Inquilab Logo

افسانہ: سایہ

Updated: March 06, 2024, 1:48 PM IST | Iffat Ahsan | Azamgarh, UP

گھر آکر بگڑے ہوئے تیور لے کر راحمہ سیدھے امی کے پاس آئی۔ ’’امی آپ نے ابّا کو مجھے اسکول لینے کیلئے بھیجا تھا؟‘‘ اس کے لہجے کی ناگواری کو محسوس کرتے ہوئے امی نے کہا، ’’نہیں بیٹا! وہ تمہارے والد ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

گھر آکر بگڑے ہوئے تیور لے کر راحمہ سیدھے امی کے پاس آئی۔ ’’امی آپ نے ابّا کو مجھے اسکول لینے کیلئے بھیجا تھا؟‘‘ اس کے لہجے کی ناگواری کو محسوس کرتے ہوئے امی نے کہا، ’’نہیں بیٹا! وہ تمہارے والد ہیں۔ تمہاری فکر ہوتی ہے ان کو۔ آج کل کے ماحول کو جانتے ہیں اسی لئے تو اس بیماری میں بھی تمہارے اسکول کی چھٹی کے وقت سے پہلے ہی پہنچ جاتے ہیں تاکہ تمہیں آنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔‘‘
 ’’امی پلیز پریشانی کی تو بات ہی مت کیجئے۔ ان کے آنے سے مجھے بہت ہی عجیب سا لگتا ہے اور اپنے دوستوں کے سامنے خواہ مخواہ صفائیاں دینی پڑتی ہیں۔‘‘ راحمہ نے ابو کو اندر آتے ہوئے دیکھ کر دبی زبان میں کہا اور پیر پٹکتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔
 ’’کیا ہو ا رحمہ؟‘‘ رشدہ نے اس کے بگڑے مزاج کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
 ’’ہونا کیا تھا.... اچھا ہوا تم دسویں کے بعد اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکی ورنہ میری طرح تم کو ابّا اسکول سے گھر اور گھر سے اسکول لینے آتے۔‘‘
 ’’تم کتنی بد تمیز ی سے بول رہی ہو راحمہ.... ابّا باہر کھڑے ہیں اگر سن لیا تو کتنا برا لگے گا ان کو۔‘‘ رشدہ نے آنکھ دکھاتے ہوئے کہا۔
 ’’تو اچھا ہے سن لیں نا.... وہ ہمارے لئے کرتے ہی کیا ہیں.... یہ ایک ٹوٹا ہوا دروازہ جو آج تک نصیب نہیں ہوا کہ بنا دیں....‘‘ اس نے اپنے پیروں سے پاس ہی لگا ہوا دروازہ ایک ٹھوکر ماری جس دروازے کے بازو تک ہل گئے۔ رشدہ نے بے چارگی سے کہا، ’’بس اتنا ہی کہہ سکتی ہوں۔ اگر آپ کا باپ اپنی بیماری کی وجہ سے کام نہ کر رہا ہو تو اس میں ان کی کیا غلطی۔ سبھی والدین اپنی اولاد کو ایک بہترین زندگی دینا چاہتے ہیں لیکن اگر وہ بد قسمتی سے زندگی کے اس پڑاؤ پر صحت نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں زندگی کی وہ آسائش نہیں دے پا رہے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ہم ان کو طعنہ نہ دیں بلکہ ان کے ساتھ محبت سے پیش آئیں جیسے کہ ہم اپنے خوشحال دنوں میں ان کی عزت کرتے تھے۔ شکر ہے ہمارے سر پر ایک چھت تو ہے جس میں ہم اپنے والدین کے ساتھ تحفظ سے ہیں۔ ایک روٹی سکون کی فراہم کر رہے ہیں نا....‘‘ وہ اس کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بول رہی تھی۔
 اتنا کچھ سمجھانے کے بعد جیسے کچھ اثر نہیں ہوا جھٹ سے بولی، ’’امی نہ ہوتی تو ایک روٹی بھی نہ ملتی.... بے چاری دن بھر مشین چلاتی رہتی ہیں.... پھر ان کے رہنے کا کیا فائدہ....‘‘ اور نہ جانے کب امی پیچھے آکر اس کی بکواس سن رہی تھی اور ایک زور کا طمانچہ اس کو دے مارا، ’’بد تمیز کچھ زیادہ نہیں ہوگئی ہو.... یہ تمہارے باپ کی چھوٹ ہے جو آج یہ اتنی بدتمیزی کر رہی ہے۔ تم کیا جانو باپ کا سایہ کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ جن کے پاس باپ ہوتے ہیں وہ بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں۔ ذرا اپنے والد کی قربانیوں کے بارے میں سوچو۔ آج وہ اپنی بیماری سے پریشان ہیں تو کیا میں ان کا ساتھ چھوڑ دوں....‘‘ امی اپنے آنسو کو دوپٹے کے کونے سے صاف کرتے ہوئے بولی اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔
 ’’عالیہ کے ابّا بھی تو ایک باپ ہے اس کے لئے زندگی کتنی خوبصورت ہے۔ وہ کتنی بڑی گاڑی سے آتی ہے۔ اس کے پاس وہ سب کچھ ہوتا ہے جو ہم صرف خواب میں سوچ سکتے ہیں۔‘‘ راحمہ نے کہتے ہوئے ایک لمبی سانس چھوڑی۔
 رشدہ کوبات سمجھ میں آئی کہ وہ اپنی کلاس کی دیگر ساتھیوں کی زندگی سے متاثر ہو رہی ہے اور اپنے پاس وہ آسائش نہ پاکر ابّا کو اس کا قصور وار سمجھ رہی ہے۔
 رشدہ نے کہا، ’’چلو، یہ سب فضول کی بات چھوڑو چلو کھانا کھاتے ہیں۔‘‘
 دن دھیرے دھیرے گزرتا گیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ عالیہ سے اس کا لگاؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ ’’وہ آج یہ لائی تھی....‘‘ ’’اس کے پاپا یہ....‘‘ ’’اس کے پاپا وہ....‘‘ ہر دم کی بات راحمہ کرنے لگی۔
 ایک دن اسکول سے آنے کے بعد وہ امی سے عالیہ کے گھر جانے کی ضد کر رہی تھی۔ ’’امی اس کی سالگرہ ہے۔ مجھے جانے دیں۔‘‘ جیسے تیسے امی مان گئی۔
 مَیں اس کے ساتھ اس کے دوست کے بتاتے ہوئے ایڈریس پر پہنچی۔ ایک عالی شان محل نما گھر جس میں داخل ہوئے۔ عالیہ بڑی خوشی خوشی ملی۔ پورا گھر سجا ہوا تھا اور کیوں نہ سجتا ان کی اکلوتی بیٹی کی سالگرہ تھی۔ ابھی وہ ہمیں اپنا گھر دکھا ہی رہی تھی کہ اتنے میں اس کے گھر کےنچلے حصے سے چلانے کی آواز آنے لگی۔ ہم سب دوڑ کر نیچے کی طرف بھاگتے ہوئے آئے۔ عالیہ کے بتانے پر معلوم ہوا کہ یہ اس کے والدین ہیں۔ اس کے ابّا نشے کی حالت میں تھے اور اس کی امی کو بڑی بےرحمی سے مار رہے تھے۔ باقی گھر کے ملازم اور سالگرہ میں آئے ہوئے مہمان حیرت اور ڈر کے مارے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ ہم وہاں سے جیسے تیسے نکلے اور گھر آکر گہری سانس لئے۔
 ’’تم ایسی زندگی کی خواہشمند ہو راحمہ؟‘‘ مَیں نےاتنا ہی کہا۔ راحمہ گلے لگ کر بہت روئی اور شاید اپنے کہے ہوئے الفاظ اس کو یاد آ رہے تھے جو وہ ابّا کے لئے بول دیتی تھی۔
 صبح ہوتے ہی سب سے پہلے اس نے ابّا سے پوچھا، ’’ابّا آپ کے لئے چائے لاؤں؟‘‘ اور ابّا حیرت سے اس کو دیکھتے ہوئے بولے، ’’ضرور کیوں نہیں؟‘‘ ان کے لفظوں میں ایک الگ سی خوشی تھی۔ ابّا اور اس کو ایک ساتھ چائے پیتے دیکھ امی بھی ایک سکون کی سانس لی.... نہیں تو اس کے تیور دیکھ پریشان رہتی تھی۔ مگر یہ محبت بھرے لمحے کچھ پل کے تھے۔ اسی دن شام کو ابّا معمولی سے درد میں ہمیں اکیلا چھوڑ گئے۔
 راحمہ کے لئے یہ بہت دکھ کی بات تھی۔ وہ اپنے ہوش سے بیگانہ بار بار یہی کہے جا رہی تھی، ’’اس کو تو ابّا سے معافی مانگنی تھی....‘‘
 کچھ وقت گزرنے کے بعد زندگی نارمل ہونے لگی۔ امی نے ٹوٹے ہوئے دروازے بدلوا دیئے، لیکن ایک دن رات کو کچھ آہٹ سن کے لگا کوئی گھر میں ہے۔ شور کرنے پر محلے والے مدد کو آئے تو معلوم ہوا کہ پڑوس کے ایک آدمی تھے وہی گھر میں گھس آئے تھے۔ ہمیں معلوم تھا چوری کرنے لائق ہمارے پاس کوئی چیز نہیں تھی اور یہ سب کو معلوم ہیں کہ وہ کسی غلط ارادے سے آئے تھے۔ اس دن اس بات کا احساس راحمہ کو ہوا۔
 ’’آپی پہلے ہمارا دروازہ ٹوٹا ہوا تھا، ایک دھکے میں کھل جاتا مگر تب کوئی نہیں آیا کیونکہ اس وقت ہمارے سر پر باپ کا سایہ تھا اور آج دروازہ اتنا مضبوط ہے پھر بھی یہ گھس آیا۔ دروازے کی مضبوطی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ واقعی باپ گھر کا محافظ ہوتا ہے۔ اس کے سایے میں ہم سبھی محفوظ تھے۔‘‘ اتنا کہہ کر ہم دونوں بہت روئے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK