• Wed, 24 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

محمد رفیع: گلوکاری کا بادشاہ جس میں فقیر بستا تھا

Updated: December 24, 2025, 1:41 PM IST | Dr Humayun Ahmad | Mumbai

آج، گلوکاری کے آفتاب و ماہتاب اور آواز کی دُنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع کی ۱۰۰؍ ویں سالگرہ ہے۔ اس موقع سے یہ مضمون خاص طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

You will not forget me like this: The Emperor of Singing Mohammad Rafi. Picture: INN
تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے: شہنشاہ گلوکاری محمد رفیع۔ تصویر: آئی این این
خوش مزاج، نرم دل اور نیک طبیعت انسان کی تلاش کسی تابندہ فنکار میں کی جائے تو مجھ ایسے مداح کی نگاہ ایک ہی تصویر پر آکے ٹھہر جاتی ہے۔ بے پناہ صلاحیت اور آواز سے نوازے گئے محمد رفیع اس شبیہ کی واحد مثال ہیں۔ رفیع صاحب بھی اسی فلمی دنیا کے باشندے تھے جہاں لوگوں کی رنگین مزاجی کے قصے آئے دن گردش کرتے ہیں۔ مَیں اُنہیں اِن الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہوں گا کہ رفیع صاحب نے پھسلنے والی کاجل کی کوٹھری میں عمر گزاری اور بے داغ نکلے۔ اُن کی شخصیت اور فن پر اظہار خیال کرنے والا ہر شخص ’’اونچے فنکار‘‘ اور ’’اچھے انسان‘‘ یا ان کے ہم معنی الفاظ کا استعمال کرتا ہوا دکھائی دے گا۔ 
رفیع صاحب کو گزرے ہوئے چار دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر گیامگر لگتا نہیں کہ وہ گزرے ہوئے زمانے کے گلوکار ہیں۔ان کے نغموں کی کشش کا کمال دیکھئے ! آج بھی کوئی گیت گونجتا ہے تو کسی راہ چلتے تک کے دل میں خواہش ہوتی ہے کہ بار بار کے سنے ہوئے گیت کو ایک بار پھر سن لے۔ جہانِ موسیقی کیلئے محمد رفیع قدرت کا معجزہ تھے ۔ مشکل سے مشکل اتار چڑھائو والے نغموں میں بھی ان کی آواز کی دلکشی اور مٹھاس کو دیکھ کر موسیقی کی بڑی بڑی ہستیاں عش عش کر اٹھتی ہیں۔ ماحول کو سہانا بنا دینے والی رفیع کی رسیلی آواز اور دلکش نغموں کی ہمہ گیریت کا ثانی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ آج کےبے آب و رنگ دَور میں رفیع صاحب کے زندہ ترانوں کی تازگی آج بھی خوشگوار احساس جگاتی ہے۔
محمد رفیع کے فلمی سفر کا آغاز سن چالیس کے وسط میں ہوا۔ آوازمیں موجود لافانی کشش اوراپنے دلفریب انداز ادائیگی کے صَوتیاتی اثرات کی بدولت وہ بہت جلد بلندی کے اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے۔اس وقت سنیما ہال، ریڈیو اور لائوڈ اسپیکر کا زمانہ تھا مگر رفیع صاحب تب بھی چھائے رہے۔ اپنے نغموں میں سُروں کی کثیر الجہتی سے رفیع صاحب نے ہر طرح کی مٹھاس بھری ہے۔ خوشیوںکی کھنک ہو یا شکستہ دلی کی اداسی، آواز کی دنیا کی ساری ندیاں جس ایک سمندر میں آکر ملتی ہیں اس سمندر کانام ہے محمد رفیع ۔ اُن کے نغموں کی طغیانی میں غوطے لگاتے جائیے۔ ان کی نغمہ سرائی کے بیکراں سرمایہ کا ایک غائر انکشاف کرتے جایئے۔ نئی نئی جہت کے نایاب نمونے اور نادر جوہر ملتے جائینگے۔ان کی گلوکاری میں حسن کی تعریف میں جو گیت ہیں اُن کا مقام سرفہرست ہوگا۔ان نغموں کو سن کر لگتا ہے حسن کی تخلیق کے بعد اس کی تعریف بیان کرنے کیلئے قدرت نے محمد رفیع کو پیدا فرمایا۔ ایسے رومانی نغموں کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ اس میں سے بہترین کا انتخاب کرنا بھی دشوار ہے۔ اُن کے گائے ہوئے بھجن میں تو لگتا ہے کوئی بے بس فریادی عاجزی کے ساتھ اپنے مالک کو پکار رہا ہے۔ ان نغموںکی سب سے بڑی خوبی رفیع صاحب کی طلسماتی آواز ہے۔ عموماً جس جانب کم توجہ جاتی ہے وہ بچوں کیلئے گائے گیت ہیں جن کی جانب بچے تو راغب ہوتے ہی ہیں، بڑوں کی بھی پاکیزہ تفریح ہوجاتی ہے۔ رفیع صاحب نغماتِ حب الوطنی کے شہنشاہ تھے۔نازک موقعوں پر قربانی کیلئے دھرتی پکارتی ہےتو حرارت اور توانائی کا پیدا ہونا وقت کی ضرورت بن جاتا ہے۔وقت نے جب بھی پکارا رفیع کی آواز نے رگوں میں حرارت اور توانائی دوڑا دی۔ سن باسٹھ کی ہند چین جنگ کے وقت رفیع صاحب کی گھن گرج والی آواز ایک بار آسمان سے ٹکراتی تھی تو لگتا تھا دشمن ہل گیا ہے۔پاکباز رفیع صاحب نے کبھی شراب کا پیالہ چھوا تک نہیں مگر نشے میں دھت شرابی کیلئے گایا تو ایسی نشیلی آواز پیش کی کہ دنیا جھوم اٹھی۔ رفیع صاحب کی آواز اور گائیکی میں اتنی روانی اور ایسی سیّالیت (Fluidity)تھی کہ جب چاہو جہاں چاہو جیسے چاہو جدھر چاہو موڑ دو، جس سانچے میں چاہو ڈھال دو اور جس روپ میں چاہو اتار لو۔ وہیں ان کی زور دار آواز اونچائیوں میں بھی لہراتی ہے اور اتنی لہراتی ہے کہ لگتا ہے کبھی آسمان کو چھوتی ہے تو کبھی ستاروں سے ٹکراتی ہے۔ دوسری جانب عشق و محبت کی حد انتہا کو چھونے والے کچھ نغموں میں ان کی لَے اتنی مدھم ہے کہ جیسے کوئی کانوں کے بالکل قریب آکے چپکے چپکے صرف ہونٹ ہلارہا ہے۔ سُر اور لَے میں آواز کی ایسی قدرتی کثیر الجہتی کہیں اور ممکن نہیں۔ کوئی موقع ہو، کیسا بھی ماحول ہو، انسانی فطرت کی ہرکیفیت کا احساس جگادینے میں رفیع صاحب کو مہارت حاصل تھی۔ انسانی مزاج کے جس پہلو کوبھی لیں،یوں لگتا ہے سننے والاان کی جاذب ِتوجہ آواز میں اپنے اَن کہے جذبات کو محسوس کررہا ہے۔ اُن کا یہ معیار اپنے عروج کی اس انتہا کو چھوتا ہے کہ کسی دوسرے رفیع کا تصور یا امکان محال لگتا ہے۔ 
رفیع صاحب نے چھوٹے بڑے تمام اداکاروں کیلئے نغمے گائے۔ ان میں کئی ایسے تھے جو شہرت کی بلندیوں پر تھے مگر جو ایسے نہیں تھے اُنہیں بھی رفیع صاحب نے نوازا اور اپنی آواز سے اُن کی فلموں میں جان ڈال دی۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ رفیع صاحب کی ضرورت سب کو تھی۔ موسیقار، اداکار، فلمساز، گویا ہر کوئی اُن کی آواز اور گلوکاری پر اپنی کامیابی کے محل تعمیر کرتا یا کرنا چاہتاتھا۔ کسی اداکار کے انداز و مزاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے سین کے تقاضے کے مطابق گیتوں کو سُروں میں ڈھالنا ایک اہم چیلنج ہوتا ہے۔ رفیع صاحب اس طلسماتی خوبی کے اچھوتے ماہر تھے۔ کلاسیکی موسیقی کے باریک پہلوئوں پر اپنی مضبوط گرفت کی بدولت وہ اس دو ہری ذمہ داری کو بڑی مہارت سے انجام دیتے تھے۔ ریکارڈنگ سے پہلے رفیع صاحب کو یہ علم ہوتا تھا کہ شہد میںمٹھاس بھرنے کیلئے کب کس پھول سے رس نچوڑنا ہے۔ 
رفیع صاحب نے کل کتنے گیت گائے یہ بتانا مشکل ہے پھر بھی ایک عام تخمینہ کے مطابق یہ تعداد ربع لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔یہاں تعداد سے زیادہ معیار اور تنوع اہم ہے۔ ان کے نغموں کی مناسب طریقے سے درجہ بندی (کیٹگرائزیشن) کی جائے تو یہ ایک قابل قدر کو شش ہو گی۔ ان کے نغموں کا خزانہ سنجیدہ تو جہ و تحقیق کا متقاضی ہے ۔ رفیع کے گیتوں کے تنّوع (Variety) کا احاطہ کرنا مشکل کام ہے۔ تاہم ماہرین موسیقی ایسا کریںتو دنیا ئے موسیقی کیلئے یہ ایک خدمت ہو گی۔ ہر بار گلوکاری کا نیا انداز پیدا کرنا، اس قدر اختراع  (اِننویشن)، اتنی تبدیلیاں، اتنی جدت جو رفیع صاحب کے ہاں تھی، اور کہاں مل سکتی ہے۔ موسیقی کے اتار چڑھائو کی دشوار ترین راہوںسے جس آسانی سے محمد رفیع گذر جاتے ہیں اس کی مثال کیا کہیں اور ممکن ہے؟ اتنی خوبیوں کے اعتراف کے باوجود لوگ خواہ مخواہ دوسرے سنگر کا محمد رفیع سے مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بانوے چورانوے کا سو (۱۰۰) سے موازنہ ہوسکتا ہے مگر تیس بتیس یاچونتیس کا سو سے کیا مقابلہ؟ موسیقی کےبڑے جانکاروں کو بین الاقوامی سطح پر بھی چند اہم نکات کے اوپر غور کرلینا چاہئے مثلاً ارتعاشات کی اضافی سرعت (High Pitch) والی اونچی تان میں محمد رفیع کو بڑا امتیاز حاصل ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ سُر اور الاپ کی کسی بھی بلندی پر خوش آہنگ مٹھاس میں فرق نہیں آتا۔ سروں کی بے مثال حدیں (Unparalleled Range)، ہمہ گیریت (Versatatity) ، تنّوع (Variety) اور ارتعاشات کی شرح (Pitch) کی بنیاد پر عبقری (Genius) محمد رفیع کی برابری پر کون آسکتا ہے؟ نیز محمد رفیع کے بہت زیادہ مختلف زبانوں میں گائے گیتوں کی آواز کے مختلف پہلوئوں پر ماہر صَوتیات (Phoneticians) تحقیقی نگاہ ڈالیں تو محمد رفیع کی عظمت کا انکار ممکن نہیں ہوگا۔ یہاں یہ حقیقت بھی باعث دلچسپی ہے کہ آج سوشل میڈیا کے غلبے نے محمد رفیع کے تعلق سے کئی حقائق کو منظر عام پر لا دیا ہے جو اَب تک پردۂ خفا میں تھے۔ رفیع صاحب کے ہم عصر صف اول کے گلوکاروں، موسیقاروں نیز ان کے اہل خانہ کے بےشمار ویڈیوز (Videos) آج عوام کی دسترس میں ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ رفیع کی شہرت ، مقبولیت اور ہر دلعزیزی میں آج بھی اضافہ ہورہا ہے۔ 
ایک نیک دل اور خوش مزاج انسان کے طور پر رفیع صاحب کی شخصیت پر صد فیصداتفاق رائے پایاجاتا ہے۔ انا پسندی یا تکبّر سے کوسوں دور اس سادہ فطرت انسان کے چہرے پر ہمیشہ معصوم مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ اُن کے زیادہ تر گانوں میں چہرہ  کی طرح آواز بھی مسکراتی ہے۔ رفیع صاحب فلمی دنیا کے بادشاہ تھے مگر ان کے اندر کوئی فقیر بستا تھا۔ ایوارڈخواہ کسی کو کچھ بھی ملے محمد رفیع اپنے آپ میں بھارت کے رتن ہیں۔ کسی کو بھارت رتن ملے تو کہتا ہے مجھے بھارت رتن ملا۔ رفیع صاحب کو بھارت رتن ملے تو بھارت رتن سے آواز آئے گی مجھ کو محمد رفیع مل گئے۔ 
مضمون نگار فزیشین ہیں جن کا تعلق رانچی، جھارکھنڈ سے ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK