رات گہری ہوچکی تھی۔ چاند کی مدھم روشنی اسٹڈی روم کے اندر داخل ہو رہی تھی۔ ٹیبل پر رکھی کتابیں، ڈائری اور قلم اپنی موجودگی کا ہلکا سا شور مچا رہے تھے۔
رات گہری ہوچکی تھی۔ چاند کی مدھم روشنی اسٹڈی روم کے اندر داخل ہو رہی تھی۔ ٹیبل پر رکھی کتابیں، ڈائری اور قلم اپنی موجودگی کا ہلکا سا شور مچا رہے تھے۔ اسٹڈی ٹیبل کے پاس بیٹھی ارم اپنے خیالوں میں گم تھی۔ کچھ جنگیں انسان باہر نہیں، خود سے لڑتا ہے.... اور اُس جنگ میں جیتنے کی خواہش بھی ہوتی ہے، مگر ہار جانے کا ڈر بھی نہیں ہوتا۔ کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو اس زندانِ حیات سے رہائی چاہتے ہیں۔ وہ خاموش تھی، مگر اس خاموشی میں صدیوں کی کہانی چھپی تھی۔
کھڑکی کے باہر خزاں کی ہوا چل رہی تھی۔ درختوں کے زرد پتّے ہولے ہولے زمین پر اُتر رہے تھے، جیسے وقت خود اپنا بوجھ اتار رہا ہو۔ ارم نے ایک لمحے کے لئے آنکھیں بند کیں۔ اسے اپنا ماضی یاد آنے لگا....
کبھی وہ اپنے گھر کی اکلوتی چہیتی بیٹی تھی۔ چار بھائیوں کے بیچ وہ گھر کی رونق، والدین کی آنکھوں کا تارا تھی۔ ہر خواہش زبان پر آنے سے پہلے پوری ہو جاتی تھی۔ ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک محبت بھرا سایہ موجود ہوتا۔ مگر وہ وقت اب خواب بن چکا تھا۔ والد کی وفات کے بعد جیسے سب بدل گیا۔ گھر کی فضا، جو کبھی ہنسی اور دعاؤں سے گونجتی تھی، اب خاموشی سے بھری تھی۔ باپ کے جانے کے ساتھ ہی اُس چھت سے برکت بھی اُڑ گئی جس کے سائے تلے سب اکٹھے بیٹھا کرتے تھے۔ جائیداد کے مسئلے نے وہ دراڑ ڈال دی جو کبھی بھر نہ سکی۔ جو کل تک ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، آج ایک دوسرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ وہی بھائی، جو کبھی ارم کے لئے باپ کا سایہ بن جاتے تھے، اب اجنبی لگنے لگے تھے۔ لفظوں کے درمیان فاصلہ، اور چہروں کے بیچ سردی اُتر آئی تھی۔
ارم اکثر سوچتی، ’’کیا یہ وہی گھر ہے جہاں کبھی محبت سانس لیتی تھی؟ کیا چند گز زمین کی خاطر رشتے واقعی دم توڑ دیتے ہیں؟‘‘
کمرے کے ایک کونے میں رکھی والد کی تصویر پر اُس کی نگاہ جا ٹھہری۔ آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ وہ دھیرے سے بڑبڑائی، ’’ابّا.... آپ کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ کوئی اب کسی کا نہیں رہا۔‘‘
پھر جیسے کوئی درد اندر سے اُبلا، ’’کاش.... بیٹیوں کا بھی کوئی اپنا گھر ہوتا.... جہاں کا ہر در، ہر دیوار، صرف اُن کا اپنا ہوتا۔ کاش....‘‘
خزاں کی ہوا نے اس کے الفاظ کو چھو کر فضا میں بکھیر دیا، جیسے فطرت خود اس دکھ کی گواہی دے رہی ہو۔
وقت نے ارم کے حصے میں بہت سی تبدیلیاں لکھ دی تھیں.... چہرے پر مسکراہٹ باقی تھی، مگر آنکھوں میں خزاں اُتر آئی تھی۔ زندگی نے سکھایا تھا کہ کچھ زخم بھرنے کے لئے نہیں ہوتے، بس اُن کے ساتھ جینا سیکھنا پڑتا ہے۔ اسی دوران خزاں کی ہوا نے ڈائری کے چند ورق اُڑا دیئے۔ ارم نے ایک صفحہ پلٹا.... اُس پر پرانے دنوں کی تحریر اب بھی موجود تھی:
’’زندگی کو جتنا سمجھنے کی کوشش کرو، وہ اتنی ہی خاموشی سے بدل جاتی ہے۔‘‘
اُس نے قلم اُٹھایا اور نیچے لکھا، ’’شاید زندگی موسموں کی طرح ہی ہے.... کبھی بہار کی طرح مسکراتی ہے، کبھی خزاں کی طرح سب کچھ گرا کر نیا آغاز چاہتی ہے۔‘‘
وہ لمحہ ارم کے لئے کسی انکشاف سے کم نہ تھا۔ اسے لگا جیسے خزاں کی یہ ہوا اُس کے دل کے اندر کے بوجھ کو آہستہ آہستہ ہلکا کر رہی ہو۔ ہر زرد پتہ جو درخت سے جدا ہو کر زمین پر گرتا، اُسے یہی سبق دیتا کہ، ’’کچھ جدائیاں فنا نہیں، تجدیدِ حیات کی علامت ہوتی ہیں۔‘‘
اُس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ چاند اب بادلوں سے جھانک رہا تھا۔
اُس نے خود سے کہا، ’’شاید یہ خزاں کی رت مجھے یہ سکھانے آئی ہے کہ ہر زخم کا مطلب درد نہیں ہوتا.... کچھ زخم انسان کو بدلنے، نکھارنے، اور بہار کی راہ دکھانے کے لئے آتے ہیں۔‘‘
ہوا کے ایک نرم جھونکے نے اُس کے چہرے کو چھوا۔ اُس نے ڈائری بند کی، اور ایک طویل سانس لے کر مسکرا دی۔
زندگی پھر سے چلنے لگی تھی....
خزاں کے موسم میں بھی، اُس کے اندر ایک چھوٹی سی بہار جنم لے چکی تھی۔