’’چادر عورت کا زیور ہے‘‘ کی معنویت اور گہرائی کو بیان کرتا افسانہ۔
مسکان جو نیم غنودگی کی حالت میں تھی تبھی امّی کی آواز سنائی دی ’’مسکان، اُٹھو بیٹا دیر ہو جائے گی.... ہمیں تقریب شروع ہونے سے پہلے پہنچنا ہے۔‘‘ صابرہ بیگم اپنی لاڈلی بیٹی کے کمرے میں بکھرے سامان کو سمیٹی جا رہی تھی ساتھ ہی ساتھ اسے آوازیں دے کر اٹھانے کی کوشش بھی کر رہی تھی۔ ’’دیکھو، ۱۰؍ بج گئے ہیں، جلدی اٹھو، جانا نہیں ہے کیا چاچا کے پاس؟‘‘ اس دفعہ انہوں نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’دس ہی تو بجے ہیں، کون سی قیامت آگئی ہے جو آپ میرے سَر پر یوں چلّا رہی ہیں....‘‘ مسکان نے اُٹھتے ہوئے جواب دیا اور بیڈ کے سرہانے پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ صابرہ بیگم بھی اس کے پاس آ بیٹھی اور مسکان کا ہاتھ تھام کر کہنے لگی ’’تمہیں بتایا تھا نا اتوار کو تمہارے چچا کے پاس ہم سب کی عقیقہ کی دعوت ہے تو پھر جلدی سے تیار ہو جاؤ۔‘‘ وہ نرمی سے مخاطب ہوئیں۔
’’اور مَیں نے بھی آپ کو بتایا تھا کہ مَیں نہیں جاؤں گی کسی بھی دعوت میں، مجھے شاپنگ پر جانا ہے، کل میرے باس کی سالگرہ ہے، کتنا اہم دن ہے آپ جانتی ہیں نا؟‘‘ اتنا کہہ کر مسکان واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
اس کے پیچھے صابرہ بیگم سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کریں جب سے ان کے شوہر لیاقت صاحب ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئے تھے، خاندان والوں نے زیادہ میل نہیں رکھا تھا، یہ سوچ کر کہ کہیں ماں بیٹیاں کوئی سوال نہ کر دیں لیکن وہ یہ بھول رہے تھے کہ لیاقت صاحب نے مسکان کو اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی، ان کے انتقال کے بعد جس کمپنی میں وہ ملازم تھے، اسی میں مسکان کو ایک اچھی پوسٹ پر رکھ لیا گیا تھا جس سے ان کے گھر کا خرچ اور مسکان کی چھوٹی بہن ردا کی پڑھائی بخوبی چل رہی تھی۔ مسکان اچھے قد و قامت کی مالک، زمانے کے ساتھ چلنے والی، نئے فیشن اور ٹرینڈ کو فالو کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کام کیلئے سنجیدہ اور محنتی ہونے کے سبب اس نے جلد ہی ترقی کی تھی۔ کندھے تک لٹکتے چمکیلے بال، سرخ ہونٹ، ٹراؤزر اور جدید طرز کی شرٹ، یہ تھا مسکان کا مخصوص حلیہ۔ اس کے برعکس اس کی چھوٹی بہن ردا بے حد سادہ خاموش طبیعت کی مالک، صوم و صلوٰۃ کے ساتھ پردے کی پابند، ہو بہو صابرہ بیگم کا عکس تھی۔
ابھی صابرہ بیگم سوچو کہ سمندر سے باہر نہیں نکلی تھی کہ مسکان گنگناتے ہوئے واش روم سے نکلی۔ انہوں نے بیٹی کو دیکھا جو لوور اور ٹی شرٹ میں گنگناتے ہوئے اپنے بالوں کو سکھا رہی تھی، بنا دوپٹے کے وہ ہر جگہ دندناتی پھرتی تھی۔ ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود وہ نہیں بدلی تھی لیکن وہ بھی ماں تھیں، انہوں نے بھی ہار نہیں مانی تھی۔
’’مسکان میں کل بازار سے تمہارے لئے چادر لائی تھی، دیکھو کتنی خوبصورت ہے تم اس میں بہت پیاری لگو گی۔‘‘ انہوں نے اپنے مخصوص نرم لہجے میں اس کو مخاطب کیا۔ مسکان آئینے کے سامنے سے ہٹ کر ماں کے پاس آگئی ’’دکھائیے ذرا کیا لائی ہیں۔‘‘ انہوں نے چادر سامنے کر دی۔ مسکان زور زور سے ہنسنے لگی۔ ’’امی آپ بھی نا، فضول خرچی کرتی ہیں اور مجھے منع کرتی ہیں، میں اس کا کیا کروں گی؟‘‘ مسکان نے حیرانی سے سوال کیا۔ ’’مسکان تم نقاب نہیں اوڑھتی کوئی بات نہیں، کم سے کم چادر ہی اوڑھ لیا کرو، یوں اچھا نہیں لگتا، شرم و حیا تو عورت کا زیور ہے میری بچی۔‘‘ صابرہ بیگم نے تحمل سے جواب دیا۔ ’’امی آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے، میں یہ چادر اوڑھوں گی، آپ نے سوچا بھی کیسے۔‘‘مسکان جھنجھلا ہی تو گئی تھی لیکن صابرہ بیگم کچھ کہتی اس سے پہلے مسکان نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’صبح صبح میرا موڈ نہ خراب کرے، مَیں شاپنگ پہ جا رہی ہوں، تیار ہونے دیں۔ اور ڈریسنگ ٹیبل پر جھک گئی۔
صابرہ بیگم چپ چاپ ہارے ہوئے قدموں سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ مسکان نے پلٹ کر ان کو جاتے ہوئے دیکھا اور تیاری میں مگن ہوگئی۔ اسے اپنے لئے بہترین سوٹ خریدنا تھا کیونکہ کل کی تقریب بھی تو خاص ہونے والی تھی۔ اس کے پسندیدہ شخص اس کے باس اسامہ حیدر کی سالگرہ تھی۔ یہ کوئی عام بات تو نہیں تھی۔
آج مسکان صبح سویرے ہی اٹھ گئی تھی اور اُس کی تیاریاں ہی ختم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ بہت خوش اور پر جوش تھی۔ اسامہ سر آج کوئی خاص اعلان کرنے والے تھے۔ اُنہوں نے اُسے بتایا تھا کہ کل کا دن آپ کیلئے بہت اہم ہے مس مسکان۔ تب ہی سے وہ ہواؤں میں اُڑ رہی تھی۔ کسی خاص اعلان کے انتظار میں۔ انتظار ختم ہوا، وہ ہال میں داخل ہوئی جو پورا روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔ پوری چھت کو قمقموں سے سجایا گیا تھا۔ مسکان پورے اعتماد سے آگے بڑھ رہی تھی، ہلکے گلابی رنگ کا کامدار ٹراؤزر اور شرٹ پہنے میک اپ نے اُس کی خوبصورتی کو اور بڑھا دیا تھا۔ دوپٹہ ہمیشہ کی طرح آج بھی غائب تھا۔ وہ بڑے سلیقے سے چلتے ہوئے اپنی دفتر کی ساتھی ثناء کے ساتھ آ کھڑی ہوئی۔
’’السلام وعلیکم!‘‘ اُس نے ثناء کو سلام کیا۔ ’’وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ!‘‘ ثناء نے چہکتے ہوئے کہا۔ ’’ابھی اسامہ سر نہیں آئے۔‘‘ اُس نے اُن کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی اور ثناء سے کہا۔ ’’نہیں ابھی نہیں آئے ہیں، اُن کی والدہ ضرور آچکی ہیں۔ اُنہوں نے بتایا ہے کہ وہ ایئر پورٹ گئے ہیں اپنی منگیتر کو لینے۔‘‘ ثناء نے ایک ہی سانس میں ساری بات بتا دی۔ ’’کیا؟ کیا کہا تم نے منگیتر؟‘‘ مسکان کو لگا کہ اُس سے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔ ’’ہاں بھئی، منگیتر ہی کہو، سر کی امی ابھی بتا رہی تھیں کہ آج ہی منگنی کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔‘‘ ثناء نے خوشی سے کہا۔
وہ خاموش سی ہوگئی، اُداسی نے آن گھیرا حالانکہ مسکان اچھے سے جانتی تھی کہ اسامہ سر نے کام کے علاوہ اُس کی کبھی تعریف نہیں کی تھی نہ ہی کسی طرح کی کوئی اُمید دلائی تھی۔ مسکان انہیں سوچوں میں گم تھی کہ ایک دم سے ساری لائٹیں بجھ گئیں اور سامنے راہ دری پر ایک لائٹ روشن ہوئی۔ اس نے دیکھا کہ اسامہ سر اور ان کے ساتھ کوئی لڑکی چلتے ہوئے آ رہے ہیں، لوگ تالیاں بجا رہے ہیں خوشی سے۔ سر کے چہرے پر گہری مسکراہٹ ہے اور وہ لڑکی وہ کون تھی سادہ سا سوٹ، سادہ مگر قیمتی، سر سے دوپٹہ اوڑھے ہوئے سرمئی چادر سے خود کو لپیٹے جس میں جگہ جگہ سفید موتیوں کا کام بنا تھا، سادگی اور خوبصورتی کی مثال آپ تھی۔ وہ لوگ میز تک آئے اور اسامہ نے مائک تھاما۔ ’’ہیلو لیڈیز اینڈ جینٹل مین، آپ سب کے آنے کا بہت شکریہ، ہاں تو بنا تمہید کے شروع کرتے ہیں۔‘‘ وہ پُرجوش اندازسے بول رہے تھے۔ مسکان کسی نقطے میں گم ہوچکی تھی۔ تبھی ثناء نے اس کا ہاتھ جھنجوڑا۔ ’’دیکھو مس ماہ نور دبئی سے آئی ہیں لیکن اپنی تہذیب کو نہیں چھوڑا۔‘‘
مسکان نے نظر اُٹھا کر ماہ نور کو دیکھا جس کا چہرہ چاند کی مانند روشن تھا۔ سرمئی چادر اُس کے حسن کو دو بالا کر رہی تھی۔ تبھی اُس نے اسامہ حیدر کے منہ سے اپنا نام سنا جو مائک لئے اُس کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ آج اُن کی سالگرہ کے طور پر کچھ خاص ملازمین کو پروموشن ملا تھا جس میں اُس کا نام سرِفہرست تھا۔ سب مسکان کو مبارکباد دے رہے تھے لیکن وہ بت بنی کھڑی تھی تبھی اسامہ حیدر ماہ نور کا ہاتھ تھامے اس کے پاس آئے اور اس سے مخاطب ہوئے ’’مسکان بہت بہت مبارک ہو، تم نے اپنی قابلیت کی بنا پر یہ مقام حاصل کیا ہے۔‘‘ اسامہ نے نرم لہجے میں کہا۔ ’’شکریہ سر!‘‘ اس نے چپی توڑی۔ ’’ماہ نور ان سے ملو، یہ ہے مسکان، ہماری کمپنی کی خاص ملازم جنہوں نے بہت کم وقت میں محنت اور لگن سے بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑا ہے۔‘‘ اس بار انہوں نے ماہ نور سے کہا۔ ’’ماشاءاللہ مسکان، بہت مبارک ہو آپ کو۔‘‘ ماہ نور نے مسکرا کر کہا ’’شکریہ بے حد شکریہ۔‘‘ مسکان کو اپنی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
تبھی اسامہ کی ماں فاطمہ حیدر نے ماہ نور کو آواز دی اور وہ آگے بڑھ گئی۔ اور اسامہ مسکان سے مخاطب ہوئے ’’مَیں نے آپ کو بتایا تھا نہ مس مسکان کہ آپ کیلئے خاص اعلان ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اور بہتر کام کریں گی۔‘‘ ’’جی ان شاء اللہ سر۔‘‘ ’’اچھا، وہ سب چھوڑیئے ،آپ یہ بتائیے کہ ماہ نور اور آپ کو کیسی لگی؟‘‘ اسامہ حیدر نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔ ’’جی بہت اچھی ہیں، سب تو ٹھیک ہے لیکن....‘‘ مسکان خاموش ہوگئی۔ ’’لیکن کیا؟ مس مسکان!‘‘ اسامہ نے سوال کیا۔ ’’وہ چادر میرا مطلب ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے۔‘‘ مسکان بس اتنا ہی کہہ سکی اور خاموش ہوگئی۔
’’مس مسکان، زمانہ چاہے جتنا بدل جائے، اسلام نہیں بدلا، قرآن نہیں بدلا اور نہ ہی اس کے احکامات بدلے ہیں اور اگر کوئی بدلا ہے تو وہ لوگ بدلے ہیں جن کے دل میں ایمان نہیں ہے، جن کو اللہ کا خوف نہیں ہے، باقی کوئی نہیں بدلا اور نہ بدلے گا۔ مجھے ایک سے ایک حسین ترین لڑکی مل جاتی لیکن مَیں نے ماہ نور کو چنا، پتہ ہے کیوں؟‘‘ اسامہ نے تھوڑا جھک کر کہا ’’کیونکہ اُس کے پاس حیا ہے، جو چادر آپ کو دقیانوسی لگ رہی ہے وہ ایک عورت کا زیور ہے۔‘‘
مسکان کو زندگی میں پہلی بار دوپٹے کی کمی کا شدت سے احساس ہوا۔ اس کا کھڑا رہنا مشکل ہو رہا تھا، دل کر رہا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔ پیچھے سے ثناء نے آ کر اس کا ہاتھ تھاما، ’’چلو کھانا نہیں کھانا ہے۔ ’’ہاں، جائیے آپ لوگ کھانا کھائیے۔‘‘ اسامہ سر یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ ثناء نے اسکے چہرےکو غور سے دیکھا ’’تمہیں کیا ہوا؟ کچھ ہوا ہے کیا؟‘‘ وہ بے چینی سے بولی۔ ’’نہیں نہیں کچھ نہیں، بس گھر جا رہی ہوں۔‘‘ اس کا وہاں ٹھہرنا مشکل ہو رہا تھا۔ ’’ارے! سنو تو اتنی جلدی کیوں ساتھ میں چلنا۔‘‘ ثناء نے کہا۔ ’’نہیں، میری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔‘‘ وہ جلدی سے باہر کی طرف بڑھ گئی۔ مسکان راستے بھر شرمندگی کے احساس سے دو چار ہونٹ چباتی گھر پہنچی۔ ’’اُس میں حیا ہے، چادر عورت کا زیور ہے۔‘‘ سر کے جملے بار بار کان میں سنائی دے رہے تھے۔
امی نے دروازہ کھولا، وہ جلدی سے ڈرائنگ روم میں پڑے صوفے پر ڈھ گئی۔ ’’ارے کیا ہوا، اتنی جلدی آ گئی، طبیعت تو ٹھیک ہے۔‘‘ امی قریب آتے ہوئے بولی۔ مسکان چپ چاپ آنکھیں موندے پڑی رہی۔ ردا سامنے پڑے تخت پر بیٹھی قرآن مجید پڑھ رہی تھی۔
’’کیا ہوا، کچھ بتاؤ تو چہرہ کیوں سرخ ہو رہا ہے تمہارا؟‘‘ امی نے پھر سوال کیا۔ ان کے سوالوں سے بچنے کیلئے وہ کمرے کی جانب چل دی۔ یکایک ردا کی آواز کانوں میں پڑی جو بڑی پیاری آواز میں قران پاک کا ترجمہ پڑھ رہی تھی: ’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے اسکے جو اُس میں خود سے ظاہر ہوتا ہے اور اپنے اوڑھے ہوئے دوپٹے اور چادریں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہا کریں۔‘‘ (النور:۳۱)
اتنا سننا تھا کہ مسکان پر کپکپی طاری ہوگئی۔ اس نے جلدی سے دروازہ کھولا اور خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ وہ چادر صوفے پر ویسے ہی پڑی تھی جو اُس نے کل امی کے ہاتھ سے لے کر پھینکی تھی۔ وہ صوفے کی جانب قدم بڑھانے لگی اور ہاتھ بڑھا کر چادر اٹھائی اور اوڑھ لی پھر وہی صوفے ڈھ گئی۔ آنسو آنکھوں سے نکل کر چادر کو بھگونے لگے۔