اپنے حقیقی وجود کی تلاش کو بیان کرنے والی ایک خوبصورت تحریر۔
EPAPER
Updated: November 05, 2025, 5:13 PM IST | Naima Arshad | Balrampur, UP
اپنے حقیقی وجود کی تلاش کو بیان کرنے والی ایک خوبصورت تحریر۔
رات کے کسی گہرے لمحے میں، جب دنیا سوتی ہے،
ایک لڑکی جاگتی ہے آنکھیں کھلی، مگر خوابوں میں ڈوبی ہوئی۔
اسے لگتا ہے کہ اُسکے کمرے کی دیواریں سانس لے رہی ہیں،
اور چھت پر لٹکے ستارے آہستہ آہستہ قریب آ رہے ہیں۔
٭ ٭ ٭
وہ کسی عام دنیا کی لڑکی نہیں۔
اسے زمین کے رنگوں پر یقین نہیں رہا
اسے لگتا ہے سب کچھ مصنوعی ہے،
جیسے کسی نے زندگی کو ایک جھوٹے پردے کے پیچھے چھپا دیا ہو۔
٭ ٭ ٭
وہ خلاؤں سے عشق کرتی ہے۔
وہاں کی خاموشی میں اُسے سکون ملتا ہے،
جیسے وہاں وقت خود رُک جاتا ہو،
اور سب سوال اپنے معنی کھو دیتے ہوں۔
٭ ٭ ٭
دنیا کے ہجوم میں وہ اکیلی ہے۔
ہزاروں چہروں کے بیچ وہ اپنی ہی آواز تلاش کرتی ہے،
مگر وہ آواز کب کی خلا میں گم ہو چکی ہے۔
کبھی وہ اپنے آپ سے کہتی ہے
شاید میں ایک بھولے ہوئے خواب کا حصہ ہوں،
جو کسی اور کے ذہن میں دیکھا گیا تھا....
٭ ٭ ٭
اُس کے اندر طوفان ہے۔ احساسات، خیالات، خواب، خوف سب ایک دوسرے میں الجھے ہوئے۔
کبھی وہ ہنستی ہے، کبھی وہ روتی ہے بغیر کسی سبب کے۔
اور جب کوئی پوچھے، کیا ہوا؟ تو وہ صرف کہتی ہے،
کچھ نہیں.... بس خلا بول رہا تھا۔
٭ ٭ ٭
وہ حقیقت کی تلاش میں ہے۔
لیکن حقیقت اُس کے قریب آتے ہی دھند بن جاتی ہے۔
جیسے کوئی سچ اس دنیا کے سانچے میں رہ ہی نہیں سکتا۔
٭ ٭ ٭
کبھی وہ آئینے میں دیکھتی ہے تو چہرہ پہچان میں نہیں آتا۔
لگتا ہے جیسے کئی صدیوں کے بعد وہ خود کو دیکھ رہی ہو
ایک وجود، جو خود اپنے معنی کھو چکا ہو۔
٭ ٭ ٭
اور پھر ایک رات جب چاند اپنی پوری تنہائی میں آسمان پر تھا، اسے لگا کسی نے آہستہ سے پکارا ’’روحم.... وداع....‘‘
٭ ٭ ٭
وہ چونک گئی۔ یہ صدا باہر سے نہیں آئی تھی، یہ اندر سے اٹھی تھی۔
شاید اُس کی روح خود سے رخصت مانگ رہی تھی،
تھک کر، تڑپ کر، سچ کی تلاش میں جل کر لیکن یہ ایک ایسی صدا تھی جو آزادی کی صدا تھی.... کہ روح آزاد ہے وہ اسے مزید تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی....
٭ ٭ ٭
اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور آہستہ کہا
میں نہیں جاؤں گی.... ابھی نہیں....
مجھے سچ دیکھنا ہے، چاہے وہ مجھے توڑ دے۔
دنیا میں وقت ایک سیدھی لکیر کی طرح بہتا ہے،
مگر اُس کے اندر....
وقت ایک دائرہ ہے جو خود میں گھومتا رہتا ہے۔
٭ ٭ ٭
ہر لمحہ، اُس کے اندر ایک نئی لڑکی جنم لیتی ہے،
اور اگلے لمحے، وہ مر جاتی ہے۔
کبھی وہ خاموش اور متفکر ہوتی، کبھی دیوانی اور بے باک،
کبھی گہری اداسی میں ڈوبی، کبھی ہلکی سی مسکراہٹ میں بکھر جاتی۔
٭ ٭ ٭
وہ خود سے کہتی ہے:
میں ایک وجود نہیں، میں ہزاروں وجودوں کا مجموعہ ہوں۔
میرے اندر ہر سانس کے ساتھ کوئی نیا میں جاگتا ہے،
اور پرانا میں خاموشی سے مٹ جاتا ہے....
٭ ٭ ٭
یہ تغیر، یہ بے قراری اُسے تھکاتی بھی ہے اور جگاتی بھی۔
وہ سوچتی ہے، شاید یہی زندگی کی اصل صورت ہے،
کہ وجود کبھی مکمل نہیں ہوتا۔
وہ ہر لمحہ بنتا ہے، بگڑتا ہے، اور دوبارہ تخلیق پاتا ہے۔
٭ ٭ ٭
اُس رات، جب وہ آسمان کو تک رہی تھی
اچانک خلا میں ایک روشنی ابھری
کسی ستارے کی نہیں، بلکہ کسی وجود کی جھلک۔
ایک ایسا احساس، جو اُسے برسوں سے محسوس ہوتا تھا
مگر آج پہلی بار دکھائی دیا۔
٭ ٭ ٭
اُس نے آنکھیں بند کیں، اور روشنی اُس کے اندر اتر گئی
نرم، پرسکون، مگر عجیب حد تک مانوس۔
اُس نے اپنے دل میں ایک سرگوشی سنی
تو ہر لمحہ بدلتی ہے، کیونکہ تو جامد نہیں.... تو سفر ہے، تو خود وقت ہے۔
٭ ٭ ٭
وہ چونک گئی، اور بولا اُسے محسوس ہوا
وہ کوئی اور نہیں، اُس کا ہمزاد تھا۔
وہ وجود جو خلا کے اُس پار رہتا تھا،
جو ہر لمحہ بدلنے کے باوجود، اصل میں ہمیشہ وہی رہتا تھا۔
٭ ٭ ٭
اُسکے لبوں سے بے اختیار نکلا: کیا میں تم ہو؟ یا تم میں ہوں؟
اور جواب آیا: ہم ایک ہیں، مگر مختلف آئینوں میں بٹے ہوئے۔
تو زمین کا عکس ہے، میں خلا کی حقیقت۔ جب تُو خود کو پہچان لے گی تو آئینہ ٹوٹ جائیگا۔دُنیا کے لوگ اُسکے احساسات کو نہیں سمجھتے تھے۔ وہ باتیں، جو اُسکی زبان پر آتی تھیں، اُنکے کانوں تک پہنچیں تو معنی بدل جاتے۔ اُسکا درد لطیف لگتا اور عجیب، اسکی خوشی مختصر اور غلط سمجھ لی جاتی۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ جو محسوس کرتی ہے، جو سوچتی ہے، جو چاہتی ہے سب کو سچ کے روپ میں سمجھا جائے مگر لوگ عام فہم سانچوں میں باندھ کر ہی نپٹ جاتے۔
٭ ٭ ٭
یہ بات اُسے اندر سے کھائی جاتی۔ ہر روز وہ نیا الفاظ بگھارتی، نیا اظہار ڈھونڈتی، مگر الفاظ کا جال اکثر اس احساس کی گہرائی تک نہ پہنچ پاتا۔ اس کی کوششیں لوگوں میں گونج کر واپس آتیں، مگر وہی ماند، وہی جعل ِ رنگین۔ ایسے میں دل تڑپتا کاش ایک لمحہ آئے جب اُس کے احساسات کو بغیر تلخیص، بغیر سجاوٹ کے سچ مانا جائے!
٭ ٭ ٭
وہ جانتی تھی کہ اُسکے اندر جو کیفیتیں ہیں وہ اس صدی کے اندر بسنے والے عام احساسات سے بہت دور ہیں۔ اس کا رنگ اس دور کے شور و چمک سے میل نہیں کھاتا۔ لوگ جو دیکھتے، وہ بس شکل دیکھتے مگر اُسکے اندر ایک مکمل روشنی تھی.... مگر وہ روشنی یہاں کے پیرہن سے مختلف تھی۔ وہ ڈرتی تھی کہ کوئی اسے اپنے دائرے میں پھنسانے کی کوشش نہ کرے، کسی عرفی سنگھاسن پر بٹھا کر اُسکی حقیقت کا سیراب کر دے گا۔
٭ ٭ ٭
وہ اکثر چپ چاپ بیٹھ کر خالی آسمان کو دیکھتی، جہاں سیارے اُسکے گرد گھومتے محسوس ہوتے۔ اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے احساسات ایک الگ زبان بولتے ہیں زبانِ وقت سے پہلے کی، زبانِ خلا کی۔ اگر وہ بیاں کرے تو لوگ کہیں گے: یہ تصوّر ہے، یا پھر نفسیاتی الجھن۔ اور جب لوگ یہ طے کر لیں کہ اسے ایسا ہے یا یہ ویسا ہے تو اُس کی سچائی چھن جاتی۔
٭ ٭ ٭
پھر ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا سراپا چھپائے گی نہیں۔ اُس نے چھوٹے چھوٹے خطوط لکھنا شروع کئے نہ کہ کسی کو دینے کے لئے، بلکہ خود کو صاف دیکھنے کے لئے۔ وہ خطوط اُس کی صبح کا ضیاء، اُس کی رات کا خاموش سرگوشی تھے۔ کبھی وہ انہیں جلا دیتی، کبھی انہیں حوالہ تراب کر دیتی جیسے وہ محسوس کرنا چاہتی کہ اس دنیا کی ہوا بھی اُس کے جذبات کو کھینچ کر کہیں دور لے جائے۔
٭ ٭ ٭
اس کی تمنّا صرف اتنی تھی کہ کوئی لمحہ آئے جب اُس کے احساسات کو بغیر کسی تشریح کے قبول کیا جائے۔ وہ چاہتی تھی کہ کوئی دنیا میں مقیم انسان، عام آدمی، اپنے روزمرہ کے بیچ میں رک کر اُس کے اندر کی آواز سن لے، اور کہیں میں نے تمہاری زبان سنی، میں نے تمہارا درد سمجھا، تم سچ کہتی ہو۔ تب اُسے سکون ملتا اتنا سکون کہ شاید وہ خود کو دوبارہ پا لیتی۔
٭ ٭ ٭
لیکن سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ لوگ اسے اپنے دائرے میں شامل کرکے، اُس کی کیفیت کو اپنا بنا کر، اسکے اندرونی تنہائی کو سائیڈ میں ڈال دیں۔ وہ جانتی تھی کہ اسکی حساسیت کسی عام قبولیت کا شوق نہیں رکھتی یہ ایک ایسی روشنی تھی جو اپنے طور پر جلتی ہے اور اپنے انداز میں نظر آتی ہے۔ اگر اسے اپنایا جائیگا تو شاید وہ جل کر ماند پڑ جائیگی، یا پھر اسکی حرارت کو لوگ اپنی سرد دنیا میں میل کھانے کیلئے گھٹا دینگے۔
٭ ٭ ٭
روز بروز وہ بدلتی مگر ثابت قدم رہی۔ ہر ظاہری مٹنے کے بعد ایک نیا رنگ اُس میں ابھرتا مگر وہ رنگ کسی اور کے مطابق نہ تھا۔ اس نے اپنے آپ کو ایک کتاب کے صفحوں کی مانند جانا ہر صفحہ ایک لمحہ ہر لمحہ ایک وجود۔ وہ چاہتی تھی کہ لوگ یہ جان لیں کہ اُس کی ہم آہنگی اس کی حس اور اس کی روح حقیقی ہیں نہ کہ کسی دورِ صدی کے بیداری کا فریب۔
٭ ٭ ٭
کہانی ختم نہیں ہوتی۔ وہ بدلتی رہے گی، بکھرتی رہے گی، مگر اب وہ ڈرتی نہیں۔ اس نے اپنے اندر کا تحفظ قائم کر لیا یہ جان کر کہ جو محسوس ہے وہ حقیقی ہے، اور جسے وہ دنیا کے ہجوم میں سچ ماننے کیلئے چھوڑ دے، وہ اپنی اصل روشنی میں کم ہو جائیگا۔
٭ ٭ ٭
یہ مکتوب اُن سب کیلئے ہے جو اس دورِ رنگ و رنگینی میں اپنے اندر کی سچائی محسوس کرتے ہیں اور دنیا اُنہیں گھیر لیتی ہے۔ یہ کہانی ایک دعوت ہے رُکو، سنو، اور قبول کرو بغیر مارک اپ کے بغیر تلخیص کے کیونکہ بعض احساسات صرف محسوس کئے جانے کیلئے ہیں، اور جب سنا جاتا ہے تو وہ شفا بن جاتے ہیں۔
٭ ٭ ٭
وہ آج بھی کہیں بیٹھ کر آسمان کو دیکھتی ہے، ہر لحظہ بدلتی ہے، مگر اب وہ اپنی تبدیلی کو قبول کرتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کی کیفیت ایک عارضی نہیں، بلکہ ایک مستقل سفر ہے
وجودِ سرگَشتہ کی منزل وہی تلاش ہے جو خود کو پہچانے۔
٭ ٭ ٭
آج بھی اس کے اندر کے خلا سے صدا آتی ہے۔
روحم.... وداع....!