پچھلے دو سال میں سب سے زیادہ نقصان فلسطین، یوکرین اور کانگو میں ہوا۔ ہر ملک میں سیکڑوں اسکولوں کو لوٹا گیا، جلایا گیا یا کسی دوسرے انداز میں ہدف بنایا گیا۔
EPAPER
Updated: May 11, 2025, 11:56 AM IST | Mumbai
پچھلے دو سال میں سب سے زیادہ نقصان فلسطین، یوکرین اور کانگو میں ہوا۔ ہر ملک میں سیکڑوں اسکولوں کو لوٹا گیا، جلایا گیا یا کسی دوسرے انداز میں ہدف بنایا گیا۔
کل تک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان شدید نوعیت کی کشیدگی پائی جارہی تھی۔ اسلام آبادکی جانب سے مذاکرات کا پیغام دیا ضرور گیا تھا مگر ہوتا یہ ہے کہ جب کشیدگی میں شدت آجاتی ہے تب مذاکرات پر آمادگی کا پیغام اپنی معنویت کھو دیتا ہے۔ مذاکرات اُنہی فریقین میں ہوتے ہیں جن میں کسی نہ کسی سطح پر اعتماد ہو۔ چونکہ اعتمادپارہ پارہ کر دیا گیا تھا (پہلگام سانحہ کے ذریعہ) اور کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی تھی اس لئے مذکرات کا امکان بظاہر معدوم ہوتھا مگر کل شام ہونے ہونے تک جنگ بندی کا اعلان ہوا جو ایک اہم واقعہ ہے۔
اسے پاکستانی اہل اقتدار کی، اپنی سرزمین سےہونے والی دہشت گردی سے چشم پوشی کا نتیجہ کہنا چاہئے کہ ایسے حالات پیدا ہوئے تھے، اس کے باوجود ہم اُمید کررہے تھے کہ اسلام آباد کی جانب سے ٹھوس تجاویز پیش ہوں گی تاکہ اتنا اعتماد بن سکے کہ گفتگو یا مذاکرات بامعنی ہوں۔ چونکہ ہندوستان کا منصوبہ دہشت گردی کے مراکز کو ہدف بنانا تھا اس لئے حملوں کو ’’ہدف بند‘‘ (Focussed) رکھا گیا لہٰذا یہ خطرہ پہلے دن سے نہیں تھا کہ مکمل جنگ جیسے حالات پیدا ہوں گے۔ اسی لئے یہ اندیشہ بھی نہیں تھا کہ اس سے دو ملکوں کا نظام تعلیم متاثر ہوگا مگر جب بھی جنگ یا جنگ جیسے حالات پیدا ہوتے ہیں، دیگر شعبہ جات کے علاوہ شعبۂ تعلیم بھی محفوظ نہیں رہتا۔ دُنیا میں جہاں جہاں بھی جنگ یا مسلح گروہی تصادم ہواہے وہاں وہاں طلبہ کی تعلیم بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔
ایک ادارہ ہے ’’گلوبل کولیشن ٹو پروٹیکٹ ایجوکیشن فرام اٹیک‘‘ (جی سی پی ای اے)۔ اس نے ۲۰۲۲ء اور ۲۰۲۳ء کے دوران متاثرہ ملکوں کےنظام تعلیم کا جائزہ لینے کے بعد ’’ایجوکیشن انڈر اَٹیک ۲۰۲۴ء‘‘ کے عنوان سے اپنی جو رپورٹ جاری کی تھی اُس میں بتایا تھا کہ مذکورہ دو سال میں شعبۂ تعلیم پر ۶؍ ہزار حملے ہوئے جن کے نتیجے میں ۱۰؍ ہزار طلبہ، اساتذہ اور تعلیم و تدریس سے وابستہ دیگر افراد یا تو فوت یا زخمی ہوئے یا اُنہیں کسی نہ کسی سطح پر نقصان پہنچا۔
پچھلے دو سال میں سب سے زیادہ نقصان فلسطین، یوکرین اور کانگو میں ہوا۔ ہر ملک میں سیکڑوں اسکولوں کو لوٹا گیا، جلایا گیا یا کسی دوسرے انداز میں ہدف بنایا گیا۔ سوڈان، شام (سیریا) اور یوکرین و فلسطین میں تعلیم گاہوں پر حملوں میں اضافہ ہوا جبکہ مذکورہ دو سال میں لبییا، مالی اور موزمبیق میں حملوں میں کمی آئی۔ جی سی پی ای اے کی ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر چنگ بیندر کا کہنا ہے کہ غزہ جیسے علاقوں میں بلاشبہ بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا مگر شعبۂ تعلیم بھی غیر معمولی طور پر متاثر ہوا۔ تعلیم و تدریس کا تعلق براہ راست نئی نسل کے مستقبل سے ہوتا ہے اور نئی نسل کے افراد کا تعلیم و تربیت سے آراستہ ہونا اسلئے ضروری ہے کہ مستقبل کی دُنیا محفوظ و مامون رہے، ترقی کرے، انسانی قدروں کی حفاظت ہو اور امن و آشتی کا دور دورہ ہو۔ تعلیم سے ان سب کی ضمانت ملتی ہے لہٰذا شعبۂ تعلیم کا بہر قیمت محفوظ ہونا ضروری ہے۔ اسے عاقبت نااندیشی ہی کہا جائے گا کہ قومی، بین الاقوامی اور عالمی سطح پر بعض عناصرنہ تو امن وآشتی کی فکر کرتے ہیں نہ ہی نئی نسل کے مستقبل کی۔ ان کے پیش نظر فوری مفادات ہوتے ہیں یا انہیں آلۂ کار بننا ہی آتا ہے۔ خدا کرے کہ شعبۂ تعلیم پر ایسے عناصر کا سایہ بھی نہ پڑے اور نئی نسل بہترین تعلیم سے آراستہ ہو۔