Inquilab Logo

افسانہ : وادئ اُلفت

Updated: April 17, 2024, 1:36 PM IST | Saima Sadaf | Uttar Pradesh

’’حریم کی بات ہے اس لئے مجھے ایسا سوچنا پڑ رہا ہے۔‘‘ شاہانہ نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’ایسی امید نہیں تھی مجھے آپ سے۔‘‘ شفیق صاحب نے افسوس ظاہر کیا۔ ’’سب چھوڑیئے آپ وہ کیجئے جو میں نے کہا ہے۔‘‘ شاہانہ اپنی بات پر قائم تھیں۔ ’’ٹھیک ہے جیسی آپ کی مرضی۔‘‘ شفیق صاحب نے ہار مان لی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ناشتے کی میز سج چکی تھی، حریم نے سب کو آوازیں دی تھیں ’’ناشتہ تیار ہے آجائیے۔ ‘‘ تھوڑی ہی دیر میں سب لوگ وہاں موجود تھے سوائے حماد شفیق کے جو اُس کی خالہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ’’تو حماد صاحب کے کانوں تک آواز نہیں پہنچی۔ ‘‘ شفیق صاحب نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’جاؤ حریم بیٹا جا کر دیکھو کیا کر رہا ہے۔ اس لڑکے کو کسی چیز کا ہوش ہی نہیں ہوتا۔ ‘‘ شاہانہ نے پلیٹ میں روٹی رکھتے ہوئے کہا۔ ’’جی خالہ! مَیں دیکھتی ہوں۔ ‘‘ حریم نے جاتے ہوئے کہا۔ 
 حریم نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ذرا دیر میں دروازہ کھول کر اندر آ گئی۔ حماد کرسی پر بیٹھا جرابیں پہن رہا تھا اور ساتھ میں دھیمی آواز میں گنگنا بھی رہا تھا۔ حریم کی طرف اُس کی پیٹھ تھی۔ ’’حماد! حماد بات سنو!‘‘ حریم نے کئی دفعہ آوازیں دیں مگر حماد صاحب گنگنانے میں اس قدر مگن تھے کہ.... آ آ....! حماد بہت زور سے چیخا تھا۔ ’’شش!‘‘ منہ پر انگلی رکھ کے دوسرے ہاتھ سے حریم نے حماد کے کان اینٹھتے ہوئے خاموش رہنے کے لئے کہا۔ ’’تم! تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ وہ برق رفتاری سے کھڑا ہوا۔ وہ اپنے کان سہلا رہا تھا۔ حریم نے اُسے ویسے ہی بٹھا دیا۔ ’’کس چھپکلی کی یاد میں اتنا کھوئے ہوئے ہو کہ تمہیں میری آواز نہیں سنائی دے رہی؟‘‘ کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’حریم کی بچی تم اندر کیسے آئی اور کیوں ؟‘‘ حماد بری طرح جھپٹا تھا اُسے۔ ’’ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا چلو۔ نواب صاحب کو روز بلانے آؤ، نخرے اٹھاؤ ان کے تو یہ ناشتہ کریں گے۔ ‘‘ حریم نے کہا۔ ’’مَیں نہیں آرہا۔ میں تمہارے بلانے سے نہیں آؤں گا، جاؤ۔ ‘‘ حماد نے بستر پر بیٹھتے ہوئے منہ بنا کر کہا۔ ’’ٹھیک ہے مَیں خالو سے کہہ دیتی ہوں کہ....!‘‘ ’’مَیں چل رہا ہوں۔ ‘‘ حماد نے بات کاٹتے ہوئے بولا۔ ’’خالو کا نام سنتے ہی ڈراما ختم ہوگیا.... ڈراما استاد....‘‘ حریم نےطنز کیا۔ ’’ہاں تم چلو۔ مَیں آرہا ہوں۔ ‘‘ حماد نے میز سے چیزیں اٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’اور سنو!‘‘ حماد نے اُسے پکارا تھا۔ ’’ہمم!‘‘ حریم پلٹی تھی۔ ’’آئندہ اُس کو چھپکلی نہیں کہنا۔ ‘‘ حماد نے تاکید کی۔ ’’تو کیا کہوں ؟ چمگادڑنی!‘‘ اور وہاں سے نکل گئی۔ حماد دانت پیس کر اُسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ 
 کھانے کی میز پر سبھی خاموشی سے کھا رہے تھے بس حماد ایسا تھا جو وقتاً فوقتاً حریم کو گھورے جا رہا تھا۔ ’’کیا! کیوں اس طرح گھور رہے ہو؟ کھا جاؤ گے؟‘‘ حریم سے برداشت نہیں ہوا تو اُس نے بول دیا۔ ’’امی اپنی اس چہیتی چھپکلی کو سمجھا دیجئے!‘‘ ’’خالہ دیکھ لیجئے مجھے یہ کیا کیا بلاتا رہتا ہے۔ ‘‘ حریم نے حماد کی بات پوری نہیں ہونے دی۔ ’’تو کیا کہوں چمگادڑنی؟‘‘ حماد نے تپاک سے بولا۔ لمحہ بھر کو شکن ابھری حریم کے ماتھے پر۔ ’’کھاتے وقت تو خاموش ہو لیا کرو تم دونوں۔ کیا ہر وقت!‘‘ شاہانہ نے خفا ہوتے ہوئے کہا۔ حریم نے حماد کی طرف دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اُس نے آنکھوں سے کوئی اشارہ کیا تھا۔ حریم اچانک ہی کھاتے کھاتے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’مجھے یونیورسٹی کیلئے تیار ہونا ہے مَیں جا رہی ہوں۔ ‘‘ حریم نے کرسی میز کے اندر لگاتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں ٹھیک ہے بیٹا! تم جاؤ حماد تمہیں چھوڑ دے گا۔ ‘‘ شاہانہ نے کہا۔ ’’نہیں ! میں کیوں چھوڑنے جاؤنگا بھلا۔ چاروں ہاتھ پیر سلامت ہے ما شاء اللہ! اور زبان بھی کیا خوب چلتی ہے خود جائے۔ ‘‘ حماد نے منہ میں لقمہ لئے ہوئے بولا۔ حریم نے جاتے ہوئے پلٹ کر پیچھے دیکھا پھر چلی گئی۔ ’’حماد یہ کیا طریقہ ہے ؟ کھالو پھر بولو اتنی جلدی کس بات کی ہے۔ کتنی دفعہ بتایا ہے۔ کھانے کے بیچ میں نہیں بولتے مگر مجال ہے کہ تم میں سے کوئی بھی مان لے۔ ‘‘ شاہانہ خفا ہورہی تھیں۔ ’’امی رک جائیے ابھی نہ تقریر دیجئے۔ ایک بندہ غیر حاضر ہے اُسے تو آنے دیجئے۔ یہ تقریر اُس کیلئے بھی بہت ضروری ہے۔ ‘‘ حماد نے بہت فکر میں کہا۔ ’’رُکو ابھی میں بتاتی ہوں کس کو کیا ضروری ہے۔ ‘‘ شاہانہ مزید خفا ہوئی تھیں۔ ’’اچھا اچھا سوری!‘‘ حماد کی بات سنے بغیر ایک چپت لگائی تھی شاہانہ نے۔ ’’سوری نا، آپ تو جھانسی کی رانی ہی بن جاتی ہیں۔ ایسے ہی کہہ رہا تھا میں تو....‘‘ حماد نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ ’’حماد!‘‘ شفیق صاحب نے باہر جاتے ہوئے آواز لگائی تھی۔ ’’جی آیا!‘‘ حماد نے جاتے ہوئے بولا۔ ’’تمہارے ابّو نہ بلاتے تو تمہیں بتاتی میں آج...‘‘
 ’’آپ حریم کے لئے کوئی رشتہ تلاش کریں، میں اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوجانا چاہتی ہوں۔ ‘‘ شاہانہ نے شفیق صاحب سے گزارش کی۔ ’’کیا شاہانہ آپ بھی ادھر اُدھر میں لگی ہیں۔ اچھا بھلا رشتہ گھر میں موجود ہے مگر نہیں۔ آخر حریم میں کیا خرابی ہے۔ گھر کی بچی ہےگھر میں ہی رہ جائے گی کسی پرائے کو سونپنے سے تو اچھا ہے۔ ‘‘ شفیق صاحب اپنی بیگم کے بار بار اصرار سے تنگ آچکے تھے۔ ’’کوئی خرابی نہیں ہے حریم میں اُس کی تربیت میں نے کی ہے۔ بس میں کسی کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتی کہ کوئی بھی الٹی بات کرے۔ ‘‘ شاہانہ نے اپنی صفائی پیش کی۔ ’’کوئی کیا کہے گا اور کیوں ؟‘‘ شفیق صاحب نے جواب چاہا۔ ’’یہی کہ یتیم بچی تھی جائیداد کی لالچ میں یہ سب کررہے ہیں۔ ‘‘ شاہانہ نے وضاحت کی۔ ’’کیا بچوں جیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔ آپ کب سے لوگوں کی باتوں کی پروا کرنے لگیں !‘‘ شفیق صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’حریم کی بات ہے اس لئے مجھے ایسا سوچنا پڑ رہا ہے۔ ‘‘ شاہانہ نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’ایسی امید نہیں تھی مجھے آپ سے۔ ‘‘ شفیق صاحب نے افسوس ظاہر کیا۔ ’’سب چھوڑیئے آپ وہ کیجئے جو میں نے کہا ہے۔ ‘‘ شاہانہ اپنی بات پر قائم تھیں۔ ’’ٹھیک ہے جیسی آپ کی مرضی۔ ‘‘ شفیق صاحب نے ہار مان لی۔ 
 حریم زینے سے اترتے ہوئے آرہی تھی اچانک ہی کسی چیز سے پیر ٹکرایا اور گرتے گرتے سنبھلی تھی۔ ’’دیکھ کر چلنا نہیں آتا تو چلتی ہی کیوں ہو؟ ‘‘ اُس نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے حماد کھڑا تھا اور وہ چیز جس سے وہ ٹکرائی تھی اُس کا پاؤں تھا۔ اور اس گری ہوئی حرکت پر گرا ہوا جملہ بھی اسی کے منہ سے نکلا تھا۔ ’’کیا! آخر مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ؟ دماغ کی تاریں کیوں ہلی ہوئی ہوتی ہیں ہمیشہ؟‘‘ حریم شدید غصے میں تھی۔ ’’ہو گیا! بول چکی.... اب جاؤ تیار ہو کر آؤ مجھے بازار جانا ہے۔ ‘‘ انگلی میں چابی گھماتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ’’مَیں تمہاری نوکر نہیں ہوں۔ میں کہیں نہیں جا رہی۔ مجھے بہت کام ہیں گھر میں۔ ‘‘ حریم چل دی وہاں سے۔ ’’ایک سیکنڈ....‘‘ حماد اُس کے آگے آیا۔ ’’پلیز چلو نا.... مجھے دفتر کیلئے ٹائی لینی ہے، ایک بھی ڈھنگ کی ٹائی نہیں ہےمیرے پاس۔ ‘‘ حماد نے گزارش کی۔ ’’بازار تم جاؤگے چیزیں تمہیں لینی ہیں۔ تو مَیں کیا وہاں تمہارا سامان اٹھائے پھروں گی۔ میرا کیا فائدہ؟‘‘ حریم نے وضاحت چاہی۔ ’’ہاں تو اٹھا لینا اس میں کیا برائی ہے۔ اچھی ہی لگوگی میرے ساتھ میرا سامان اٹھائے ہوئے۔ ‘‘ حماد نے اپنے بال ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔ حریم کا غصہ اب ساتویں آسمان پر پہنچ چکا تھا۔ ’’بھاڑ میں جاؤ۔ ڈوب مرو کہیں جا کے۔ ‘‘ کہتے ہوئے باورچی خانے کی طرف چل دی۔ ’’ایک منٹ میری بات تو سنو حریم!‘‘ پھر اُس کے پیچھے آیا۔ ’’یہ تو بتاکے جاؤ کہ میں ڈوبوں گا کہاں ؟‘‘ ’’کہیں بھی میری بلا سے۔ ‘‘ وہ کہتے ہوئے باورچی خانے میں آگئی۔ وہاں شاہانہ کام کررہی تھیں۔ حریم بھی آکر ان کا ہاتھ بٹانے لگی۔ ’’امی اسے کہیں میرے ساتھ بازار چلے۔ مجھے بہت ضروری چیزیں لینی ہیں۔ ‘‘ حماد نے شاہانہ سے کہا۔ ’’کیوں تم خود جا کر نہیں لے سکتے! اس کو کیوں تنگ کر رہے ہو؟‘‘ شاہانہ نے سوال کیا۔ ’’امی! میری آنکھوں میں دیکھئے ترس کھائیے تھوڑا مجھ معصوم پر۔ اکلوتی اولاد ہوں آپ کی، امی!‘‘ حماد اپنا رونا رو رہا تھا۔ ’’بہت تنگ کرتے ہو تم! حریم تم چلی جاؤ ورنہ یہ ایسے ہی معصومیت کے قصے سناتا رہے گا۔ ‘‘ شاہانہ نے تنگ آکر حریم سے کہا۔ ’’خالہ میرا دل نہیں کر رہا میں نہیں جاؤں گی۔ ‘‘ حریم نے بچنے کی کوشش کی۔ ’’ارے اُس دل کو بتاؤ کہ حماد شفیق کے ساتھ جانا ہے۔ خود ہی کرنے لگے گا دل۔ ‘‘ حماد اُس کے سر پر سوار ہوا۔ حریم نے چہرہ گھوما کر حماد کو گھورا تھا۔ ’’دیکھ لینا دیکھ لینا میں منع تھوڑی کروں گا مگر ابھی بہت دیر ہورہی ہے تو بعد میں۔ ‘‘ ایک آنکھ دباتے ہوئے حماد نے بولا۔ حریم کا دل کیا کچا چبا جائے اُسے۔ ’’حماد! بس بہت ہوگیا بہت بولتے ہو تم...‘‘ ’’حریم جاؤ بیٹا میری بات مان لو اس کو تو میں دیکھ لوں گی۔ ‘‘ ’’جی خالہ میں آتی ہوں۔ ‘‘ کہتے ہوئے بغل سے نکلتی ہوئی چلی گئی۔ ’’حماد یہ کیا طریقہ ہے اتنی فضول باتیں کیوں کرتے ہو؟‘‘ شاہانہ نے حماد سے پوچھا۔ ’’اچھا اور جب وہ میرے اوپر تشدد کرتی ہے تب آپ کہاں ہوتی ہیں ! تب آپ کو کچھ نظر نہیں آتا؟ سیدھا سادہ ہوں اس لئےسب لوگ مجھے ہی ڈانٹتے ہیں۔ ‘‘ حماد نے پھر بیچارہ سا منہ بنایا۔ ’’ہاں اور کیا ساری شرافت تم پر ہی تو ختم ہوتی ہے۔ ‘‘ حماد نے مسکرا دیا۔ ’’اچھا میری بات سنو۔ جا رہے ہو تو حریم کو ایک اچھا سا سوٹ دلوا دینا اُس کی پسند کا۔ ‘‘ شاہانہ نے حماد سے کہا۔ ’’وہ کس خوشی میں بھئی! کس کے ولیمے میں جا رہی ہیں مہارانی؟‘‘ حماد ایک جھٹکے میں آگے آیا تھا۔ ’’کسی کے نہیں، بس جو کہہ رہی ہوں وہ کرو۔ ‘‘شاہانہ نے کہا تب تک حریم آگئی تھی۔ ’’چلئے مہارانی، ان کے نخرے اٹھا اٹھا کے ایک دن میں دنیا ہی سے اٹھ جاؤں گا۔ ‘‘ حماد کہتا ہوا باہر نکل گیا پھر حریم بھی خالہ کو اللہ حافظ کر کے اُس کے پیچھے ہی چل دی۔ 
 صبح کا وقت تھا سب کھانے کی میز پر تھے جب شاہانہ نے حریم سے کہا، ’’حریم بیٹا! آج ذرا جلدی آ جانا کچھ مہمان آ رہے ہیں۔ آج تو ذرا کام زیادہ ہوگا۔ ‘‘ ’’جی خالہ میں آ جاؤں گی۔ ‘‘ حریم نے تابعداری کی۔ ’’کون سے مہمان، کیسے مہمان، کس طرح کے؟‘‘ حماد نے ماتھے پر شکن لاتے ہوئے پوچھا۔ ’’کس طرح کے کیا مطلب؟ مہمان! جیسے ہوتے ہیں ویسے ہی۔ ‘‘ شاہانہ نے جواب دیا۔ 
  ’’مطلب میں سمجھا نہیں۔ ‘‘ حماد کے ماتھے پر مزید شکن ابھری۔ ’’حریم کے رشتے آرہے ہیں۔ ‘‘ شاہانہ نے جواب دیا۔ ’’کیا مطلب ہے اس بات کا؟‘‘ حماد اب الجھ رہا تھا۔ ’’مَیں تمہیں سمجھانے بیٹھی تو آج کا دن نکل جائے گا، تو یہ کہ حریم کو دیکھنے آرہے ہیں کچھ لوگ۔ ‘‘ شاہانہ نے جواب دیا۔ ’’کیا ؟ ہم تین لوگ دیکھ رہے ہیں کیا یہ کافی نہیں ہے کسی اور کو دیکھنے کی کیا ضرورت ؟‘‘ حماد کی تیوری چڑھی۔ ’’حماد ہر بات میں مذاق نہیں اچھا ہوتا۔ ‘‘ اس بار شفیق صاحب نے ٹوکا تھا لیکن ابو...شفیق صاحب نے منہ پہ انگلی رکھتے ہوئے اُسکی بات کاٹی اور وہ خاموش ہو گیا۔ 
 شام کو مہمان آ چکے تھے۔ مہمان خانے میں سب اکٹھا تھے۔ حریم بھی انہی کے ساتھ بیٹھی تھی۔ سب باتیں کر رہے تھے۔ اتنے میں حماد برق رفتاری سے اندریہ کہتا ہوا داخل ہوا، ’’حریم کہاں ہو یار! کب سے ڈھونڈھ رہا ہوں، ایک کپ کافی بنا دو۔ ‘‘ اور بے تکلفی سےاُسکے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ حریم اُس کو گھورے جا رہی تھی۔ ’’اور یہ کیا! تم نے آج ہی اسے پہن لیا، اس لئے لے کر دیا تھا تمہیں یہ کہ آج ہی پہن ڈالو؟‘‘ حماد روانی میں  بول گیا۔ حریم کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ اُسے اب بھی ویسے ہی گھور رہی تھی اور باقی لوگ بھی سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ حماد کو کچھ عجیب محسوس ہوا تو اُس نے آہستہ آہستہ نظریں گھما کر سامنے دیکھا تو تھوک گھونٹ لیا۔ سامنے صوفے پر تین عورتیں اور سائڈ میں سنگل صوفے پر ایک بزرگ بیٹھے تھے جو حماد کو اندر داخل ہوتے ہوئے بالکل بھی نہیں دکھائی دئیے یا پھر انہیں کو دیکھ کر ہی وہ اندر داخل ہوا تھا۔ یہ وہی جانتا تھا۔ تب تک وہاں شاہانہ آ گئیں جو کسی کام سے گئی تھیں۔ حماد کو وہاں دیکھ کر کافی حیران ہوئی تھیں۔ ’’السلام وعلیکم کیسے ہیں آپ لوگ ؟ میں بہت جلدی میں تھا اس لئے نہیں دیکھا، میں حریم کا كزن ہوں اور یہ بیٹا ہے میرا حماد.. ابھی ابھی آفس سے آیا ہے۔ ‘‘ شاہانہ نے اُسکی بات کاٹی۔ ’’ تم جاؤ فریش ہو تب تک میں آتی ہوں۔ ‘‘شاہانہ نے حماد کو وہاں سے جانے کیلئے کہا۔ ’’ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔ آپ لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ‘‘
  اُسنے اُن بزرگ سے ہاتھ ملایا اور ذرا ٹھہر کے حریم کو دیکھا اور یہ نظر حریم پر تب تک ٹکی رہی جب تک اس کمرے میں موجود ایک ایک کی نظر اس پر نہ پڑ گئی پھر مسکراتا ہوا نکل گیا۔ جاتے ہوئے شفیق صاحب سے ٹکرایا، وہ بھی اسی کمرے میں جا رہے تھے۔ دونوں میں کسی اشارے کا تبادلہ ہوا اور گزر گئے دونوں۔ 
 رات کو سب بڑی خاموشی سے کھانے کی میز پر آئے اور اسی خاموشی کے ساتھ چلے گئے۔ کسی نے کسی سے بات نہیں کی۔ یقیناً بہت صدمہ ہوا تھا رشتہ نہ ہونے کا، خاص کر کے گھر کی خواتین کو۔ سب کی بولتی بند ہو گئی تھی۔ ایسا بھی کیا تھا اُس مخلوق میں ؟ کون سے ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے؟آخری بندہ تو نہیں تھا اس زمین کا۔ حماد سوچتا رہا۔ پھر اگلے دن صبح بھی یہی ہو رہا تھا۔ ’’کیا ہو گیا ہے بھئی سب کو.. سب نے خاموشی کیوں اختیار کر لی ہے؟‘‘حماد نے خاموشی توڑی۔ ’’کچھ نہیں ہوا چپ ہو کر ناشتہ کرو۔ ‘‘ شفیق صاحب نے کہا۔ ’’مگر ہمارے گھر کی خواتین کو کیا ہوا ہے؟ یہ کیوں نہیں بول رہی ہیں ؟ حماد !‘‘ شفیق صاحب نے پھر اسے چپ کروایا۔ ’’امی ! مجھے وہ پلیٹ پاس کر دیجئے۔ ‘‘ شاہانہ نے بڑی خاموشی سے پلیٹ پاس کر دی۔ ’’امی! آج آپ مجھے ڈانٹیں  گی نہیں ؟اب دیکھئے روز میں آپکی ڈانٹ کھا کے جاتا ہوں ناشتے کے ساتھ اور روز صحیح سلامت پہنچ جاتا ہوں آفس مگر آج آپ کچھ کہہ ہی نہیں ر ہی ہیں تو اگر راستے میں خدا نخواستہ کوئی حادثہ پیش آیا..‘‘ 
 ’’حماد! میرا دماغ خراب مت کرو.. کیا بیکار کی باتیں کر رہے ہو؟ دماغ درست ہے تمہارا یا میں کر دوں ؟‘‘ شاہانہ نے بات کاٹی تھی۔ ’’آہ مل گئی خوراک اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ‘‘ حماد نے ہوا میں دونوں ہاتھ پھیلائے تھے۔ ’’حماد کسی دن برا حشر کروں  گی تمہارا۔ ‘‘ شاہانہ غصے سے کہہ رہی تھیں۔ 
 ’’ جی جی شوق سے، کہئے تو کسی دن چھٹی کر لوں آفس سے..۔ ‘‘ شاہانہ کے آگے جھکتے ہوئے بہت پیار سے کہا حماد نے۔ ’’نکل جاؤ ! اسی وقت نکل جاؤ گھر سے۔ ‘‘ شاہانہ نے باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’جا رہا ہوں جا رہا ہوں، چلئے محترمہ۔ ‘‘ حریم سے کہتا ہوا باہر نکل گیا۔ 
 ’’ہمم تو کیا ہوا کل ؟‘‘ حماد نے حریم سے پوچھا جب وہ دونوں کار میں تھے۔ ’’ کیا ہونا تھا ؟‘‘ حریم نے سوالیہ نظروں سے اُلٹا سوال کیا۔ ’’ارے کل مہمان آئے تھے نا، وہ کیا کہہ کر گئے ہیں ؟‘‘
  ’’کچھ نہیں کہنا کیا تھا؟‘‘ حریم نے کہا۔ 
 ’’کچھ تو کہا ہوگا۔ ‘‘ حماد کو جاننے کی بے تابی تھی۔ ’’کس بارے میں مگر ؟‘‘ حریم اب الجھ رہی تھی۔ ’’سب کچھ خود کا کیا دھرا ہے اور کیسے جواب طلب کر رہا ہے۔ ارے تم ان کو پسند تو آ گئی نا یا...!‘‘ ’’حماد کے بچے زیادہ عقلمند بننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سب جانتی ہوں میں۔ بہت مبارکباد آپکی وجہ سے منع کردیا ہے اُن لوگوں نے۔ ‘‘ حریم نے  غصے سے کہا۔ ’’اچھا ایسا ہے، مجھے کل سے بہت فکر ہو رہی تھی اُن لوگوں کی کہ کیسے وہ تمہیں جھیلیں گے؟اللہ نے بچالیا اُن لوگوں کو۔ ‘‘ حماد اب مسکرا رہا تھا۔ ’’مجھے یہ بتاؤ تم کل جلدی کیسے ا ٓگئے تھے؟‘‘ اب حریم کی باری تھی سوال کرنے کی۔ ’’تمہیں شاید یاد نہیں ہے۔ کل امی نے ہی کہا تھا جلدی آنے کو۔ ‘‘حماد اُس کو یاد دلا رہا تھا۔ ’’ہاں خالہ نے مجھ سے کہا تھا نہ کہ تم سے۔ ‘‘ ’’اچھا ایسا ہے! مجھے لگا کہ مجھ سے بھی کہا تھا۔ ‘‘’’تمہیں افسوس ہے کیا اس بات کا ؟‘‘ حماد نے اُسے پوچھا۔ ’’زیادہ تو نہیں مگر خالہ کوبہت ہے اور اسلئےمجھے بھی ہے۔ ‘‘حریم نے گاڑی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔ 
  ’’کیا اتنا اچھا تھا جو اتنا افسوس ہو رہا ہے؟‘‘ حماد کو اچھا نہیں لگا شاید سن کے۔ ’’ہاں تھا تو ... اچھا۔ ‘‘ حریم اب بھی باہر ہی دیکھ رہی تھی۔ ’’کیا مجھ سے بھی اچھا تھا ؟‘‘ حماد اب اُسے گھور رہا تھا۔ ’’میں ایک دفعہ مل چکی ہوں اُ س سے وہ واقعی اچھا تھا حماد!۔ ‘‘ اُس نے حماد کو دیکھتے ہوئے کہا۔ حریم نے اُسکی بات نہیں سنی تھی۔ ’’یہ میں نے کیا کر دیا ؟‘‘ حماد نے دھیمی آواز میں کہا۔ 
 ’’ کیا کیا تم نے؟ ‘‘حریم نے فوراً پوچھا۔ 
  ’’نہیں کچھ نہیں۔ ‘‘ اُس نے سنجیدگی سےکہا۔ ’’ کیا تم واقعی ہمیں چھوڑ کر جانا چاہتی ہو ؟‘‘ حماد نے اُسے جواب مانگا۔ ’’نہیں کس نے کہا تم سے؟ حریم اُسے نہیں دیکھ رہی تھی۔ ‘‘’’تم نے ہی تو کہا ہے کہ بہت اچھا تھا اور پتہ نہیں کیا کیا افسوس میں ڈوبی جا رہی ہو؟‘‘ حماد نے منہ بگاڑ کر کہا۔ ’’ہاں تھا تو کہہ رہی ہوں اچھا۔ ‘‘’’ پھر پھر تم شروع ہو رہی ہو۔ ‘‘
  حماد کو اب الجھن ہو رہی تھی۔ ۷۵؍ دفعہ حریم اُسے اچھا کہہ چکی تھی۔ ’’ میں کیا کروں حماد؟خالہ کو اتنا برا لگا ہے اُنکے انکار سے کہ..‘‘ ’’تم خالہ کو چھوڑو! تم صرف اپنی بتاؤ! تمہیں اس گھر میں رہنا ہے یا جانا ہے؟‘‘ حماد نے دو ٹوک سوال کیا۔ حریم اب اُسے دیکھ رہی تھی۔ ’’کیا گھور رہی ہو کچھ پوچھا ہے۔ ‘‘ حریم اب بھی ویسے ہی دیکھے جا رہی تھی۔ ’’جانتا ہوں میں تمہیں بہت ہینڈسم لگتا ہوں پر تم کسی سے کہتی نہیں۔ ‘‘ حریم اب بھی بت بنی اُسے دیکھ رہی تھی۔ ’’حریم نہ دیکھو یار نظر لگ جائیگی مجھے حریم !‘‘ حریم کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ 
  ’’میں نہیں جانا چاہتی حماد، مجھے کہیں بھی نہیں جانا ہے۔ مجھے خالہ کے پاس رہنا ہے۔ میں نے امی ابو کو کھو دیا، میں خالہ خالو سے دور نہیں جانا چاہتی، اُنہوں نے بہت محبت دی ہے مجھے۔ میں اُن کے بغیر کیسے رہوں گی؟ مجھے روک لو۔ ‘‘ حریم نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ ’’ کیا؟‘‘ حماد نے حیرت سے کہا اور اُسے بغیرپلک جھپکائے دیکھتا رہا۔ حریم نے اُسے دیکھا۔ ’’وہ تو میں روک لونگا لیکن تم کو ہر شخص کی محبت یاد ہے ہر شخص کا نام بھی لے لیا اور مجھ سے کہہ رہی ہو کہ میں تمہیں روک لوں۔ جبکہ تمہاری فہرست میں میرا کہیں نام تک نہیں ہے۔ ‘‘ حماد کو برا لگ رہا تھا۔ ’’میں تمہیں کیسے بھول سکتی ہوں حماد؟‘‘حریم سسکتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ’’نہیں کوئی بات نہیں تم انہی لوگوں سے کہو کہ تمہیں روک لیں۔ ‘‘ حماد خفا ہو رہا تھا۔ ’’کن سے‘‘ ؟ ’’انہیں لوگوں سے جنہوں نے تمہیں محبت دی ہے یا جن کے بغیر تم رہ نہیں سکتیں۔ ‘‘ اب حماد اُسے دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔ ’’کہہ رہی ہوں مگر کوئی سنے بھی تو۔ ‘‘ حریم نے ہاتھ باندھے اور اب وہ سامنے دیکھ رہی تھی۔ ’’کیا کہا تم نے ذرا پھر سے کہنا۔ ‘‘ حماد نے شاید سنا نہیں یا دوبارہ سننا چاہ رہا تھا۔ ’’یہی کہ تمہیں کبھی نہیں بھول سکتی حماد! کبھی بھی نہیں۔ ‘‘’’اُس کے بعد کیا کہا تم نے ؟‘‘ حماد کو تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ ’’ تمہاری وجہ سے تو!‘‘ ’’نہیں نہیں اُس کے بھی بعد۔ ‘‘’’ تمہارا سر.. تنگ کر دیا ہے مجھے۔ ‘‘حریم نے کہا۔ حریم نے حماد کا چہرہ دیکھا، اُسے اب مزہ آ رہا تھا۔ ’’تم مجھے بھول نہیں سکتی۔ کچھ کہہ رہی تھی تم؟‘‘ ’’ہاں ‘‘ اُس نے پھر حماد کا چہرہ دیکھا۔ ’’آگے بولوگی کچھ۔ ‘‘حماد پریشان ہو رہا تھا۔ ’’ ہاں میں یہ کہہ رہی تھی کہ! میں تمہیں کیسے بھول سکتی ہوں ؟ تمہاری وجہ سے کل اچھا بھلا رشتہ ہوتے ہوتے رہ گیا، بہت افسوس ہوا خالہ کو بھی اور مجھے بھی۔ ‘‘حریم نے بہت سنجیدگی سے کہا اور اس کا چہرہ تکنے لگی۔ حماد کا چہرہ دیکھنے لائق تھا۔ ’’ اُترو فوراً اترو میری گاڑی سے۔ ‘‘حماد نےاُسے اُسکا بیگ دیتے ہوئے کہا۔ حماد آگ بگولہ ہوگیا تھا اُسکی بات سے۔ ’’بات تو سنو!‘‘ ’’کچھ نہیں سننا ہے.. اترو جلدی۔ ‘‘ ’’کیا میں یہاں کیسے؟‘‘ حریم نے دیکھا تو کار اُسکی یونیورسٹی کے سامنے ہی رکی تھی۔ ’’ہم یہاں کب آئے ؟‘‘ حریم نے حیرت سے پوچھا۔ ’’ جب تم نے کہا کہ تم مجھے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔ جب تم نے کہا کہ میرے بغیر کیسے رہوگی؟جب تم نے کہا کہ تم مجھے کھونا نہیں چاہتی۔ ‘‘ حماد میں  چلاتے ہوئے کہا۔

جب تب تک حریم گاڑی سے اتر کر گیٹ تک پہنچ گئی تھی۔ اُس نے مڑ کر دیکھا حماد اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ دونوں نے مسکراہٹ کا تبادلہ کیا اور اپنی اپنی راہ لے لی۔ 
 حریم کوئی فلم دیکھ رہی تھی جب حماد اندر داخل ہوا، ’’جاؤ جاکر میرا کمرہ ٹھیک کرو بہت پھیلا ہوا ہے۔ ‘‘ کہتے ہوئے وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ ایک ایک کر کے دانہ منہ میں ڈال رہا تھا۔ حریم نے اُس کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ وہ بنا پلک جھپکے اسکرین دیکھ رہی تھی۔ ذرا دیر اُس کو گھورتا رہا پھر ریموٹ ہاتھ سے چھین کر اسکرین بند کر دی۔ 
 ’’یہ کیا بدتمیزی ہے حماد۔ ریموٹ واپس کرو۔ ‘‘ حریم جھنجھلائی تھی۔ 
 ’’میں نے کیا کہا ابھی تم سے؟‘‘ حماد نے پوچھا۔ 
 ’’مجھے نہیں پتا۔ ریموٹ واپس کرو۔ ‘‘ حریم نے ریموٹ واپس لے کر اسکرین آن کر دی۔ 
 ’’تم نے اگر نہ ٹھیک کیا تو!‘‘
 ’’تو کیا کرو گے تم؟ مَیں نہیں کروں گی۔ میں نے نہیں پھیلایا ہے۔ تم خود ٹھیک کیا کرو۔ اپنے ہاتھوں پیروں کو بھی زحمت دیا کرو۔ ‘‘ وہ اسکرین دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ 
 ’’کیا ایسا دیکھ رہی ہو تم؟‘‘ حماد نے پوچھا۔ 
 ’’کچھ نہیں تم جاؤ۔ مجھے دیکھنے دو۔ ‘‘ حریم نے اسکرین پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔ 
 ’’کیا ان لنگوروں کو دیکھا کرتی ہو فضول!‘‘ حماد نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ 
 ’’لنگور ہیں پھر بھی تم سے بہتر ہیں ہر لہٰذ سے۔ ‘‘ حریم اب بھی اسکرین ہی دیکھ رہی تھی۔ حماد نے پھر سے ریموٹ چھیننے کی کوشش کی مگر لے نہیں سکا تو کشن اٹھا کے اُس کے سر پر دے مارا۔ حریم نے وہی کشن اٹھا کر واپس اُس کے سر پر دے مارا۔ حماد اُسی وقت نیچے جھک گیا اور وہ کشن دروازے سے داخل ہو رہی شاہانہ کو جا لگا۔ شاہانہ سر پکڑے وہیں صوفے پر بیٹھ گئیں۔ 
 ’’خالہ!‘‘ حریم چیخیں، ’’مجھے معاف کر دیجئے خالہ.... یہ سب اس حماد کی وجہ سے ہوا ہے۔ ‘‘ حریم فوراً اُن کے پاس نیچے بیٹھ گئی اور اُس نے رونا شروع کر دیا تھا۔ 
 ’’ارے کوئی بات نہیں بیٹا! میں جانتی ہوں یہ سب اسی نے کیا ہے۔ تمہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اٹھو فوراً اٹھو۔ ‘‘ شاہانہ اُسے چپ کروا رہی تھیں۔ 
 ’’یہ کام تم نے اچھا کیا کہ رونا شروع کر دیا۔ یہی صحیح وقت ہے۔ روتی رہو۔ آنسو رکنے نہ پائے۔ ‘‘ حریم نے حماد کو کہتے سنا۔ وہ سسک رہی تھی۔ ’’امی مَیں نے کچھ نہیں کیا۔ جھوٹ بول رہی ہے یہ۔ مَیں نے بس اسے کمرہ صاف کرنے کے لئے کہا تھا بس۔ ‘‘ حماد نے صفائی دی۔ 
 ’’کیوں کرے گی وہ؟ تم خود کیوں نہیں کرسکتے؟‘‘ شاہانہ نے کہا۔ 
 ’’نہیں ! مَیں نہیں کر سکتا۔ میرا کام نہیں ہے صاف صفائی۔ کیا میں اچھا لگوں گا یہ سب کرتے ہوئے؟ مگر حریم کی اور بات ہے۔ اور ویسے اتنا وبال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمیشہ یہ ہی کرتی ہے تو آج کیا ہوگیا۔ اسے کہئے صفائی کرنے کے لئے۔ ‘‘ حماد اب صوفے پر ٹک گیا تھا۔ 
 ’’وہ نہیں کرے گی.... بس جاؤ جس سے کروانا ہے کروا لو۔ ‘‘ شاہانہ غصّہ کرنے لگیں۔ 
 ’’مَیں اسی سے کرواؤں گا اور ہمیشہ کرواؤں گا.... یہی نہیں سب کچھ۔ ‘‘ حماد نے صوفے پر ہی بیٹھے بیٹھے سب کہہ ڈالا۔ شاہانہ اُسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ ’’اور جب یہ نہیں ہوگی تب کیا کروگے تم؟‘‘ شاہانہ نے سوال کیا۔ 
 ’’سارا گھر چھان لیا اور تم لوگ یہاں موجود ہو۔ ‘‘ شفیق صاحب کہتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ حریم ابھی بھی سسکی لے رہی تھی۔ 
 ’’آئیے بیٹھئے عدالت لگی ہے آج ہمارے گھر میں۔ پیشی چل رہی ہے میری بلکہ ہماری۔ ‘‘ حماد نے پھر حریم کو دیکھا۔ 
 شفیق صاحب نے بھی وہیں صوفے کی پشت پر ٹیک لگا لی۔ دونوں باپ بیٹے میں کسی اشارے کا تبادلہ ہوا۔ حماد واپس سیدھا ہوا۔ ’’ہاں میں یہ کہہ رہا تھا کہ آپ جو کہہ رہی ہیں وہ نہیں ہوگا۔ ‘‘ حماد نے پھر وہیں سے شروع کیا۔ ’’کیوں ؟‘‘ شاہانہ کے ماتھے پر شکن ابھری۔ 
 ’’پوچھئے اس سے؟ اسی نے کہا ہے مجھ سے۔ میری منت سماجت کر رہی تھی۔ کہہ رہی تھی کہ مجھے روک لو، مجھے نہیں جانا کہیں، اور پتہ نہیں کیا کیا محبت کے قصے سنا! سسس....‘‘ حماد کو ایک جھٹکے میں پاؤں پر تکلیف محسوس ہوئی اور اس کی ’’سس‘‘ نکل گئی۔ دیکھا تو حریم نے اُس کے پاؤں میں ناخن گڑا دئیے تھے۔ حماد نے حریم کے سر پر چپت لگائی، ’’تم بھی کچھ بولوگی؟‘‘
 ’’کیا کر رہے ہو تم؟ حریم کیا کہہ رہا ہے یہ؟‘‘ شاہانہ نے حریم سے پوچھا۔ حریم نے چہرہ اٹھا کر انہیں دیکھا۔ چہرہ صاف کرتے ہوئے کھڑی ہوگئی۔ ’’مجھے کچھ نہیں پتہ خالہ! مَیں بس آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتی.... مَیں یہیں رہنا چاہتی ہوں ہمیشہ۔ ‘‘ حریم باہر نکل گئی۔ 
 شاہانہ نے باری باری بیٹے اور شوہر کو دیکھا، ’’یہ بات بس مجھے ہی نہیں پتہ تھی۔ کیوں ؟‘‘ شاہانہ نے سوال کیا۔ 
 ’’کیونکہ بس آپ ہی ہیں جو اُسے یہاں سے دور کرنا چاہتی ہیں۔ ‘‘ شفیق صاحب نے کہا۔ شاہانہ نے سر پیٹ لیا۔ 
 ’’تو کیا فیصلہ کیا آپ نے جج صاحبہ؟‘‘
 ’’وہی جو حریم نے کہا ابھی۔ کہیں نہیں جا رہی وہ۔ کہیں نہیں جانے دوں گی میں اُسے۔ ‘‘
 ایک بار پھر سے حماد اور شفیق صاحب نے کسی اشارے کا تبادلہ کیا تھا۔ ’’یہ آپ لوگ کیا اشارے کرتے رہتے ہیں ہر وقت؟‘‘ شاہانہ کو تجسس ہوا۔ 
 ’’کچھ نہیں ! آپ کو سمجھ نہیں آئے گا۔ ‘‘ شفیق صاحب نے پھر کوئی اشارہ کیا۔ شاہانہ اٹھیں اور چل دیں وہاں سے کہتے ہوئے کہ، ’’ان باپ بیٹے کا تو رومانس ہی چلتا رہتا ہے ہمیشہ۔ ‘‘ اُن دونوں نے زور کا قہقہہ لگایا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK