• Wed, 24 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

افسانہ : خداوندانِ مکتب

Updated: December 24, 2025, 2:03 PM IST | Khansa Zaheer Bolanjkar | Mumbai

آج اسکول اور سیکنڈری کالج کا سالانہ جلسہ، تہذیبی و ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اسمبلی ہال مہمانوں، اساتذہ، طلبہ اور والدین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ طلبہ کو بھی مختلف ایکٹ اور پرفارمنس کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ مہمانِ خصوصی کے طور پر اسکول ہٰذا کے سابق پرنسپل سکندر فاروق سر کو مدعو کیا گیا تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این
خنساء ظہیر بولنجکر (بھیونڈی، تھانے)
اینکر نے سکندر فاروق سر کا نام پکارا اور ساتھ ہی کہا کہ، ’’ آپ آئیں اور مائک پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔‘‘
آج اسکول اور سیکنڈری کالج کا سالانہ جلسہ، تہذیبی و ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اسمبلی ہال مہمانوں، اساتذہ، طلبہ اور والدین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ طلبہ کو بھی مختلف ایکٹ اور پرفارمنس کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ مہمانِ خصوصی کے طور پر اسکول ہٰذا کے سابق پرنسپل سکندر فاروق سر کو مدعو کیا گیا تھا۔ تالیوں کی گونج میں ایک صاحب اگلی نشستوں سے اٹھ کر اسٹیج کی جانب بڑھتے نظر آئے۔ دراز قد، ستواں ناک، آنکھوں پر عینک لگائے، سادہ لباس، خاکی پتلون پر سفید شرٹ زیب تن کئے، سر پر فلیٹ ٹوپی پہنے وہ میانہ روی سے چلتے ہوئے اسٹیج پر تشریف لائے اور مائک سنبھالا:
السلام علیکم! امید ہے دن خیریت سے گزر رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو انعام یافتہ طلبہ کو دلی مبارکباد اور ان کے اساتذہ اور والدین کو بھی دلی مبارکباد۔ مَیں آج مختصراً آپ سے مخاطب ہونا چاہتا تھا لیکن اب مجھے لگ رہا ہے کہ اگر مَیں چپ رہا تو معاشرے کے نقصان کرنے میں میرا بھی شمار ہوگا۔ سالانہ جلسے میں اکثر جو ڈرامے کئے جائیں، جو اداکاریاں کی جائیں، جو باتیں کی جائیں وہ عام طور پر سال بھر یاد رہتی ہیں۔ اس لئے آج میں اپنی باتوں کو آپ تک پہنچانے کے لئے اس اسٹیج کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تو مَیں تمام طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنا چاہوں گا جنہوں نے اسٹیج پر آکر پرفارم کیا۔ جنہوں نے غزلیں، نظمیں وغیرہ پڑھیں حالانکہ وہ چند تھیں۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک تہذیبی و ثقافتی پروگرام بھی ہے جس میں ہندوستان کے مختلف کلچر کو دکھانے کے لئے اسٹیج پر ان کا مخصوص ڈانس پیش کیا گیا تھا۔ ہر ایک ڈرامے اور نظم کے بعد مجھے کلچر کے نام پر صرف ڈانس دیکھنے کو ملا ہے بس کسی کو کولی ناچ، کسی کو مراٹھی کسی کو شمالی ناچ نام دیا گیا تھا۔ تو مَیں پوچھنا چاہتا ہوں اساتذہ سے، جنہوں نے ان طلبہ کو مہینوں مشق کروایا ہے، کیا آپ کے پاس مختلف علاقوں، ریاستوں اور ملکوں کی تہذیب دکھانے کے لئے صرف ڈانس کا متبادل موجود تھا؟ آپ کسی اور طریقے سے کوئی کلچر کو بتا ہی نہیں سکتے؟ اور یہ ناچ، تعلیم کے حصول کے لئے کتنا ضروری ہے؟ کیونکہ آپ ہر سال اسے ایک تعلیم گاہ میں باقاعدگی سے لوگوں کو بتا رہے ہیں۔ کیا یہ طلبہ حصولِ تعلیم کے لئے بھی اتنے ہی کوشاں ہیں؟‘‘
ان دنوں اسکولوں میں ایک روش چل پڑی ہے۔ سالانہ جلسوں کے لئے طلبہ کو کاسٹیوم خریدنا ضروری ہوگیا ہے ورنہ چاہے آپ کے پاس ٹیلنٹ ہو اور کاسٹیوم خریدنے کے پیسے نہ ہو تو آپ اضافی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔ بچے گھر جا کر ضد کرتے ہیں کہ اسکول سے ۲؍ ہزار روپے منگوائے گئے ہیں تاکہ سالانہ جلسے کے لئے ایک جیسے کپڑے سلوا سکیں۔ بتائیے ان ۲؍ ہزار روپوں کے کپڑوں کو پہن کر جو پیغام آپ لوگوں کو دینا چاہتے تھے، کیا آپ پہنچا سکے؟ کیا یونیفارم ایک جیسا نہیں ہے؟ کیا ضروری ہے کہ ’حمد و نعت‘ پڑھنے کے لئے سب کے سفید کپڑے ہی ہوں؟ آپ پرفارمنس پر دھیان دیں۔
’’جو تہذیبی و ثقافتی پروگرام میں آپ نے مختلف تہذیبوں کو بتانے کے جو ’بدتہذیبی‘ کا انتخاب کیا ہے اس میں تعلیم پیچھے رہ گئی ہے۔ ہر گانے پر طلبہ کو نچانا اور تہذیب دکھانا ایک مسلم اسکول میں میرے نزدیک سرے سے غلط ہے۔‘‘
’’میری ۶؍ سالہ پوتی ہے، آئے دن اسکول سے میسیج آتے ہیں کہ کل سب طلبہ کو پیلا لباس پہن کر آنا ہے کل ’یلو ڈے‘ ہے۔ کل سب کو ایک الگ پھل لے کر آنا ہے، کل اسکول میں ’فروٹ ڈے‘ ہے۔ کل سب کو گھر کے لباس میں آنا ہے کل ’سول ڈریس ڈے‘ ہے۔ آئے دن مختلف ’ڈیز‘ منا کر آپ بچوں کو کون سی تعلیم دینا چاہتے ہیں؟ یا کس کی تقلید کی جا رہی ہے؟ کیا اس سے بچوں کی شخصیت سازی ہوگی؟ یہ تو فیشن سکھایا جا رہا ہے کہ آپ آئے دن ’ڈیز‘ مناتے رہیں۔
پھر اسکول کے گروپ پر بھیجی جاتی ہے جوتوں کی تصویریں اور ’برانڈ‘ کا نام کہ آپ کو یہی جوتے لینے ہیں اور اسی ’برانڈ‘ کے لینے ہیں، اسی مخصوص دکان سے لینے ہیں۔ بتائیے تعلیم حاصل کرنے کے لئے جوتوں کا کیا کردار ہے؟ ٹھیک ہے یونیفارم بھی کوئی چیز ہے لیکن ہر چیز کی کوئی حد بھی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لئے جوتوں کی ’برانڈ‘ کیا کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم تو ننگے پاؤں بھی حاصل کی گئی ہے تو کیا یہ ہزار روپوں کے جوتے مارکس بڑھائیں گے آپ کے؟‘‘
یونیفارم اسکول سے لینا ہے، بستہ اور اب تو کاپیاں تک اسکول کے ’لوگو‘ والی لینی ہیں ورنہ تو آپ فیل ہوجائیں گے۔ اسکول سے پڑھائی کے نام پر اب پی ڈی ایف بھیجا جاتا ہے۔ تختہ سیاہ کا بس اب نام رہ گیا ہے۔ تو طلبہ ’اسکول کے لوگو‘ والی کاپیاں کیوں مکمل کرنے لگے بھلا؟ جب پڑھائی ڈجیٹل ہوگئی اور اب تو لکھائی بھی ڈجیٹل ہوگئی، موبائل سے پڑھا جاتا ہے اب کاپیوں سے نہیں۔ اب اسکولوں سے ملنے والی ’اسکول کے لوگو‘ والی کاپیاں منہ تکتی رہ جاتی ہیں۔
مزے کی بات تو اب سنئے، اب اسکولوں اور کالجوں نے ٹیوشن کلاسیز سے شراکت داری کی ہے۔ اگر آپ کو پاس ہونا ہے تو فلاں فلاں ٹیوشن میں بھی داخلہ کرانا ہوگا پھر آپ کے نمبر پکے، آپ کو کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے نہ آپ کو اسائمنٹ تیار کرنا ہے۔ یہی اساتذہ آپ کو وہاں بھی پڑھائیں گے اور ’نوٹس‘ بھی تبھی دیں گے جب آپ ان کی کلاسیز میں داخلہ لیں گے۔ بس آپ کو اسکول کے علاوہ وہاں بھی تیس تا چالیس ہزار روپے فیس بھرنی ہے پھر آپ کے نمبر پکے۔ اب بتائیے جو ہزاروں روپوں کے برانڈڈ جوتے خریدے تھے جو اسکول کے ’لوگو‘ والی کاپیاں خریدی تھیں وہ تو کوئی کردار ہی ادا نہیں کر پائیں۔ یہ تعلیم نہیں، تعلیم کے نام پر بزنس ہو رہا ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ سب سے اچھا دین، دین ِ اسلام ہے۔ اور سب سے خراب قوم، قوم ِ مسلمان ہے۔
مَیں اسکولوں کے انتظامیہ اور اساتذہ سے درخواست کرتا ہوں وہ سابق اساتذہ جو ریٹائرڈ ہوچکے ہیں لیکن اب بھی فعال ہیں انہیں ہفتہ میں ایک دو روز کے لیکچر کے لئے ضرور اسکول بلائیں، گیسٹ لیکچر کے لئے بلائیں تاکہ ان سے آپ بھی سیکھ سکیں اور آئندہ نسل بھی سنورے۔ جو آج کی کھوکھلی تعلیم نہیں سکھا پا رہی ہے۔
شکایت ہے مجھے یا رب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
(علامہ اقبال)
والسلام!
ہال میں ہر طرف خاموشی برقرار رہی اور سب کے سر جھکے رہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK