Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۳)

Updated: May 06, 2024, 12:51 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

فراقؔ کی شاعری کے بارے میں عمومی حیثیت میں کہا جاسکتا ہے کہ اس میں صوری اور معنوی دونوں اعتبار سے مکمل ہندوستان دیکھا جاسکتا ہے چونکہ تصوف اور بھکتی ہندوستان اور ہندوستانیت دونوں کی روح ہے اس لئے یہ دونوں بھی نظر آتے ہیں۔

Raghupati Sahay Faraq Gorakhpuri. Photo: INN.
رگھوپتی سہائے عرف فراق گورکھپوری۔ تصویر: آئی این این۔

اردو میں عارفانہ اور متصوفانہ شاعری کے حوالے سے جو نام لئے جاتے ہیں ان میں کچھ تو خانقاہ نشین یا پیر طریقت ہیں جیسے خواجہ میر درد، مرزا مظہر جانجاناں، امیر مینائی وغیرہ اور کچھ خانقاہ نشین تو نہیں مگر کسی خانقاہ نشین کے ارادتمند یا صاحب سلسلہ ہیں جیسے اصغر ؔ، حسرت ؔ، جگرؔ، سیماب ؔ وغیرہ اور ان شاعروں کے ناموں کی فہرست تو بہت طویل ہے جو ’برائے شعر گفتن ‘ تصوف کا رنگ اور طرز اختیار کرتے رہے ہیں۔ فراق، فیض، جاں نثاراخترکے نام اس ضمن میں لئے جاتے ہیں نہ لیے جانے چاہئیں کہ عملی سطح پر وہ تصوف ہی نہیں مذہب سے بھی بہت دور تھے۔ مذہبی موضوعات پر اظہار خیال سے بھی گریز کرتے تھے۔ فراق نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ میرے گھر میں صبح سے شام تک ’رام چرتر مانس‘ یعنی رامائن کا پاٹھ ہوا کرتا تھا اور میں اس پاٹھ کو سنتا بھی تھا ، اس کے باوجود میں رام بھکت نہیں تلسی بھکت بن گیا۔ فیض اور جاں نثار کے بھی ایسے کئی بیانات ہیں جن کی روشنی میں ان کو لامذہب نہیں تو مذہب سے لاتعلق ضرور کہا جاسکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تینوں کی شاعری میں ایسے اشعار مل جاتے ہیں جنہیں تصوف کے پس منظر کے بغیر سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ مثلاً 
کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھتا ہے 
کہ یہ بلابھی ترے عاشقوں کے سر آئی (فراقؔ)
جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں 
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں (فیض)
صبح کی آس کسی لمحے جو گھٹ جاتی ہے
زندگی سہم کے خوابوں سے لپٹ جاتی ہے(جاں نثار اختر)
شاید اس لئے کہ جبلت ان کو اس کے موجود ہونے کا احساس دلاتی رہی ہے جن کے نظریہ اور رویے میں اس کے نہ ہونے کے ہزار دلائل دئیے گئے تھے اور وہ فکرو ماحول بھی جو انہیں وراثت میں ملا تھا ہندوستان کے ذرہ ذرہ سے سنگیت پھوٹنے کا احساس دلاتا ہے۔ 
فراق کے بارے میں عمومی حیثیت میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری میں صوری اور معنوی دونوں اعتبار سے مکمل ہندوستان دیکھا جاسکتا ہے اور چونکہ تصوف اور بھکتی ہندوستان اور ہندوستانیت دونوں کی روح ہے اس لئے دونوں کیسے نہ نظر آتے ؟سنسکرت شعریات سے پھوٹنے والے دھاروں سے اپنی فکر دھار کو دینے والے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ مذہب کے باطنی پہلو سے ناواقف رہا ہوگا اور پھر اس کی فکر میں وہ دھارےبھی شامل تھے جو فارسی اور اردو کی تہذیبی اور شعری روایت سے پھوٹے تھے۔ فراق کے اوپر نقل کئے ہوئے شعر میں بھی میر تقی میر کے اس شعر کی بازگشت ہے :
عشق میر ایک بھاری پتھر ہے 
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
پہلی قرأت میں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ میر صاحب خود سپردگی یا عشق سے دستبردار ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔ یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ’ عشق‘ غیر مرئی ہے اور’ پتھر‘ مرئی، دونوں کا ایک ساتھ کیسے استعمال ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عشق اس اضطراب کا احساس کیسے دلاسکتا ہے جو بیان سے باہر ہے اور پتھر تو صورتاً بھی سخت ہے اور حقیقتاً بھی مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ شاعری میں عشق ایک جذبہ ہے جو غم و آزمائش سے نبردآزما ہونے کے لئے حوصلہ مندی کی پوری دنیا آباد کرتا ہے۔ فراق نے عشق کو پہلے مصرعے میں نشاط اور نشاط کو’بار‘ کہا ہے جبکہ دوسرے مصرعے میں ’بلا‘۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عشق تخلیقی قوت یا جو بھی ہے اس کا تحمل کسی نے کیا ہے تو وہ تیرے عشاق ہیں۔ کس کے عشاق نے یہ تحمل کیا ہے ؟اس کی وضاحت تو نہیں ہے اور فراق اگرچہ عشق کے جسمانی تعلق اور جنسی تلذذ کے قائل ہیں مگر ہندوستانیت کے حوالے سے عشق کے ایسے تصور کے بھی قائل ہیں جو خالص تصوراتی اور نہایت پاکیزہ ہے۔ اس لئے جواب یہی سامنے آتا ہے کہ فراق کا عشق کسی ایک شخص سے ہو، کئی اشخاص سے ہو یا گرفت میں نہ آنے والی کسی قوت سے ہو مگر ہے تو صحیح۔ 
ان کے محبوب و معشوق کا گہرا تعلق ہندوستانی ذہن و تہذیب سے ہے جو مذہب کی کارفرمائی سے خالی نہیں ہے مگر انہوں نے دوسرے مذاہب اور روایات سے بھی استفادہ کیا ہے اور پھر ان کی افتاد طبع بھی معشوق کو جبلت کے تقاضے کے طور پر پیش کرتی رہی ہے اسی لئے انہوں نے کہا ہے: 
کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں   
عشق توفیق ہے گناہ نہیں 
یہاں بات ہو رہی ہے فکر و احساس کی وسعت کی۔ فراق کو صوفی ثابت کرنا مقصودنہیں ۔ ان کا تصور معبودبھی جس کو وہ محبوب کہتے رہے ہیں ، کہیں ارضی ہے کہیں ماورائی مگر ہر جگہ اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ یہی احساس فراق کے روحانی شخص ہونے کی دلیل ہے۔ اسی حیثیت سے انہوں نے کہا ہے 
کہاں ہرایک سے بار نشاط اٹھتا ہے
کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی 
ان کے لئے معشوق ہو یا معبود ’بار ‘ تو ہے مگر نشاط انگیز، اس لئے اس کو جاننے، ماننے والے ہی اس نشاط انگیز بار کو اٹھانے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ اس بار کو ایک طرف نشاط انگیز اور دوسری طرف ’بار ‘ کہنا فراق کی افتاد طبع کا نتیجہ ہے جو ’’ہمیں سے محبت ہمیں سے لڑائی ‘‘ کی روش کی حامل رہی ہے۔ ہندوستانیت میں بھی مذہبی فلسفے کی کاٹ کبھی مذہبی فلسفے اور کبھی فلسفیانہ مذہب سے کی جاتی رہی ہے۔ فراق کی شاعری کو اس زاویے سے پڑھیے تو اس میں جسمانیت اور ماورائیت کی حدیں مٹتی ہوئی نظر آتی ہیں بلکہ ازل اور ابدکی دوریاں ان کی ذات میں سمٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ 
نہ ازل ہے کچھ نہ ابد ہے کچھ یہی موت ہے یہی زندگی 
جسے وقت کہتے ہیں اہل دل وہ فنا بھی ہے وہ بقابھی ہے
کیا فنا اور بقا تصوف کے موضوعات نہیں ہیں ؟ اگر ہیں اور یقیناً ہیں تو فراق کو اس فہرست سے باہر کیسے رکھا جاسکتا ہے ؟ہاں فنا اور بقا کے ان کے تصور سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK