Inquilab Logo

افسانہ : شام کا منظر

Updated: February 13, 2024, 12:18 PM IST | Saima Sadaf | Uttar Pradesh

شام کا وقت ہوچکا تھا۔ پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف اڑان بھر رہے تھے۔ سورج رفتہ رفتہ اپنی منزل طے کر رہا تھا۔ زمین سے سورج کی الوداعی ملاقات چل رہی تھی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

شام کا وقت ہوچکا تھا۔ پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف اڑان بھر رہے تھے۔ سورج رفتہ رفتہ اپنی منزل طے کر رہا تھا۔ زمین سے سورج کی الوداعی ملاقات چل رہی تھی۔ لوگ سڑکوں پر کسی نہ کسی الجھن میں کسی نہ کسی تلاش میں آتے جاتے نظر آرہے تھے۔ 
 گوہر بھی اپنی منزل کی جانب سڑک کے کنارے چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاتی ہوئی کسی سوچ میں گم چلی جارہی تھی۔ اُس نے گہرے بھورے رنگ کا حجاب پہنا ہوا تھا اور نیوی بلیو رنگ کے کوٹ میں ہمیشہ کی طرح اچھی لگ رہی تھی۔ دونوں ہاتھوں کو کوٹ کی جیب میں ڈالے خود کو سرد ہوا سے بچاتی ہوئی چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا تو مسکرا دی۔ آسمان میں پرندوں کا شور تھا اور رنگ گہرا نیلا ہورہا تھا جو اُس کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ گوہر کو آسمان ہمیشہ ہی اچھا لگتا تھا۔ ہوا چل رہی تھی جو سردی کا شدت سے احساس دلا رہی تھی۔ جنوری کی یہ شام بہت پر سکون اور دلکش نظر آرہی تھی۔ آفتاب اپنی منزل طے کرتے ہوئے گوہر کے ساتھ ہی چل رہا تھا۔ کبھی درختوں کے پیچھے چھپ جاتا.... کبھی کسی عمارت کی پیچھے اور کبھی کسی سوکھے درخت کے پیچھے سے آنکھ مچولی کھیلتا۔ آج کل یہ آفتاب بھی بڑی قیمتی شے معلوم ہو رہا ہے۔ ہر کوئی اسی کا طلبگار ہے۔ لیکن وہ اپنی مرضی سے دستک دے رہا تھا۔ آج بھی آدھا دن گزار کے ہی دیدار کروایا ہے اپنا۔ 
 سڑک کے دونوں اطراف دکانوں کی قطاریں تھیں۔ عموماً ہر دکان پر لوگوں کا ہجوم تھا۔ سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر سبزیوں، پھلوں اور مونگ پھلیوں کے ٹھیلے لگے ہوئے تھے اور اُن ٹھیلے والوں کی آوازیں۔ گوہر ان ٹھیلوں کو بہت دھیان سے دیکھ رہی تھی۔ کسی کا ٹھیلا پورا خالی، کسی کا آدھا اور کسی کا پورا بھرا ہوا تھا۔ چلتے ہوئے اُس نے سوچا کہ، ’’بھرے ہوئے ٹھیلے جب اپنے گھر کو جاتے ہیں تو گھر کی امیدوں کو کیا کہتے ہیں ؟‘‘ ذرا افسردہ ہوئی تھی۔ سر جھٹکتے ہوئے خود کو اپنے تصور سے آزاد کیا۔ پھر یوں ہی نظر گھماتی ہوئی مڑ گئی۔ نکڑ پر الاؤ جل رہا تھا۔ لوگ اُس کے اردگرد گھیرا بنائے کھڑے ہوئے تھے کچھ بیٹھے ہوئے بھی تھے۔ اُس نے دیکھا کہ ایک ضعیف جن کے تن پر پھٹا ہوا سفید مٹ میلا سا کرتا اور اس پر پھٹی ہوئی صدری، پاجاما، پاؤں میں ٹوٹی ہوئی چپلیں اور سر پر گول ٹوپی لگائے ہوئے اپنے کندھوں پر بڑا سا بھاری بوجھ لئے دھیمی رفتار سے دنیا جہاں سے لا تعلق نہ جانے کہاں جا رہے تھے۔ گوہر نے خود کو کہتے ہوئے سنا، ’’تو یہ ہوتی ہے زندگی۔ ‘‘ ایک ٹھندی سانس اندر بھری اور لمحے بعد خارج کی۔ کچھ دیر یوں ہی ٹھہری رہی ہونٹ کانٹتے ہوئے کچھ سوچنے لگی۔ اچانک اُس کی نظر ایک لڑکے پر پڑی جس نے سیاہ جینز پر سیاہ ٹی شرٹ، اُس پر اُسی رنگ کی بنا آستینوں والی جیکٹ، پیروں میں جوتے، کانوں میں ایئر فونز لگائے دونوں ہاتھوں کو جینز کی جیب میں ڈالے اپنی ہی دھن میں مگن چہرے پر کئی تاثرات لئے پیر سے ایک پتھر مارتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ اُس نے سانس اندر کر کے باہر کرتے ہوئے آسمان دیکھا اور عجیب سا ہنس دی، ’’یہ بھی عجیب ہے۔ ‘‘
 یوں ہی تھوڑی دیر سڑک کے دونوں اطراف نظریں گھماتی قدم بڑھاتی رہی۔ اُس نے دیکھا ایک چھوٹا بچہ اپنے سے کافی بڑے شخص کے ساتھ اُن کی ایک ہاتھ سے اُنگلی پکڑے ہوئے دوسرے میں لولی پاپ تھامے کھلکھلا کے ہنس رہا تھا اُس کے پورے منہ میں لولی پاپ کا رنگ لگا ہوا تھا اور اس کی قمیص پر بھی۔ گوہر نے دیکھا اُس کی لولی پاپ اچانک گر گئی اور وہ آنسو بہا بہا کے چیخیں مارنے لگا۔ وہ شخص جو فون میں مصروف تھے اُنہوں نے فوراً فون جیب میں ڈالا اور اُسے گود میں اٹھا لیا۔ یہ سوچے بغیر کہ اُن کے کپڑے خراب ہو جائیں گے۔ گود میں آتے ہی بچہ خاموش ہوگیا۔ اُنہوں نے اس کے دونوں گالوں پہ بوسہ دیا پیار کیا وہ پھر سے کھلکھلانے لگا تھا اُن کی محبت و شفقت پا کر۔ دیکھنے سے وہ اس بچے کے والد معلوم ہوتے تھے۔ اُس کو کندھے سے لگائے سڑک عبور کر رہے تھے وہ ابھی بھی سسکی لے رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں ابھی بھی آنسو تیر رہے تھے۔ گوہر کے چہرے پر مسکان ابھری تھی۔ سڑک پر پڑا پتھر اُس نے پیر سے مار کے کنارے کیا تھا۔ 
 چلتے ہوئے اُس کی نظر سامنے پڑی۔ دو خواتین سامنے سے ہاتھوں میں سامان لئے خوش گپیاں کرتی ہوئی آرہی تھیں۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگتا تھا دنیا کی ہر تکلیف سے انجان ہیں۔ کوئی دکھ نہ پریشانی بس خوشیاں ہی خوشیاں ہیں زندگی میں۔ وہ آتے ہوئے مڑ گئی تھیں۔ گوہر نے پلکیں جھپکی تھیں اپنی۔ اُسے یاد آیا وہ بنا پلک جھپکے ایک ٹک انہیں دیکھے جا رہی تھی۔ 
 اُسے ایک غبارے والا دکھائی دیا۔ اُس کے پاس ہرے، پیلے، لال، گلابی، فیروزی اور نہ جانے کس کس رنگ کے غبارے فضا میں لہرا رہے تھے۔ ذرا دیر میں بچوں کا ایک ہجوم تھا اُس کے اردگرد اور وہ ایک ایک کرکے سب کو غبارے دے رہا تھا۔ جنہیں غبارہ مل جاتا وہ ایک سکہ اُس کی ہتھیلی پر رکھتا اور خوش ہوتے ہوئے ہوا میں غبارہ لہراتے ہوئے بھاگتا چلا جاتا۔ جنہیں ابھی نہیں ملا تھا وہ اُچھل اُچھل کے ہاتھ بڑھا کر غبارے تک پہنچنے کی کوشش کرتا۔ گوہر کو یہ منظر دیکھ کے ہنسی آئی تھی۔ ہنستے ہوئے اُس نے پیچھے گھوم کر دیکھا تھا۔ سامنے سے ایک ادھیڑ عمر شخص ہاتھوں میں تھیلے لئے آنکھوں پر عینک چڑھائے، سر پر پی کیپ، سیاہ رنگ کی پتلون اور اُس پر سفید رنگ کی قمیص، پاؤں میں چمڑے کی سینڈل۔ دیکھنے میں تھکے تھکے سے مگر بلند حوصلہ کے ساتھ قدم بہ قدم چلے آرہے تھے۔ اُن کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا ان کی منزل آس پاس نہیں ہے، اُنہیں کافی لمبا سفر طے کرنا ہے۔ گوہر ابھی مڑنے والی تھی کہ اس ادھیڑ شخص سے پیچھے سے تیز رفتار سائیکل ٹکرائی تھی۔ اُن کے ہاتھوں سے تھیلے گر کے پھٹ گئے اور ان میں موجود سامان پوری سڑک پر بکھر گیا تھا۔ ٹکرانے والا کوئی ۱۴، ۱۵؍ سال کا لڑکا تھا جس نے ٹکر مارنے کے معذرت یا افسوس کرنا تو دور مڑ کر دیکھا تک نہیں۔ اُسی رفتار سے سائیکل بھگاتا ہوا آنکھ سے اوجھل ہوگیا۔ لوگوں نے سامان اٹھا کر دوسرے تھیلے میں ڈالا اور اُن کے حوالے کیا۔ لوگوں نے انہیں سڑک کنارے بینچ پر بٹھایا اُن کے ہاتھ میں چھوٹ ائی تھی۔ ذرا دیر میں لوگوں کا شکریہ ادا کرکے وہ پھر چل پڑے تھے اپنی منزل کی جانب۔ جاتے ہوئے اُنہوں نے ایک دفعہ مڑ کر فضا میں ہاتھ لہرایا تھا، دوسری جانب سے بھی سب نے ہاتھ ہلا کے الوداع کہا۔ 
 سردی بڑھ رہی تھی۔ اندھیرا گہرا ہورہا تھا۔ لوگوں نے اپنے اس پاس سے اندھیرے کو رخصت کر دیا تھا۔ ذرا دیر میں ہر سمت اُجالا ہی اُجالا تھا۔ کہیں دور سے اذان کی آواز سنائی دی تھی۔ گوہر نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی تو احساس ہوا کتنا وقت گزر گیا۔ تیز رفتاری سے قدم بڑھانے لگی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ اس چھوٹی سی زندگی میں کتنے بڑے بڑے حادثے ہوجاتے ہیں، کتنے حسین پل پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں، اس مختصر سی شام میں مَیں نے کیا کیا دیکھا۔ محبت، چاہت، عزت، شفقت، غیرت، انسانیت، ہے بسی، مجبوری اور سب سے بڑھ کے اُمید.... اُمید دیکھا مَیں نے۔ اور ذرا دیر میں اتنا وقت نکل گیا۔ اسی تیز رفتاری سے چلتے ہوئے اُس نے دو لائن گنگنائی تھی:
یہ جو زندگی کی کتاب ہے
یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK