Inquilab Logo

حق رائے دہی :جمہوریت میں لڑائی کا ہتھیار اور مدافعت کی تدبیر ہے

Updated: October 27, 2023, 1:02 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

اس جمہوری عمل کو نہ صرف ایک قومی بلکہ ایک دینی فریضہ کے طور پر بھی دیکھنا چاہئے جس کے پیش نظر ہماری کوشش یہ ہو کہ صد فیصد مسلمانوں کے بلکہ تمام شہریوں کے نام ووٹر لسٹ میں درج ہو جائیں۔

Having and exercising the right to vote is the means by which you put the reins of government in the hands of good people. Photo: INN
ووٹ کا حق حاصل کرنا اور اس کا استعمال کرنا اس بات کا ذریعہ بنتا ہے کہ آپ اچھے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور سونپیں۔ تصویر:آئی این این

ووٹر لسٹ میں ناموں کے اندراج کا کام چل رہا ہے، جمہوری نظام میں ووٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ، اسی سے حکومتیں بدلتی ہیں ، اسی کے ذریعہ ہم اپنے ملک کے سربراہ منتخب کرتے ہیں ، پانچ سال کے لئے ان ہی سربراہوں کے ہاتھ میں وہ قلم ہوتا ہے، جس سے ہمارے بارے میں فیصلے کئے جاتے ہیں ، اور ہمارے سود و زیاں کا فیصلہ ہوتا ہے؛ اس لئے دستوری اعتبار سے بھی ہمیں اس حق کو استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اورملی وقومی مصالح و مفادات کے لئے بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔
 اگر ہم شرعی نقطۂ نظر سے غور کریں تو بعض اعمال کی حیثیت مقصود کی ہوتی ہے۔ قرآن وحدیث میں متعین طور پر ان کا حکم دیا گیا ہے، جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر۔ بعض اعمال مقصود نہیں ہوتے ہیں ، ان کی حیثیت ذریعہ اور وسیلہ کی ہوتی ہے، تو جو عمل جس بات کا ذریعہ ہو، جو حکم اس کا ہوگا، وہی حکم اس ذریعہ کا بھی ہے، جیسے چلنا ایک عمل ہے، اگر انسان اس لئے چلے کہ اسے نماز ادا کرنے کے لئے مسجد پہنچنا ہے، تو اس کا یہ چلنا بھی عبادت کے درجہ میں ہے اور اسے ہر قدم پر نیکی ملے گی۔ (مسلم، حدیث نمبر: ۶۵۴) اور اگر کوئی شخص شراب پینے کی نیت سے چلے اور اس کا قدم شراب خانہ کی طرف بڑھ رہا ہو، تو صرف اس کا شراب پینا ہی گناہ نہیں ہے؛ بلکہ شراب خانہ کی طرف جانا بھی گناہ ہے۔ جوں ہی وہ گھر سے شراب خانہ کی طرف شراب پینے کی نیت سے نکلا، اسی وقت سے گناہ کا عمل شروع ہو گیا؛ اس لئے جس عمل کے بارے میں شریعت میں جائز وناجائز یا پسندیدہ و ناپسندیدہ ہونے کا حکم صریحاً موجود نہیں ہو، دیکھنا چاہئے کہ وہ کس بات کا ذریعہ بنتا ہے، ایسی بات کا جو شریعت میں پسندیدہ ہے یا ایسی بات کا جو شرعاً ناپسندیدہ ہے؟
 ووٹ کا حق حاصل کرنا اور موقع پر اس حق کا استعمال کرنا اس بات کا ذریعہ بنتا ہے کہ آپ اچھے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور سونپیں ، اور برے لوگوں کو کرسی ٔ اقتدار سے دور رکھیں ، اور یہ ایک شرعی فریضہ ہے کہ جو شخص جس ذمہ داری کا اہل ہے اس کو وہ ذمہ داری سونپی جائے: ’’بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں ۔‘‘(النساء:۵۸) اور یہ بھی ضروری ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے، جس کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کو اس مقام پر پہنچنے نہ دیا جائے، جہاں وہ دوسروں کے ساتھ ظلم وناانصافی کا ارتکاب کر سکتا ہے:’’اور تم ایسے لوگوں کی طرف مت جھکنا جو ظلم کر رہے ہیں ۔‘‘ (ھود:۱۱۳) اس لئے مسلمانوں کو نہ صرف ایک قومی فریضہ؛ بلکہ ایک دینی فریضہ کی حیثیت سے بھی اس عمل کو دیکھنا چاہئے، اور کوشش کرنی چاہئے کہ صد فیصد مسلمانوں کے نام بلکہ تمام شہریوں ، خواہ وہ کسی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ، کے نام ووٹر لسٹ میں درج ہو جائیں۔
 ہندوستان میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فرقہ پرست اور مسلم مخالف طاقتوں نے چوطرفہ حملہ شروع کر دیا ہے، اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور کمزورکرنے کیلئے جتنے ہتھیار ہو سکتے ہیں وہ سب آزمائے جا رہے ہیں ، فسادات کرائے جاتے ہیں ، ہجوم کے ذریعہ قتل کی وارداتیں پیش آرہی ہیں ، ذرائع ابلاغ کو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کی اجازت دی گئی ہے؛ بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی جار ہی ہے، سوشل میڈیا کی ایک تربیت یافتہ فوج شب و روز جھوٹی خبریں پھیلانے کا کام کر رہی ہے، غرض مختلف جہتوں سے اسلام، مسلمان اور مسلم تاریخ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان سب کے پیچھے اصل میں جو طاقت کام کر رہی ہے، وہ ہے اقتدار کی طاقت، اور ہندوستان جیسے ملک میں طاقت کا سرچشمہ ووٹ ہے۔
 اللہ تعالیٰ کاا رشاد ہے:
 ’’ اور(اے مسلمانو!) ان کے مقابلہ جہاں تک ہو سکے، طاقت اور گھوڑوں کی تیاری رکھو، جن سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں پر بھی، جن کو تم نہیں جانتے، اللہ جانتے ہیں ،تمہاری دھاک قائم رہے اور جو بھی تم اللہ کے راستہ میں خرچ کروگے، تمہیں پورا پورا دیا جائے گا، اور تمہارے ساتھ حق تلفی نہیں ہوگی۔ (سورۃ انفال:۶۰)
 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دشمن طاقتوں کے مقابلہ کے لئے اپنی صلاحیت اور طاقت کے ذریعہ تیاری کا حکم دیا ہے، یہ بھی فرمایا گیا کہ یہ طاقت حاصل کرنا ظلم کے لئے نہیں ہونا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ اگر تم کو طاقت حاصل ہو جائے تو تم دوسروں پر ظلم ڈھانے لگو؛ بلکہ یہ اس لئے ہو کہ ان پر تمہارا رعب طاری رہے، ان میں یہ جرأت نہ ہو کہ وہ تم پر یا دوسرے بے قصور لوگوں پر ظلم کریں ۔
  تیسری بات یہ فرمائی کہ تمہارے کچھ دشمن کھلے ہوئے ہیں ، جو علانیہ طور پر تمہارے خلاف کام کر رہے ہیں ، کچھ ایسے دشمن بھی ہیں جو آستین کے سانپ ہیں ، جن کی عداوت اور منصوبہ بندی تمہارے سامنے نہیں ہے، تم انہیں نہیں جانتے، اللہ ان کو جانتا ہے۔ دفاع کی تیاری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی فضیلت بھی بیان کی ہے کہ جو کچھ اللہ کے راستہ میں خرچ کروگے، اللہ تعالیٰ تمہاری طرف اس کو لوٹائیں گے، یعنی اس کا اجرعطا کریں گے۔(انفال: ۶۰)
 اب اگر اس آیت کی روشنی میں غور کریں اور اسے اپنے ملک کے حالات پر منطبق کریں تو جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں دشمن سے مقابلہ اور اس سے مدافعت کا سب سے بڑا ہتھیار حق رائے دہی ہے۔ ایک جمہوری نظام میں دفاع کاہتھیار حاصل کرنے اور اس کو محفوظ کرنے کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنا نام ووٹر لسٹ میں درج کرائیں کہ ووٹ ہی ہمارا ہتھیار ہے۔
 پھر اسی ارشاد سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ طاقت کا حاصل کرنا اور اس کا استعمال کرنا صرف ظلم سے بچنے کے لئے جائز ہے، ظلم کرنے کے لئے جائز نہیں ہے، مثلاً اگر کسی خطہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہو اور وہاں مسلم ووٹوں سے مسلم نمائندہ منتخب ہو جائے تو اس کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے حلقہ میں بسنے والے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کا سلوک کرے۔ اگر اس نے ایساکیا تو نہ صرف ملک کے قانون؛ بلکہ شریعت کی رُو سے بھی اس کا یہ عمل درست نہیں ہوگا۔ تیسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ دفاع کی جو بھی جدوجہد ہو، اس میں پیسہ خرچ کرنا باعث اجرو ثواب ہے۔ ووٹر لسٹ میں ناموں کے اندراج کی جو مہم چلائی جائے، اس میں مالی وسائل کی بھی ضرورت پیش آئے گی؛ تاکہ اس کام کیلئے کچھ فعال لوگوں کی خدمات حاصل کی جائیں ، اس میں خرچ کرنا بھی کار ثواب ہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک طرح کا جہاد ہے۔ جہاد، میدان جنگ میں تلوار چلانے کا ہی نام نہیں ہے؛ بلکہ زبان سے بھی ہوتا ہے، اگر ظالم کے خلاف زبان کھولی جائے اور ماحول سے خوف زدہ ہوئے بغیر ظالم کو ظالم کہا جائے تو یہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے؛ بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات کو سب سے افضل قرار دیا ہے کہ ظالم کے سامنے حق بات کہی جائے۔(مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۱۱۴۳) اسی طرح جہاد مال سے بھی ہوتا ہے: (نساء: ۹۵ ) کہ ظلم کو روکنے اور انصاف قائم کرنے کیلئے مال خرچ کیا جائے، پس ایک جمہوری ملک میں ووٹ کا حق حاصل کرنا اور اچھے امیدوار کے حق میں ووٹ دینا ظالم کے خلاف اس کا استعمال کرنے کے مترادف ہے۔
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ظلم کو روکنے، ظالم کا مقابلہ کرنے اور اپنا تحفظ کرنے کیلئے ممکن وسائل سے استفادہ فرمایا ہے۔مکہ میں اسلام سے پہلے قبائلی نظام قائم تھا، نہ کوئی حکومت تھی، نہ عدالت اور نہ کوئی قانون، ہر قبیلہ اپنے قبیلہ کی حفاظت کیا کرتا تھا، ظاہر ہے یہ مزاج کہ صرف ہم قبیلہ ہونے کی بنیاد پر کسی شخص کی حمایت کی جائے اور دوسرے کی مخالفت، اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہے؛ لیکن مکہ کے حالات کی بنیاد پر آپ ﷺنے اسے قبول فرمایا، اور قدیم نظام کے مطابق بنو ہاشم اور بنو مطلب نے آپؐ کی حفاظت فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت سے پہلے جب دشمنان اسلام نے نعوذ باللہ آپ ؐکے قتل کا منصوبہ بنایا تو طے کیا کہ اس ناشائستہ کام میں ہر قبیلہ کا نمائندہ شریک ہو؛ تاکہ بنو ہاشم بدلہ نہ لے سکیں ، یہاں تک کہ جب اہل مکہ نے حضورؐ کا معاشرتی مقاطعہ (شعب ابی طالب) کیا تو بنو ہاشم بھی اس بائیکاٹ میں آپؐ کے شریک اور پشت پناہ رہے۔
  حفاظت اور دفاع کیلئے جسمانی طاقت کا استعمال ضروری نہیں ، کوئی بھی ایسی طاقت جس سے مقصود حاصل ہو جائے، خواہ مادی طاقت ہو یا معنوی، یہ سب دفاع کی تیاری میں شامل ہے، اور موقع کے لحاظ سے ان کا استعمال کرنا اسلام میں مطلوب ہے۔ عربوں کے یہاں اشعار کسی بات کو پھیلانے اور پہنچانے کا بہت مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی ترجمانی اور دفاع کیلئے اس سے بھی فائدہ اُٹھایا ہے۔ بامقصد اشعار کہنے والے شعراء کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ اللہ حضرت حسانؓ کے لئے مسجد میں منبر رکھواتے تھے اور وہ منبر پر کھڑے ہو کر آپؐ کی طرف سے دفاع کے اشعار پڑھا کرتے تھے۔ حضورؐ ان کے بارے میں فرماتے تھے، اللہ روح القدس کے ذریعہ حسان کی مدد فرماتے ہیں ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی الشعر: ۴؍ ۳۰۴) حالانکہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی نظر میں منبر نبویؐ کا ایسا تقدس تھا کہ آپؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی ان کو منبر پر قدم رکھنے میں تامل ہوتا تھا۔ 
 غرض ہر دور میں اس دور کے لحاظ سے دشمن سے مقابلہ کا ہتھیار ہوا کرتا ہے۔ جمہوری نظام میں کسی قوم کا حق رائے دہی حاصل کرنا بھی ایک جہاد ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ آسام میں لاکھوں مسلمانوں کے نام ووٹر لسٹ سے نکال دیئے گئے ہیں ، اور انہیں بغیر دلیل و ثبوت کے غیر ملکی قرار دیا جا رہاہے ، ملک کے مختلف علاقوں کی ووٹر لسٹ سے مسلمانوں کے نام غائب ہیں ، اس لئے اس وقت تمام انصاف پسند ہندوستانیوں اور مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس مسئلہ پر توجہ دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی نام ووٹر لسٹ میں آنے سے رہ نہ جائے ، یہ جمہوریت میں غیر منصفانہ حکومتوں سے لڑائی کا ہتھیار اور اپنی مدافعت کی سب سے مؤثر تدبیر ہے !

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK