ہاسٹلر ہونا کوئی معمولی کارنامہ نہیں.... یہ اسٹیٹس، ڈگری، قربانی، برداشت اور صبر کا ایک ایسا مشترکہ پیکیج ہے جسے قبول کرنے کے بعد انسان کی اصل ٹریننگ شروع ہوتی ہے۔
ہاسٹلر ہونا کوئی معمولی کارنامہ نہیں.... یہ اسٹیٹس، ڈگری، قربانی، برداشت اور صبر کا ایک ایسا مشترکہ پیکیج ہے جسے قبول کرنے کے بعد انسان کی اصل ٹریننگ شروع ہوتی ہے۔ ہاسٹل کی لڑکی کی پہلی شناخت بڑی معصوم ہوتی ہے:
گھر سے نکلتے وقت وہ آزاد پرندے کی طرح خوش و خرم نظر آتی ہے، مگر ہاسٹل کے دروازے پر پہنچتے ہی اس کا چہرہ بالکل اس پرندے سا ہوجاتا ہے جو بارش میں اپنے سارے پنکھ دھو بیٹھا ہو۔
٭ ٭ ٭
ہاسٹل زندگی انسان کو تین چیزوں کی قدر سکھاتی ہے:
فیملی کی قدر، پیسے کی قدر اور گھر کے کھانوں کی قدر۔
جو لڑکی میس کی دال اور سبزی کھا سکتی ہے، وہ پھر زندگی کی ہر مشکل کا سامنا بھی کرسکتی ہے۔ کیونکہ ہاسٹل کی دال تین چیزوں سے کبھی نہیں بدلتی: دن، موسم اور ذائقہ۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب گھر والوں کی وہی ڈانٹ بھی یاد آنے لگتی ہے جس میں چھپا ہوا پیار انسان ہمیشہ دیر سے سمجھتا ہے۔
٭ ٭ ٭
آزادی اچھی ہے، مگر امی کی کمی سب سے بڑی ہے۔
جو لڑکی گھر سے جاتے ہوئے نعرے لگاتی ہے:
’’مَیں بالکل ٹھیک رہ لوں گی!‘‘
وہی لڑکی رات کو میس کا کھانا دیکھ کر سوچتی ہے:
’’امی... ی... ی.... واپس آ جاؤ....‘‘
٭ ٭ ٭
ہاسٹل کی اکثریت چائے پینے والی لڑکیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں چائے پینا صرف عادت نہیں، تقریباً عبادت ہوتی ہے۔
دل ٹوٹے تو چائے، اسائنمنٹ لمبا ہو تو چائے، روم میٹ ناراض ہو تو چائے، اور امتحان قریب ہو تو چائے کے ساتھ آنسو بھی شامل ہوجاتے ہیں۔
٭ ٭ ٭
لڑکیوں کے ہاسٹل میں ہر کمرہ اپنے اندر ایک الگ کائنات رکھتا ہے.... ہر طرح کی لڑکی، ہر طرح کی عادت، ہر طرح کی دُنیا۔
فجر سے پہلے جاگنے والی لڑکیاں ایسی لگتی ہیں جیسے الارم گھڑیوں کا اگلا ماڈل ہوں۔ انسان کم، الارم کی آبا و اجداد زیادہ لگتی ہیں۔
٭ ٭ ٭
پانچ بجے نہ صرف اٹھتی ہیں بلکہ روشنی بھی آن کر دیتی ہیں اور پڑی رہنے والیوں کو کہتی ہیں:
’’کامیابی صبح اٹھنے والوں کے قدم چومتی ہے!‘‘
دوسری جانب وہ لڑکیاں بھی ملتی ہیں جن کے نزدیک صبح ایک سازشی تھیوری ہے.... ایسی چیز جسے دیکھا نہیں جاسکتا۔ وہ دوپہر کو اٹھ کر یہی کہتی ہیں کہ ضرور موسم ابر آلود ہوگا، ورنہ انہیں اتنی نیند کیوں آتی؟
٭ ٭ ٭
پھر آتی ہیں وہ دو رانیات....
نفاست پسند اور بکھراؤ پسند۔
ایک کا کمرہ Pinterest کی تصویر لگتا ہے، دوسری کا بے ترتیبی کا شاہکار۔
ایک کی الماری میں ہر چیز ترتیب، فاصلہ اور رنگ کے حساب سے ہوتی ہے، دوسری کی الماری کھولنے پر کپڑے یلغار کی صورت میں باہر نکلتے ہیں۔
جب یہ دونوں روم میٹ بن جائیں تو ہاسٹل کی اصل فلم شروع ہوتی ہے۔
٭ ٭ ٭
اس کے بعد چلئے ملتے ہیں ججمنٹ کی ملکہ سے.... وہ لڑکی جو ہر دوسرے لمحے کسی نہ کسی کی شخصیت، کھانوں، انداز، پڑھائی یا خاموشی پر مقدمہ چلا رہی ہوتی ہے۔ اس کے ذہن میں ہمیشہ ایک کورٹ روم کھلا ہوتا ہے، اور ہر چھوٹی بات پر وہ کسی نہ کسی کو ’’کیس نمبر 302‘‘ میں ڈال دیتی ہے۔
٭ ٭ ٭
اور پھر وہ لڑکی.... جو ہر بات پر ٹوکنے والی۔ اسے بے ترتیبی سے مسئلہ ہوتا ہے اور میگی کھانے کی ’’چپڑ چپڑ‘‘ سے سب سے زیادہ۔ اگر روم میٹ میگی کھائے تو ایسا لگتا ہے جیسے پورے کمرے میں ASMR شو ریکارڈ ہو رہا ہو۔ جواب میں ٹوکنے والی لڑکی کے صبر کا کنکشن فوراً ڈاؤن ہوجاتا ہے۔
٭ ٭ ٭
ہاسٹل کی زندگی یہی ہے....
کوئی ٹوکتا ہے،
کوئی چپڑ چپڑ کرتا ہے،
کوئی ججمنٹ جاری کرتا ہے،
کوئی فجر سے پہلے جاگتا ہے،
کوئی دوپہر سے پہلے سوتا ہی نہیں
کوئی ہر روز ’ہوم سِک نیس‘ کا رونا روتا رہتا۔
٭ ٭ ٭
مگر ہنسی، شور، تلخی، چائے، تھکن اور دال کے ذائقے کے بیچ ایک سچ چھپا ہے.... یہی وہ جگہ ہے جہاں لڑکیاں اپنی اصل طاقت پہچانتی ہیں۔
ہاسٹل کی لڑکیاں برداشت میں پی ایچ ڈی اور حالات سے لڑنے میں گولڈ میڈلسٹ ہوتی ہیں اس کے بعد تو سسرال نما اکھاڑے اور ساس کے طعنوں کو برداشت کرنے میں پروفیسر ہو جاتی ہیں
یہ ہاسٹل انہیں خود مختاری، برداشت، اعتماد، دوستوں کی اہمیت اور زندگی کی اصل قیمت سکھاتا ہے۔
٭ ٭ ٭
لڑکیوں کا ہاسٹل ایک الگ دنیا ہے....
ایک ایسی دنیا جو جاتے جاتے بھی دل میں رہ جاتی ہے، اور کبھی کبھی ’میس کی دال‘ بھی ساتھ چھوڑنے کا نام نہیں لیتی۔
(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہیں)