ہم سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں رہتے تھے اور اساتذہ بھی اپنے اپنے شعبے کے طلبہ کو تقریر کی مشق کراتے تھے اور نئے نئے موضوعات پر تیاری کرانے کو اولیت دیتے تھے تاکہ ان کے شعبے کے طلبہ کو اولیت حاصل رہے۔
EPAPER
Updated: December 28, 2025, 12:01 PM IST | Professor Mushtaq Ahmed | Mumbai
ہم سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں رہتے تھے اور اساتذہ بھی اپنے اپنے شعبے کے طلبہ کو تقریر کی مشق کراتے تھے اور نئے نئے موضوعات پر تیاری کرانے کو اولیت دیتے تھے تاکہ ان کے شعبے کے طلبہ کو اولیت حاصل رہے۔
یادش بخیر!ہندی زبان وادب کے قد آور ہمہ جہت تخلیقی فنکار ونود کمار شکل کا نام پہلی بار میں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں کالج کی ماہانہ علمی وادبی نشست ’’ساہتیہ اور ساہتیہ کار‘‘ میں سنا تھا۔ ہمارے کالج میں شعبۂ اردو، ہندی، میتھلی، سنسکرت اور انگریزی کے زیر اہتمام ہر ماہ ایک مشترکہ علمی و ادبی نشست ہوتی تھی جس میں تمام شعبوں کے اساتذہ اور طلبا و طالبات شریک ہوتے تھے۔ آغاز میں اساتذہ ادب کی اہمیت وافادیت کے ساتھ ساتھ عصری ادب پر اظہار خیال فرماتے تھے پھر طلبا وطالبات کو اظہارِ خیال کا موقع دیا جاتا تھا۔ اس علمی وادبی نشست میں خصوصی طورپر نئی نئی کتابوں پر تبصرے کئے جاتے تھے۔ اس نشست کو غیر معمولی اہمیت بہ ایں معنی حاصل تھی کہ اس میں تمام شعبوں کے طلبہ کے درمیان مقابلہ جاتی و مسابقاتی ذہن پروان چڑھتا تھا۔ ہم سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں رہتے تھے اور اساتذہ بھی اپنے اپنے شعبے کے طلبہ کو تقریر کی مشق کراتے تھے اور نئے نئے موضوعات پر تیاری کرانے کو اولیت دیتے تھے تاکہ ان کے شعبے کے طلبہ کو اولیت حاصل رہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اسی نشست میں ہمارے ایک دوست رتنیش نے ونود کمار شکل کے ناول ’’نوکر کی قمیض‘‘ پر مضمون پڑھا اور سبھوں نے اسے پسند کیا۔ چوں کہ مجھے بھی ناول پڑھنے کا چسکہ لگا ہوا تھا اس لئے دوسرے ہی دن میں نے رتنیش جی سے وہ ناول حاصل کیا۔ اس کے مطالعہ سے احساس ہوا کہ موضوع اور معیار دونوں کے لحاظ سے یہ ایک بڑا ناول ہے۔ اس کے بعد ونود کمار شکل کی کئی کتابیں میرے مطالعے میں رہیں۔ البتہ ان سے بالمشافہ پہلی ملاقات ۱۹۸۵ء میں دہلی میں ہوئی۔ گزشتہ دنوں (۲۳؍ دسمبر ۲۰۲۵) کو جب یہ خبر ملی کہ گیان پیٹھ انعام یافتہ ہندی زبان و ادب کے ممتاز ادیب اور دانشور ونود کمار شکل آنجہانی ہوگئے ہیں تو یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ہمارے قومی میڈیامیں اس خبر کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو لازماً دی جانی چاہئے تھی۔ کیا اس کا سبب یہ ہے کہ اب ہمارے قومی میڈیا میں سچ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے؟
مختصریہ کہ اب ونود کمار شکل ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی تخلیقات جو نصف صدی کا آئینہ ہے وہ ہمارے لئے ایک بڑا علمی وادبی اثاثہ ہے۔ ان کے فکر وفن پر روشنی ڈالنے سے قبل یہ ضروری معلوم ہوتاہے کہ ہم سب سے پہلے ان کے ادبی سفر کا جائزہ لیں کہ ان کی ۲۵؍ سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ اگر ان کے ناولوں کی فہرست دیکھیں تو نوکر کی قمیض، کھلیں گے تو دیکھیں گے، دیوار میں ایک کھڑکی رہتی تھی (جس پر ۱۹۹۹ء میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا گیا تھا) ہری گھاس کی چھپّر والی جھوپڑی اور بونا پہاڑ، یاسی راساتا، ایک چُپّی جگہ ہندی ناولوں کی دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کے مجموعے پیڑ پر کمرہ، مہا ودیالیہ، ایک کہانی، گھوڑا اور انّیہ کہانیاں جدید ہندی کہانیوں کے لئے ایک نئی فضا قائم کرتے ہیں اور یہ انہی کا حصہ ہے۔
شاعری پر نگاہ ڈالیں تو ان کا پہلی مجموعہ ۱۹۷۱ء میں آیا تھا۔ اس کے بعد مسلسل ان کے شعری مجموعے شائع ہوتے رہے مثلاً ’’وہ آدمی چلا گیا نیا گرم کوٹ پہن کر وچاروں کی طرح، سب کچھ ہونا بچا رہے گا، اتیرکت نہیں، کویتا سے لمبی کویتا، آکاش دھرتی کو کھٹکتا ہے، پچاس کویتائیں، کبھی کے بعد ابھی اور کوی نے کہا کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے ہندی ادب میں نئی کویتائوں کو نئے موضوعات عطا کئے۔ معیار ووقار کے لحاظ سے بھی ان کی کویتائیں پوری ہندی دنیا میں تہلکہ مچانے والی ثابت ہوئیں۔ ۲۰۲۳ء میں انہیں جب گیان پیٹھ ایوارڈ دیا گیا تھا تب بی بی سی لندن ریڈیو پر ان کا ایک انٹرویو آیا تھا اور اس میں انہو ں نے یہ بات کہی تھی کہ ’’میں نے صرف لکھنے کا کام کیا اور میری تحریریں صرف عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمان رہی ہیں۔ ‘‘ بلا شبہ ان کے ناولوں، کہانیوں اور کویتائوں میں نصف صدی کا بدلتا اور سلگتا ہوا ہندوستان نظر آتا ہے۔ غرض کہ ان کی تخلیقات عصری حسیت کی آئینہ دار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ صرف ہندی والوں کیلئے نہیں بلکہ دیگر ہندوستانی زبانوں کے ادباء اور شعراء کے درمیان بھی ایک نئی آواز کے علمبردار کے طورپر نمایاں رہے۔
گزشتہ نصف صدی کے ادبی منظر نامے سے ظاہر ہے کہ ہندوستانی ادب کی تاریخ میں بعض ادیب ایسے ہیں جو شہرت، ہنگامہ اور نظریاتی نعروں سے دور رہتے ہوئے خاموشی کے ساتھ زبان، تجربے اور احساس کی نئی کائنات آباد کرتے ہیں۔ ونود کمار شکل اسی قبیل کے تخلیق کار ہیں۔ ہندی ادب میں ان کا شمار ان منفرد ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے روزمرہ زندگی، معمولی انسان، خاموش دکھ، اور غیرمرئی جبر کو نہایت سادہ مگر گہرے اسلوب میں پیش کیا۔ ۲۰۲۳ء میں انہیں گیان پیٹھ ایوارڈ سے نوازا جانا دراصل اس تخلیقی رویّے کی باضابطہ توثیق ہے جو برسوں سے ہندوستانی سماج کی تہوں میں پوشیدہ انسانی کرب کو زبان عطا کرتا رہا۔
اردو قارئین کیلئے ونود کمار شکل کی تخلیقات اس اعتبار سے بھی اہم ہیں کہ ان کا فکری اور فنی مزاج اردو کے جدید افسانے اور ناول، خصوصاًقرۃ العین حیدر، عصمت، منٹو، بیدی، انتظار حسین، کرشن چندراورمشرف عالم ذوقی کے بیانی مباحث سے کئی سطحوں پر ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ ونود کمار شکل کی پیدائش ۱۹۳۷ء میں ریاست چھتیس گڑھ (اُس وقت مدھیہ پردیش) میں ہوئی تھی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے معلم رہے اور ایک طویل مدت تک ایک درمیانی طبقے کے معمولی شہری کی حیثیت سے زندگی گزارتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیقات میں کسی بڑے انقلابی دعوے یا نظریاتی خطابت کے بجائے خاموش زندگی کی شاعری ملتی ہے۔ ان کا تخلیقی سفر شاعری سے شروع ہوا، مگر اصل شہرت انہیں ناول اور نثری نظم کے ذریعے ملی۔ ان کے ہاں زبان ایک فلسفیانہ آہنگ رکھتی ہے، مگر یہ فلسفہ کسی تجریدی نظام کے بجائے روزمرہ تجربے سے جنم لیتا ہے۔ ہندی ادب میں بیسویں صدی کے اواخر میں جن تخلیق کاروں نے بیانیہ ناول کو نئی سمت دی، ان میں ونود کمار شکل کا نام بہت اہم ہے۔ وہ نہ تو ترقی پسند تحریک کے کلاسیکی نمائندہ ہیں نہ ہی جدیدیت کے علامتی تجربہ کار۔ ان کا مقام ان دونوں کے بیچ ایک انفرادی اور خاموش بیانیے کا ہے۔ ان کے یہاں پلاٹ سے زیادہ فضا (Atmosphere) واقعہ سے زیادہ احساس اور کردار سے زیادہ انسانی کیفیت اہم ہے۔ یہی وصف ان کے دونوں اہم ناولوں ’’ نوکر کی قمیض‘‘ اور’’ دیوار میں ایک کھڑکی رہتی تھی ‘‘ کو اردو قاری کیلئے بھی قابلِ توجہ بناتا ہے۔ اول الذکر ایک علامتی بیانیہ ہے۔ یہ ناول ونود کمار شکل کا سب سے زیادہ زیرِ بحث آنے والا ناول ہے جو بظاہر ایک نہایت سادہ کہانی پر مشتمل ہے مگر ہندوستانی متوسط طبقے کی ذہنی غلامی، معاشی بے بسی اور شناخت کے بحران کا علامتی استعارہ ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایک ایسا شخص ہے جو زندگی کے ہر مرحلے میں کسی نہ کسی شکل میں نوکر ہے۔ دفتر میں، سماج میں، حتیٰ کہ اپنے خوابوں میں بھی۔ قمیض یہاں محض لباس نہیں بلکہ شناخت کی علامت ہے۔ اقتباس:
’’قمیض مجھے پہنائی نہیں گئی تھی، میں خود اس میں داخل ہو گیا تھا، اور پھر نکلنے کا راستہ بھول گیا۔ ‘‘
ناول کی زبان نہایت سادہ ہے، مگر اس سادگی میں ایک گہرا فلسفیانہ کرب پوشیدہ ہے۔ اس کی نثر اردو کے علامتی افسانے سے غیر معمولی مشابہت رکھتی ہے، مثلاً: ’’میں دفتر سے لوٹتا ہوں تو گھر بھی دفتر لگتا ہے اور نیند بھی ایک اضافی ڈیوٹی۔ ‘‘یہاں زندگی کو ایک مسلسل مشقت کے طور پر پیش کیا گیا ہےجہاں آرام بھی کام کا تسلسل ہے۔ ’’نوکر کی قمیض‘‘ کو اگر اُردو ناول نگاری کے تناظر میں دیکھا جائے تو کرشن چندر کے سماجی افسانوں اور انتظار حسین کے علامتی بیانیے کی یاد آتی ہے۔ تاہم ونود کمار شکلا کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ احتجاج نہیں کرتے، بلکہ خاموش قبولیت کے ذریعے سوال اٹھاتے ہیں۔