Inquilab Logo

افسانہ : دشت ِ برفاب میں

Updated: April 24, 2024, 1:25 PM IST | Kanwal Behzad | Kanwal Behzad

راضیہ اور اُس کا شوہر، ناصر کئی روز سے کرایے کا مکان تلاش کر رہے تھے مگر اُنہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا۔ کہیں کرایہ زیادہ تھا، تو کہیں لوگ اچھے نہیں تھے۔

Dasht-E-Barfab Main. Photo: INN
دشت ِ برفاب میں۔ تصویر : آئی این این

راضیہ اور اُس کا شوہر، ناصر کئی روز سے کرایے کا مکان تلاش کر رہے تھے مگر اُنہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا تھا۔ کہیں کرایہ زیادہ تھا، تو کہیں لوگ اچھے نہیں تھے۔ راضیہ مشترکہ خاندانی نظام کے عذاب سہتے سہتے اب تھک گئی تھی۔ سخت گیر ساس اور تیز طرار جیٹھانیاں اُسے سکھ کا سانس ہی نہیں لینے دیتی تھیں اور اب تو اس کی صحت بھی روز بہ روز گرتی جا رہی تھی۔ وہ ڈپریشن کی مریضہ بن گئی تھی اور اُس کی اس کیفیت کے اثرات تینوں بچوں کی تربیت پر بھی مرتب ہو رہے تھے۔ گرچہ ناصر فرمانبردار بیٹا تھا اور اُس نے کبھی الگ رہنے کا سوچا بھی نہ تھا لیکن بیوی اور بچوں کی قابلِ رحم حالت نے اُسے یہ قدم اُٹھانے پر مجبور کر دیا۔
 بالآخر خدا خدا کرکے راضیہ کی ایک سہیلی کے توسط سے انہیں ایک معقول سا پورشن مل ہی گیا۔ کرایہ بھی مناسب تھا اور گھر کی بالائی منزل پر رہنے والے لوگ بھی اچھے تھے۔ اوپر والے پورشن میں ایک فیملی رہائش پذیر تھی، جس کا سربراہ بیرون ملک مقیم تھا۔ فیملی میں بیرون ملک مقیم شخص کی بوڑھی ماں، بیوی اور چار بچے شامل تھے، جبکہ گھر کی مالکن بھی وہی معمر خاتون تھیں۔ راضیہ کو اُن میں بڑی اپنائیت محسوس ہوئی۔ بوڑھی خاتون نے اُسے بتایا کہ وہ گھر کرایے پر نہیں دینا چاہتی تھی، کیونکہ یہ اُن کے مرحوم شوہر کی نشانی ہے اور اس سے اُن کی بہت سی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں مگر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہوں نے ایک پورشن کرایے پر دینے کا فیصلہ کیا۔ بڑی بی کا کہنا تھا کہ اُن کا بیرون ملک مقیم بیٹا ان دنوں مالی مشکلات کا شکار ہے اور پھر یہاں مہنگائی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ معمر خاتون اپنے بیٹے، بہو، پوتے اور پوتیوں سے بیحد محبت کرتی تھیں اور ہر وقت اُن کی فکر میں گھلتی رہتی تھیں۔ اگر کسی روز اُن کے اکلوتے پوتے کو گھر آنے میں ذرا سی تاخیر ہو جاتی تو وہ اُس کی تلاش میں نکل کھڑی جاتیں۔ پوتیوں کی اسکول سے واپسی کا وقت ہوتا تو وَین کے انتظار میں گلی میں کھڑی رہتیں جبکہ اُن کی بہو یعنی بچوں کی ماں ایک لاپروا عورت تھی۔ راضیہ کا ایک دو مرتبہ اوپر جانا ہوا، تو جا بجا گندگی اور سامان بکھرا دیکھ کے اُس پر بہو کا ’’سگھڑ پن‘‘ بھی عیاں ہوگیا۔ یوں بھی وہ اکثر گھر کے بجائے محلے کی یاترا پر رہتی تھی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد راضیہ کو پتا چلا کہ بڑی بی کی بہو غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور زیادہ پڑھی لکھی بھی نہیں ہے۔ میاں کی کمائی اندھا دھند اُڑانے کے سوا اُسے کسی بات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں اور ساس کو تو پوچھتی تک نہیں۔

یہ بھی پڑھئے: افسانہ : وادئ اُلفت

 دُکھ، درد کی ماری اور محبت کیلئے ترستی راضیہ اب بڑی بی کو ’’ماں جی‘‘ کہنے لگی تھی۔ اُسے ماں جی کی صورت ایک شفیق ہستی جو مل گئی تھی، جبکہ وہ ان کی بہو اور پوتیوں پر حیران ہوتی، جنہیں اُن کی ذرا بھی قدر نہیں تھی۔ اکثر دوپہر کو جب راضیہ گھر کے کاموں سے فارغ ہوتی تو ماں جی اُس کے پاس آکر بیٹھ جاتیں اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے جی بہلاتیں۔ اس دوران راضیہ انہیں کھانے پینے کی کوئی چیز پیش کرتی تو وہ اکثر خوشدلی سے انکار کر دیتیں، تاہم کبھی کبھار کچھ چکھ ضرور لیتیں۔ البتہ اچھی چائے پینے کی بے حد شوقین تھیں۔ گھر کو صاف ستھرا رکھنے پر اکثر راضیہ کو سراہتیں اور اُس کے تینوں بچوں کے ساتھ بڑی شفقت کا مظاہرہ کرتیں۔ ماں جی ہر جمعہ باقاعدگی سے نہا دھو کے، صاف ستھرے کپڑے پہن کر آنکھوں میں سرما لگاتیں۔ اس دن بچوں کو ٹافیاں یا مٹھائی وغیرہ بھی دیتیں۔ ایک روز شام کے وقت راضیہ کے پاس آئیں، تو خاصی اُداس لگ رہی تھیں۔ اُن کی آنکھوں میں نمی سی جھلملا رہی تھی۔ راضیہ نے کریدنا مناسب نہ سمجھا، تو خود ہی گویا ہوئیں، ’’پچھلے ہفتے بیٹی آئی، تو جاتے ہوئے تھوڑا سا گوشت دے گئی۔ کہہ رہی تھی کہ امی آپ کی صحت اچھی نہیں ہے۔ اپنے لئے بنا کر کھا لیجئے گا۔ آج مَیں نے وہ گوشت چُولہے پر گلنے کیلئے رکھا اور بہو سے ہانڈی کا خیال رکھنے کا کہہ کر خود نماز پڑھنے چلی گئی۔ واپس آئی تو گوشت جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ اب بھلا مَیں اس وقت کیا کھاؤں گی؟‘‘ ’’ماں جی! تو کیا آپ اپنے لئے الگ کھانا بناتی ہیں؟‘‘ راضیہ نے حیران ہو کر پوچھا۔ ’’نہیں بیٹا! بچوں کے ساتھ بھی کھانا کھا لیتی ہوں۔ دراصل مجھے ڈاکٹر نے مرچ مسالے والے سالن کھانے سے منع کیا ہے اور بہو چٹ پٹے کھانوں کی بڑی شوقین ہے۔‘‘ راضیہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ماں جی اُس سے کچھ چھپا رہی ہیں۔
 اُسے بہت دُکھ ہوا اور پھر اُس نے پہلی بار ماں جی کو اپنے ہاتھ کا بنا کھانا زبردستی کھلایا، جس پر انہوں نے اُسے ڈھیر ساری دُعائیں دیں اور پھر اس کا ماتھا چوم کر بولیں، ’’بھلے ماں باپ کی اولاد لگتی ہو بیٹی۔ بڑی اچھی تربیت کی ہے اُنہوں نے تمہاری۔ اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘ ماں جی کو دُعائیں دیتا دیکھ کر راضیہ کی آنکھیں نم اور دِل مسرت سے لبریز ہو گیا۔ اُس کی ماں کو دُنیا سے گزرے کئی برس بیت چکے تھے اور ساس نے کبھی قبول ہی نہیں کیا تھا۔ پیار تو درکنار، وہ تو کبھی اُس سے نرمی سے بات بھی نہیں کرتی تھیں۔
 راضیہ، ماں جی کے کافی قریب ہو گئی تھی۔ ماں جی نے اُسے بتایا کہ انہیں معدے کا السر ہے اور اس کی وجہ سے اکثر اُن کے معدے میں شدید تکلیف بھی رہتی ہے۔ اب وہ راضیہ کے پاس پیسے بھی رکھوانے لگی تھیں۔ یہ اُن کے شوہر کی پنشن کی رقم ہوتی تھی، جبکہ گھر کا کرایہ اور بیٹے کی بھیجی ہوئی رقم بہو دنوں میں اُڑا دیتی تھی کیونکہ آئے دن اُس کے میکے سے کوئی نہ کوئی آجاتا تو اُس کی خوب خاطر مدارت کی جاتی۔ ایک رات ماں جی کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی توناصر اُنہیں اسپتال لے گئے، تب معلوم ہوا کہ اُن کا مرض بڑھ ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر نے ایڈمٹ ہونے کا مشورہ دیا لیکن ماں جی آمادہ نہ ہوئیں۔ وہ بضد تھیں کہ جب اُن کا بیٹا چھٹی پر گھر آئیگا، تب وہ اپنا علاج کروائیں گی۔ اب آئے روز اُن کی صحت خراب رہنے لگی تھی۔
 ایک روز راضیہ نے اُنہیں کافی سمجھایا کہ وہ اسپتال داخل ہو جائیں اور مکمل علاج کروائیں، تو وہ اُداس ہو کر بولیں کہ، ’’راضیہ بیٹی! اگر مَیں اسپتال چلی گئی تو پیچھے بچوں کا خیال کون رکھے گا۔ میری بہو بہت لاپروا ہے اور مجھے بچوں کی بڑی فکر رہتی ہے۔‘‘ پھر کہنے لگیں کہ، ’’آج مَیں نے آٹے کے ڈبے میں جھانکا، تو وہ بالکل خالی تھا۔ دوپہر کو روٹی بازار سے منگوا کر کھائی۔ تمہارا شوہر جب گھر آئے تو اس سے کہنا کہ آٹے کا تھیلا بھی لا دے تاکہ شام کو بازار سے روٹی نہ منگوانی پڑے۔ بڑی پوتی کی اسکول کی تین مہینے کی فیس جمع نہیں ہوئی۔ آج وہ ماں کو بتا رہی تھی کہ اگر کل تک فیس ادا نہ کی، تو اُس کا نام اسکول سے کاٹ دیا جائیگا۔ تمہارے پاس میرے جو پیسے رکھے ہیں، وہ ذرا آج مجھے نکال دینا۔ مَیں کوئی جوڑ توڑ کر کے بچی کی فیس تو دیدوں۔‘‘ یہ کہہ کر ماں جی چلی گئیں لیکن راضیہ کافی دیر اُداس بیٹھی رہی۔ اُس نے سوچا کہ ایک یہ ساس ہیں، جنہوں نے اپنی بہو، بیٹے اور پوتے پوتیوں کو حرزِ جاں بنایا رکھا ہے اور اس کہنہ سالی میں بیمار ہونے کے باوجود بھی انہیں ذہنی و جسمانی سکون میسر نہیں، جبکہ دوسری طرف اس کی ساس ہیں۔ الگ ہونے کے اتنے عرصے بعد بھی انہوں نے راضیہ اور اُس کے بچوں کا کبھی نہیں پوچھا کہ وہ اُن کے گھر سے جانے پر ناراض تھیں۔ 
 ایک روز راضیہ دوپہر کے وقت گھر کے کاموں سے فارغ ہو کرسستانے کیلئے بیٹھی ہی تھی کہ ماں جی کا پوتا آیا اور کہنے لگا کہ، ’’جلدی اوپر آئیں.... دادی اماں کی طبیعت خراب ہے۔‘‘ راضیہ فوراً بھاگی بھاگی اُوپر پہنچی تو ماں جی کو درد سے تڑپتے دیکھا۔ اُن کے معدے میں شدید تکلیف ہو رہی تھی، جبکہ اُن کی بہو اور پوتیاں بازار گئی ہوئی تھیں۔ راضیہ نے ماں جی کو پین کلرز دیئے تو انہیں کچھ سکون ملا۔ پھر اگلے کئی روز تک وہ ہشاش بشاش رہیں۔ راضیہ کے پوچھنے پر بتاتیں کہ، ’’اب ان کی طبیعت کافی بہتر ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: افسانہ: دعا

سردی میں شدت آچکی تھی۔ سارا دن یخ بستہ ہوائیں چلتی رہتیں۔ دن بھی کافی مختصر ہوگئے تھے۔ راضیہ کی کئی دن سے ماں جی سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ایک روز وہ صبح سویرے صحن میں گئی تو دیکھا کہ ماں جی صحن میں نصب نل کے نیچے سر نیہوڑائے بال دھو رہی ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر راضیہ نے تقریباً چلاتے ہوئے کہا کہ، ’’کیا ہوا ماں جی! اس قدر یخ بستہ موسم میں آپ یہاں بال کیوں دھو رہی ہیں؟ مجھے بتا دیتیں، مَیں آپ کو پانی گرم کر دیتی....‘‘ ’’ ارے بیٹی! کچھ نہیں ہوتا۔ اس نل کا پانی گرم ہوتا ہے۔ براہِ راست موٹر سے آتا ہے ناں۔ پھر آج جمعہ ہے اور نہانا بھی ضروری ہے۔‘‘ وہ اطمینان سے بولیں۔ مگر راضیہ کو تسلی نہ ہوئی اور اُس نے ماں جی کو زبردستی پانی گرم کرکے دیدیا اور ساتھ ہی کپڑے بھی استری کر دیئے اور ہیٹر کے پاس بٹھا کر چائے بھی پلائی اور وہ حسب ِ معمول ڈھیروں دُعائیں دیتی ہوئی رخصت ہوگئیں۔ چند روز بعد معلوم ہوا کہ ماں جی شدید بیمار ہیں۔ موسم کی سختی نے اُن کی صحت پر خاصا بُرا اثر ڈالا تھا اور اس بار انہیں السر کی تکلیف کیساتھ نمونیا بھی ہوگیا تھا۔ اُن کی حالت تشویشناک تھی۔ راضیہ اُن سے مل کر آئی تو کافی پریشان تھی۔
 کتنی ہی دیر تک وہ ماں جی کی صحت یابی کی دُعائیں مانگتی رہی۔ پھر پتا چلا کہ اُن کی بیٹی اُنہیں اپنے گھر لے گئی ہے۔ اب راضیہ کو یہ سوچ کر کچھ اطمینان ہوا کہ بیٹی اُن کا زیادہ اچھے طریقے سے خیال رکھے گی، مگر یہ اطمینان دیر تک قائم نہیں رہا اور دو دن بعد ہی ماں جی کے انتقال کی خبر آگئی۔ راضیہ یہ سن کر تڑپ اٹھی۔ طویل عرصے بعد ایک شفیق ہستی اُس کی زندگی میں آئی تھی اور وہ بھی راہیٔ عدم ہوگئی۔
 ماں جی کو دنیا سے گزرے تیسرا دن تھا۔ راضیہ بچوں کو اسکول وین میں بٹھانے کیلئے باہر آئی تو اُس کی نگاہ دروازے کے پاس موجود ماں جی کے کپڑوں کے ڈھیر پر پڑی۔ وہ حیران و پریشان کھڑی تھی کہ اتنے میں ماں جی کی پوتی بھی اسکول جانے کیلئے باہر آگئی۔ راضیہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اُس سے پوچھا کہ، ’’یہ کپڑے آپ لوگوں نے اس طرح باہر کیوں پھینک دیئے؟‘‘ ’’آپ کو نہیں پتا کہ وہ کتنی بیمار تھیں۔ ان جراثیم سے آلودہ کپڑوں کا ہم کیا کرتے بھلا۔ پھینکنے ہی تھے ناں۔‘‘ لڑکی نے تڑخ کر جواب دیا۔ ’’مگر بیٹا! ان کو آپ کسی پلاسٹک کے تھیلے میں تو....‘‘ راضیہ کی بات ادھوری رہ گئی اور لڑکی سنی اَن سنی کرکے چلی گئی۔ راضیہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ وہ اندر سے ایک بڑا سا شاپنگ بیگ لائی اور نمناک آنکھوں کے ساتھ ماں جی کے کپڑے سمیٹتے ہوئے سوچنے لگی کہ:
 ’’ہمارے اپنے، ہمارے دل کے قریب لوگ کتنی آسانی اور بے رحمی سے ہمیں یخ بستہ موسموں اور رویوں کے سپرد کرکے دشت ِ برفاب میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں اور مڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK