے بیٹھیں....!‘‘ مَیں نے ماحول ہلکا پھلکا کرنے کی کوشش کی لیکن مَیں سوچ رہی تھی کہ بات کیسے شروع کی جائے....؟ مگر کسی پیش رفت سے پہلے ہی مَیں نے دیکھا کہ پھوپی کا سَر جھکا ہوا تھا اور وہ نیچے نظریں گڑائے شاید ماضی کے اوراق پلٹنے میں لگی تھیں....! پھر ایک دم بغیر کسی تمہید کے انہوں نے بولنا شروع کر دیا....
عذاب کی اس گھڑی سے پہلے میری زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں، گھر میں سب سے چھوٹی سب کی آنکھ کا تارا تھی میں۔ میرا بی اے کا رزلٹ آچکا تھا کہ میرے لئے ایک بڑے زمیندار گھرانے سے رشتہ آیا۔ علاقے میں ان لوگوں کا بڑا نام تھا۔ لڑکا یوروپ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ زمیندار گھرانہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکا، انکار کا کوئی جواز نہ تھا۔ پھر بھی ابا اور بھائی جان نے اپنے ملنے جلنے والوں سے ان لوگوں کے بارے میں ہر طرح کی چھان بین کروائی اور مطمئن ہو جانے پر اپنی منظوری کی خبر بھجوا دی۔ خوش تو میں بھی بہت تھی، میری کنواری آنکھوں میں ست رنگے خواب اترآئے تھے.... گھر میں میرے ہونے والے شوہر کا ذکر ہوتا یا کوئی اس کا نام لیتا تو میرے تصور میں ایک خوبصورت شہزادے کی شبیہ ابھر آتی، دل کی دھڑکنیں بے ترتیب سی ہونے لگتیں۔ مَیں ان دنوں آئینے میں خود کو گھنٹوں نہارا کرتی، آپ ہی آپ مسکراتی، خود سے ہی شرماتی اور نت نئے خواب بنتی۔ میری بڑی خواہش تھی کہ مَیں اسے دیکھوں لیکن اس وقت ایسا کوئی رواج نہیں تھا کہ لڑکا لڑکی شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھ لیں یا مل لیں۔ ہاں مجھے اس بات کی حیرت تھی کہ ایسے ترقی یافتہ ملک میں تعلیم حاصل کرنے والا لڑکا مجھے دیکھے بغیر رشتہ کرنے پر کیسے راضی ہوگیا تھا....؟ لیکن ہمارے گھر میں لڑکے کی اس بات کو خاندانی شرافت پر محمول کیا گیا۔ شادی کے بعد مجھے اپنے شوہر کے ساتھ یوروپ جانا تھا اس لئے ان لوگوں کو شادی کی بہت جلدی تھی۔ ابا اماں نے بھی جلدی شادی کر دینے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی اور ایک ماہ کے اندر ہی مجھے رخصت کر دیا۔
جس محبت اور مان سے والدین نے رخصت کیا سسرال کی دہلیز نے بھی پلکیں بچھا دی تھیں۔ لڑکیاں مجھے گھیرے میں لئے ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ کر رہی تھیں۔ اس رات عجیب سی مدہوشی چھا رہی تھی مجھ پر.... چھوٹی چھوٹی بچیاں بار بار میرا گھونگھٹ الٹ رہی تھیں... میرے زیور چھو چھو کر دیکھ رہی تھیں.... میری خوبصورتی کے حوالے سے جوان لڑکیوں کے شریر جملے جسم میں گدگدی سی کر رہے تھے۔ ہنسی اور قہقہوں کے درمیان کچھ رسمیں ادا کی گئیں بالآخر مجھے حجلۂ عروسی میں پہنچا دیا گیا..!
پھولوں سے سجی خوابگاہ، خوبصورت ریشمی پردے، دبیز قالین اور کمرے میں پھیلی ہوئی تازہ گلابوں کی مہک نے فضا کو معطر اور رومانی بنا دیا تھا۔ مجھے اپنی قسمت پر رشک آرہا تھا، کنواری آنکھوں میں سجے خواب تعبیر پانے کے لئے بےتاب تھے۔ تصور سے حقیقت تک کا سفر کتنا جان لیوا ہوتا ہے یہ مَیں نے اس رات جانا تھا.... دل نے عجب سا شور مچا رکھا تھا، جاگتی آنکھیں اس ان دیکھے شہزادے کی منتظر تھیں جس کے نام میری زندگی کے جملہ حقوق محفوظ ہوچکے تھے....
باہر مردانے میں شاید محفل قوالی کا اہتمام کیا گیا تھا، گھر میں لڑکیاں ڈھول پر بنے، بنی کے گیت گا رہی تھیں ایک ہنگامہ سا تھا، کان پڑے آواز سنائی نہیں دے رہی تھی.... رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تو دروازے پر آہٹ ہوئی، میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا.... کوئی آہستہ سے اندر آیا، پھولوں سے سجی سیج پر میرے بہت قریب.... اتنا قریب کہ اس کی سانسیں مجھے سنائی دے رہی تھیں۔ اس نے آہستہ سے میرا گھونگھٹ اُلٹ دیا۔ میری آنکھیں بند تھیں پر مَیں اپنے چہرے پر اس کی نگاہیں محسوس کر رہی تھی۔ میری سماعتوں نے صرف ایک لفظ سنا ’’سبحان اللہ‘‘ مَیں نے دھیرے سے آنکھیں کھول کر تصور کو حقیقت میں بدلتے دیکھا۔ وہ میرے حسن کی تعریف میں رطب اللسان تھا.... سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہوئے اس نے میرے چہرے اور پیشانی پر اپنی محبت کی ان گنت مہریں ثبت کر دیں....! رات ان حسین لمحوں کی خاموش گواہ بن کر کب گزر گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ ابھی صبح کی روشنی نمودار بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس نے ایک بار پھر میری پیشانی کا بوسہ لیا اور میرے پہلو سے نکل کر آہستہ قدموں سے باہر چلا گیا۔ میں نے اٹھ کر دروازہ بند کیا ہی تھا کہ دروازے پر پھر دستک ہوئی مَیں نے جھجھکتے ہوئے دروازہ کھولا تو کوئی بڑے استحقاق سے اندر داخل ہوا مَیں نے گھبرا کر اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا۔ شراب کی بدبو میرے نتھنوں سے ٹکرائی، مَیں خوف زدہ سی ہو کر پیچھے ہٹ گئی اندازہ کر پاتی کہ وہ کون ہے اور میرے کمرے میں اس طرح کیوں گھس آیا ہے.... وہ بول اٹھا....
’’سوری....! دوستوں نے رات کچھ زیادہ ہی پلا دی مجھے ہوش ہی نہیں رہا۔ آپ نے ساری رات میرا انتظار کیا ہوگا۔‘‘ یہ الفاظ تھے یا بم کا دھماکہ ہوا تھا میرے آس پاس.... اس کے ساتھ ہی پھوپی کی دلدوز چیخ نے عرش ہلا کر رکھ دیا اور مجھے لگا جیسے میرے وجود کے پر خچے اڑ گئے ہوں۔ کانوں میں سائیں سائیں ہو رہی تھی، آنکھیں کھلی تھیں لیکن مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میرے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی پھر مجھے کچھ یاد نہیں کیا ہوا....؟ کون آیا....؟ کس نے کس کو اٹھایا....؟
اگلی صبح جب مجھے ہوش آیا تو مَیں اپنے کمرے میں بستر پر تھی، خالی الذہن سی۔ گھر میں عجیب طرح کی خاموشی تھی لوبان اور کافور کی سوگوار مہک فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ میں کچھ سمجھ پاتی کہ دادی کے کمرے سے بہت زور سے رونے کی آواز آئی، ’’ہائے جمیلہ! میری بچی! میرے جگر کا ٹکڑا....!‘‘ مَیں اٹھی اور ننگے پاؤں بےتحاشہ دادی کے کمرے کی طرف بھاگی اور پلنگ پر لیٹی جمیلہ پھوپی سے لپٹ گئی لیکن جمیلہ پھوپی اب کہاں تھیں....؟ وہ تو اپنی بربادی کی داستان مجھے سنا کر ابدی نیند سوگئی تھیں.... مجھے بیقرار کرکے شاید انہیں قرار آگیا تھا اب نہ انہیں ڈاکٹر کی ضرورت تھی، نہ کسی سکون آور دوا کی....!
امی اور تائی نے بمشکل تمام مجھے وہاں سے ہٹایا۔ مَیں اب پوری طرح ہوش میں تھی۔ سب کچھ دیکھ رہی تھی، سمجھ رہی تھی۔ میت کے پاس بیٹھی ہوئی عورتیں سرگوشیانہ انداز میں محو گفتگو تھیں۔ ’’ٹھیک ہی کہتے تھے اس کے سسرال والے.... آسیب کا سایہ ہی تھا اس پر، سہاگ رات کی صبح بیہوش ملی تھی یہ اپنے کمرے میں.... ولیمے کی تقریب اور دلہن بیہوش....؟ بڑی باتیں بنائی تھیں لوگوں نے....! سچ تو یہ ہے کہ بھلا کون ایسی آسیب زدہ لڑکی کو جھیلتا زندگی بھر شاید اسی لئے اس کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ آخر آج خاتمہ ہی ہوگیا بےچاری کا۔ دلہن بنی حسین بھی تو کتنی لگ رہی تھی کہتے ہیں ایسی ہی خوبصورت لڑکیاں تو آسیب کے سائے میں آ جاتی ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK