مَیں ائیر پورٹ پر بیٹھی اتنی مگن تھی کہ مجھے موبائل کی گھنٹی ہی سنائی نہیں دی۔ ایک دم ہوش آیا اور موبائل آن کیا تو دوسری طرف سے اطہر تھے۔
مَیں ائیر پورٹ پر بیٹھی اتنی مگن تھی کہ مجھے موبائل کی گھنٹی ہی سنائی نہیں دی۔ ایک دم ہوش آیا اور موبائل آن کیا تو دوسری طرف سے اطہر تھے۔ پوچھ رہے تھے کہ کہاں ہو؟ ’’ائیر پورٹ پہنچ چکی ہوں۔ ٹکٹ اوکے ہوگیا ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی جہاز پر سوار ہو کر اپنے ملک ہندوستان پہنچ جاؤں گی۔‘‘ ’’ارے بھائی آپ کی بات ٹھیک ہے مگر موبائل بجنے پر سن ضرور لینا۔‘‘ اور مجھے ان کی بات کا مطلب سمجھ کر ہنسی آگئی۔ ’’بچے کہاں ہیں؟‘‘ ’’میرے پاس ہیں۔‘‘ ’’پریشان تو نہیں کر رہے ہیں؟‘‘ ’’نہیں... نہیں... آرام سے ہیں۔‘‘ ’’اچھا خدا حافظ، پھر فون کروں گا۔‘‘ ’’خدا حافظ!‘‘
دل کہہ رہا تھا کہ جہاز کا انتظار مت کر اُڑ کر چلی جا۔ ایک عرصہ کے بعد ہندوستان جانا ہو رہا تھا۔ سب سے ملوں گی۔ فون پر بات کرتے کرتے تھک چکی ہوں۔ بچے بھی بہت خوش تھے کہ سب سے ملیں گے پھر دادا ابو کے گھر جائیں گے۔ یہ سب سوچتے سوچتے باہر نیلا آسمان دیکھتے ہوئے نیند نے کب آغوش میں لے لیا پتہ ہی نہیں چلا۔ ہندوستان کی زمین کو چھوتے ہوئے ایک عجیب سی اپنائیت کا احساس ہو رہا تھا۔ سوچا زمین سے اتنی اپنائیت ملی ہے تو اپنے خون کا کیا عالم ہوگا....؟
بھائی لینے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ کار میں سامان رکھ کر گھر کی جانب چل پڑے۔ دہلی کا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔ کوئی جگہ پہچان میں نہیں آرہی تھی۔ فلک بوس عمارتیں اپنی ترقی کی کہانی سنا رہی تھیں۔ بھائی، اطہر کی بچوں کی ساری خیریت دریافت کرتے رہے۔ جب گھر پہنچے تو خوشی کا عالم دگنا تھا۔ امی بہت ضعیف نظر آئیں۔ سب کے بچے ما شاء اللہ جوان ہو چکے تھے۔ بھابھی تو بہو بھی لا چکی تھیں۔
امی نے بہت پیار کیا بڑی دیر تک سینے سے لگائے رکھا۔ اطہر کی کمی کو محسوس کیا۔ امی بولیں ’’کتنے عرصے کے بعد آئی ہے۔ تم لوگ یہاں رہتے تو اچھا ہوتا۔ ہم تو دیکھنے کو ترس گئے۔ فون سے کہیں تسلی ہوتی ہے۔ فوٹو دیکھ کر اپنے بچوں کی کمی کو پورا نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ کھانے پینے کا دور چلا۔ سب کچھ تھا مگر ابو کی کمی آج بھی اس طرح محسوس ہوئی جیسے اس گھر میں رہتے ہوئے ہوتی تھی۔ ابو کے انتقال کو اٹھارہ سال ہو چکے تھے ان کے بعد میری شادی ہوئی تھی پھر حالات ایسے بنے کہ بہت کچھ سوچتے ہوئے ہم ملک سے باہر چلے گئے۔ وہاں جا کر دونوں کی ڈیوٹی، ساتھ ہی بچوں کی پیدائش اور ذمہ داریوں نے یہاں کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیا۔ سب لوگوں نے میری بڑی بیٹی کو دو سال کا دیکھا تھا۔ باقی دونوں کی پیدائش وہیں کی تھی۔
گھر آکر بہت سکون محسوس ہو رہا تھا کہ اظہر کا فون آگیا۔ پہلے انہوں نے امی سے بات کی۔ امی نے کہا ’’تم کیوں نہیں آئے۔ دونوں ساتھ آتے تو اچھا لگتا۔ اب ریشمہ جتنے بھی دن کے لئے آئی ہو تم بھی آنے کی کوشش کرو۔ چاہے دس ہی دن کے لئے آجاؤ پھر ساتھ واپس چلے جانا۔‘‘ ہمیشہ کی طرح امی کی خلوص اور محبت بھری آواز سن کر چھوٹے سے دل سے کہہ دیا .... ’’جی امی ضرور کوشش کروں گا۔ امی ریشمہ سے بات کرا دیں۔‘‘ امی نے فون مجھے تھما دیا۔ ’’ارے بھئی اپنے گھر جا کر ہمیں فون بھی نہیں کیا۔‘‘ ’’ابھی کرتی سوچ رہی تھی۔ سب کی خیریت لے لوں آپ کے حکم کے مطابق آپ کو سب کے بارے میں تفصیل سے بتا سکوں۔‘‘ ’’ارے میری باجی سے ملاقات ہوئی۔‘‘ ’’نہیں ابھی نہیں جبکہ اطلاع تو دے دی تھی۔ کوئی بھی آتا تھا تو وہ فوراً ملنے آجاتی تھی۔ میرا سن کر نہ آنا عجیب سا لگ رہا ہے۔ رات میں اطمینان سے فون کرکے آپ کو سناؤں گی۔ اپنا خیال رکھئے۔‘‘ ’’اچھا سب کو سلام دعا کہہ دینا۔‘‘
رات کو امی نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر لیٹ گئیں۔ بچوں کو اپنے پاس ہی لٹا لیا۔ تھکن تو تھی مگر پھر بھی بڑی بھابھی کے کمرے میں جا پہنچی۔ ’’بھابھی آجاؤں...‘‘ ’’ہاں... ہاں آجاؤ۔‘‘ ’’سورہی ہیں۔‘‘ ’’نہیں ابھی کہاں....‘‘ بھابھی ہماری زندگی کی مصروفیات کے بارے میں معلوم کر رہی تھیں۔ جب میں بہت بے چین ہوگئی تو میں نے پوچھ لیا کہ ’’بھابھی چھوٹی باجی تو دن میں آگئی تھیں مگر بڑی باجی نہیں آئیں کیا بات ہے۔‘‘ ’’ارے ریشمہ کچھ مصروف ہوں گی تم کل ان کے گھر ہو آنا۔‘‘ ’’بھابھی کیا وجہ ہے آپ تو ان کو جانتی ہیں میر لئے تو وہ سب کام چھوڑ دیتی تھی۔ فون پر بھی بات نہیں ہوئی۔ آج سارا دن کوئی نہ کوئی آتا رہا اس لئے میں نکل نہیں سکی۔ میرا ارادہ تو آج ہی جانے کا ہو رہا تھا۔‘‘ ’’ہاں ریشمہ ان کا آج کا دن بہت مشکل سے گزرا ہو گا۔ ان کا دل بھی تمہیں دیکھنے کے لئے بے قرار ہو گا۔‘‘ ’’اس لئے تو کہہ رہی ہوں کہ وہ آئیں کیوں نہیں۔‘‘ ’’ریشمہ... باجی ہمارے گھر نہیں آتیں۔‘‘ میرے دل کو ایک چوٹ سی پہنچی اور تھکن بھی ہوگئی۔ ’’کل تم اور میں دونوں چلیں گے۔‘‘
’’نہیں بھابھی آپ مجھے بتائیں تو سہی کہ آخر کیا ہوا۔ اگر آپ نہیں بتائیں گی تو میں امی کو جگالوں گی۔‘‘ ’’نہیں.... نہیں.... تم امی کو مت جگانا۔ آج کئی روز بعد ان کو نیند آئی ہے۔ میں ہی بتا دیتی ہوں۔ اپنی شادی تک تو تم ہر بات سے واقف ہو۔ باجی نے ابو کے انتقال کے بعد اپنے گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ اس گھر کی ذمہ داریوں کو بخوبی سنبھالا کہ امی کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ امی کو کبھی کسی بات کا احساس نہیں ہونے دیتی تھیں۔ جب تمہارے چھوٹے بھائی کا نمبر آیا تو تم جا چکی تھیں۔ پڑھنے کے بعد وہ خالی وقت ضائع کرتا رہا۔ پڑھنے کا اسے کوئی خاص شوق نہیں تھا اس نے آگے پڑھنے کے لئے منع کر دیا۔ پھر صرف سونا اور دوستوں کے ساتھ گھومتا پھرتا۔ باجی کو یہ پسند نہیں تھا۔ نوکری کے لئے وہ تیار نہیں تھا۔ اس لئے سب کے سامنے باجی نے تجویز رکھی کہ اسے کوئی کام کرا دیا جائے۔ کام کرانے کے لئے سب بھائی ایک مناسب رقم کا انتظام کر دیں۔ اس بات کے لئے کوئی تیار نہیں ہوا۔ اور الٹا ان کو جواب دیا کہ آپ بھی تو بہن ہیں آپ کا چھوٹا بھائی ہے آپ ہی کر دیجئے۔ خیر کام تو ہوگیا۔ کسی نے کچھ نہیں دیا۔ اور پھر ان کو آنکھیں دکھانے لگے۔ امی نے بھی خاموشی سادھ لی۔ امی ان لوگوں کو کچھ کہتی بھی تو وہ سب چیخنے لگتے امی کی بھی بڑی باجی کی کسی نے نہیں سنی۔ جب باجی کو کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ ابو کا کام بہت ہلکا ہوگیا تھا۔ سب کو آتا ہوا تو نظر آتا تھا خرچے کسی کی سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ اب اس کام سے کسی فیملی کی ذمہ داری نہیں اٹھائی جاسکتی تھی۔ باجی نہیں آتی تھیں تو کوئی کہتا بھی نہیں تھا کہ کیوں نہیں آتی۔ پھر عید بقر عید کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ اپنے بچوں کو باجی نے پڑھا لکھا کر باہر بھیج دیا۔ اب باجی گھر سے نکلتی ہی نہیں کبھی اتفاقیہ ہی کہیں جائیں تو جائیں۔ ان کی بیٹی ڈاکٹری پڑھ رہی ہے۔ وہ بھی کبھی کبھی آجاتی ہے۔‘‘
’’لیکن بھابھی! باجی کی محبتوں، شفقتوں اور خلوص کو اتنی جلدی کیسے بھلا دیا۔ وہ تو ایسی خاتون ہیں کہ ساری عمر ان سے محبت کی جائے۔‘‘
’’شاید ریشمہ پاس رہنے سے محبت کم ہو جاتی ہے۔ خلوص اور اپنائیت میں کمی آجاتی ہے۔ کبھی امی کا دل چاہتا ہے تو کوئی پہنچا دیتا ہے۔ سارا دن رہ کر شام تک آجاتی ہیں۔‘‘
’’باجی کیا کہتی ہیں؟‘‘ ’’کچھ نہیں خاموش رہتی ہیں۔ انہیں زمانے سے کوئی تکلیف نہیں۔‘
’’آہ! بھا بھی مَیں... یہاں آئی ہی کیوں؟‘‘ کیونکہ کبھی بھابی نے فون پر اس طرح کی کوئی بات نہیں بتائیں۔ سب کی خیریت ایسے دیتی جیسے ابھی مل کر آئی ہوں۔ مجھے اپنی شادی کے واقعات یاد آئے کہ کیسے انہوں نے شادی کی تیاریاں کرائی تھیں۔ رات بھر مَیں بے چین رہی اور سوچتی رہی کہ کب صبح ہو اور مَیں اپنی باجی سے ملنے جاؤں اور صبح اپنے ساتھ ایک قیامت لے کر آئی۔
باجی کی زندگی میں صبح نہیں آئی۔ وہ رات کے کسی پہر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملیں۔