جس چیز کو اللہ رب العزت نے جس کام کے لئے بنایا ہے اُس کو اسی کام میں استعمال کرنا عقلمندی اور سعادت مندی کی بات ہے۔ اس چیز کا غلط اور بے موقع استعمال جہاں ایک طرف زیادتی ہے وہیں منشا ئے خداوندی سے روگردانی بھی ہے۔
EPAPER
Updated: January 29, 2021, 11:24 AM IST
|
Mudassir Ahmed Qasmi
جس چیز کو اللہ رب العزت نے جس کام کے لئے بنایا ہے اُس کو اسی کام میں استعمال کرنا عقلمندی اور سعادت مندی کی بات ہے۔ اس چیز کا غلط اور بے موقع استعمال جہاں ایک طرف زیادتی ہے وہیں منشا ئے خداوندی سے روگردانی بھی ہے۔ جس چیز کو اللہ رب العزت نے جس کام کے لئے بنایا ہے اُس کو اسی کام میں استعمال کرنا عقلمندی اور سعادت مندی کی بات ہے۔ اس چیز کا غلط اور بے موقع استعمال جہاں ایک طرف زیادتی ہے وہیں منشا ئے خداوندی سے روگردانی بھی ہے۔ اس کی بہت ساری مثالیں ہماری عملی زندگی میں پائی جاتی ہیں۔ زیر نظر مضمون میں ہم صرف دن اور رات کے مقاصد اور اُن کے صحیح اور غلط استعمال اور اُس سے مرتب ہونے والے اثرات پر گفتگو کریں گے ۔
ہم سب کو اس بات کا علم ہے کہ رات کو اللہ تعالیٰ نے سونے کے لئے بنایا ہے اور دن کو جاگنے اور کام کرنے کے لئے۔اس حوالے سے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید میں کئی مواقع پر فرماگیا ہے کہ رات کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آرام کیلئے پیدا فرمایا ہے۔ سورہ غافر کی آیت نمبر۶۱؍ میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے رات اِس غرض سے بنائی ہے کہ تم اس میں آرام کرو، اور دن کو روشن بنایا ہے، یقیناً اللہ کا انسانوں پر بڑا ہی فضل و کرم ہے؛ لیکن اکثر انسان شکر ادا نہیں کرتے ۔‘‘
آج سائنسی طور پر بھی یہ امر ثابت ہو چکا ہے کہ انسانی جسم کے اعضاء رات کے اوقات میں حالت سکون میں چلے جاتے ہیں اور اس دوران وہ زہریلے مادے خارج کرتے ہیں؛ اسی سبب سے ان اوقات میںسونا انسانی صحت کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے۔یہ بات بھی سائنسی اعتبار سے ثابت ہے کہ نیند کی کمی ہمارے جسم کے خلیوں کے کام کرنے کے طریقے کو بدل دیتی ہے۔ اس تمہید سے صحیح وقت میں بیدار ہونے اور مناسب وقت میں سونے کی اہمیت کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
آیاتِ قرآنی اور تحقیقات سے یہ طے ہوگیا کہ رات سونے کے لئے ہے۔ اب سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ کب سویاجائے تو اِ س حوالے سے احادیثِ نبویؐ سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ ہم رات میں کھانے پینے اور عشاء کی نماز ادا کرنے کے فوراً بعد سوجائیں۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث میں حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عشاء سے پہلے نہیں سوتے تھے اور عشا ء کے بعد بات نہیں کرتے تھے (یعنی فوراً سو جاتے تھے)۔ اسی طرح بخاری کی روایت کے مطابق نبی اکرمﷺ عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ اِن احادیث ِ پاک سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ہمیں کھا پی کر اور عشاء کی نماز پڑھ کر سوجانا چاہئے۔چونکہ یہ ہدایت فطرت کے عین مطابق ہے اسی وجہ سے دنیا کے تمام دانا اس کی تصدیق کرتے نظر آتے ہیں۔
رات میں سونے کے حوالے سے ہمیں ایک خاص نکتے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور حدیث ِ مبارک کی حکمت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ رات میں بات کرنے اور گپ شپ میں مشغول ہونے سے اِس لئے روکا گیا ہے تاکہ ہم فجر کی نماز کے لئے بروقت بیدار ہوسکیں اور دن میں انجام پانے والے کام کو صحیح ڈھنگ سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بستر پر جانے کے بعد بھی سوشل میڈیا کی دنیا میں الجھے رہتے ہیں اور دیر شب سوتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں اِس سے ضرور بچنا چاہئے؛کیونکہ رات میں دیر تک گپ شپ کرنے سے روکنے والی حدیث کی روشنی میں، اِس عمل کی ممانعت بھی ثابت ہوجائے گی کیونکہ نتائج کے اعتبار سے دونوں اعمال یکساں ہیں۔
یہاں اِ س نکتے کو واضح کرنا ضروری ہے کہ آج کے زمانے میں کچھ ایسے کام ہیں جو رات ہی میں انجام پاتے ہیں جو انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے ضروری بھی ہیں، اِن کاموں میں سے کارخانوں میں نائٹ شفت میں کام اور پرنٹ میڈیا کے کام بھی شامل ہیں۔اِس وجہ سے اِ ن لوگوں کے لئے شرعی رہنمائی یہ ہوگی کہ وہ اپنے کام کو اس طرح انجام دیں کہ وہ تمام ذاتی، خاندانی اور سماجی حقوق کو بھی ادا کرسکیں اور خدائی حقوق بھی کماحقہ پورے کر سکیں۔
تمام شرعی و انسانی ضروریات کی تکمیل کے بعد رات کو جلدی سو نا جس قدر اہم ہے ، اُسی قدر صبح جلدی اُٹھنا بھی اہم ہے اوریہ عمل بے شمار فوائد پر مشتمل ہے اور اگر اِس کے برخلاف دیر سے بیدار ہونے کا معمول ہو تو ناقابِل بیان نقصان کا سبب بھی ہے۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ’’میں صبح کے وقت سوئی تھی کہ رسول اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے اور آپؐ نے مجھے پاؤں سے ہلایا پھر فرمایا: بیٹی! اٹھو! اپنے رب کی طرف سے رزق کی تقسیم میں شامل ہو جاؤ اور غفلت شعار لوگوں کی عادت اختیار نہ کرو، اللہ تعالیٰ طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک لوگوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں۔‘‘ (شعب الایمان)
اِس حدیث سے جہاں جلدی بیدار ہونے کا فائدہ واضح ہے وہیں ایک دوسری حدیث سے، دیر سے بیدار ہونے کا نقصان عیاں ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: صبح کے وقت سوتے رہنے سے انسان رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔ (مسند احمد) اس حدیث کی روشنی میں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کہیں ہماری معاشی پریشانی کی وجہ ہمارا صبح دیر سے بیدار ہونا تو نہیں ہے!
خلاصہ یہ ہے کہ ایک صحت مند، کارآمد اور فیض رساں زندگی گزارنے کے لئے دن کو بیدار رہنے اور اپنے کام کے لئے استعمال کرناچاہئے اور رات سونے اورآرام کرنے کیلئے۔ اِس سے جہاں ہم دن اور رات کے فوائد سے بھر پور مستفیض ہونگے وہیں دونوں کے غلط استعمال سے بچ کر زیاتی کے مر تکب بھی نہیں ہوں گے۔ ایسا کر دیکھئے تاکہ اس کے فوائد کا حقیقی احساس ہو۔