اُردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار کے قلم سے ایک خوبصورت کہانی۔
EPAPER
Updated: July 19, 2025, 4:07 PM IST | Ratan Singh | Mumbai
اُردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار کے قلم سے ایک خوبصورت کہانی۔
کچھ دنوں کے لئے لندن سے مہمان آئی ہوئی ایک ہندوستانی خاتون سے مَیں نے پوچھا تھا کہ کیا اسے کوئی ایسا انگریز ملا ہے جو ۱۹۴۷ء سے پہلے ہندوستان میں رہتا تھا۔
میرا سوال سُن کر وہ کچھ دیر سوچتی رہی۔
پھر اس نے مجھے ایک واقعہ سنایا۔
وہ کہنے لگی:
آزادی سے پہلے جالندھر میں ایک خونخوار قسم کا انگریز کمشنر ہوا کرتا تھا جس کی صورت سے ہی لوگ بیزار رہا کرتے تھے۔
’’جون رائٹ.... نا بابا نا.... اس کے پاس نہیں جائیں گے۔‘‘ بڑے بڑے ہندوستانی افسر، سیٹھ ساہوکار سب اس کے نام سے گھبراتے تھے۔ وہ اپنی عالیشان کوٹھی کے کھلے چوڑے ہرے بھرے لان میں چھتری کے نیچے بیٹھا رہتا۔ اس کے ہاتھ میں کتّے کی زنجیر رہتی تھی۔ کتّا بھی ایسا کہ اس سے بھی زیادہ ڈراؤنا۔ اپنے کالے منہ سے لال لال زبان نکالے جب وہ لمبے لمبے سانس لیتا تو ایسا لگتا جیسے ناگ پھنکاریں مار رہا ہو۔ لال انگاروں کی طرح دہکتی ہوئی آنکھوں سے وہ چاروں طرف چوکنا ہو کر دیکھتا رہتا۔ اس کے صاحب کے علاوہ بس ایک کشن سنگھ چپراسی ہی تھا جو اس کتّے کو سنبھال سکتا تھا۔ اس لئے جہاں جون رائٹ اور کتّا ہوتے، وہاں پر کشن سنگھ کا ہونا لازمی تھا۔ بس یوں کہہ لیجئے کہ ایک طرف جون رائٹ کے پاس کتّے کی دُم ہلتی رہتی، اور دوسری طرف کشن سنگھ بھی باادب ملاحظہ ہوشیار کی کیفیت میں دَم سادھے بُت بنا کھڑا رہتا۔
اوّل تو اپنے فرض میں کشن سنگھ سے کبھی کوتاہی نہیں ہوتی تھی اور اگر کبھی بھول چوک ہو بھی جاتی تو صاحب کتّے کی زنجیر ذرا سی ڈھیلی کر دیتے اور اپنے پاؤں پر ناگ کی پھنکاروں سی گرم گرم سانس پڑتے ہی اسے اپنا فرض یاد آجاتا۔ اِس کتّے سے صاحب ایک اور کام بھی لیتے تھے۔ جب کبھی اپنے ملاقاتی پر یہ ظاہر کرنا چاہتے کہ ملاقات کا وقت ختم ہوگیا ہے، یا وہ اس کی مزید بکواس سننے کو تیار نہیں ہیں تو بھی وہ کتّے کی زنجیر کو ذرا سا ڈھیلا کر دیتے۔ ٹامی کو نزدیک آتے دیکھ کر ملاقاتی جان بچا کر بھاگنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے تھے۔
یہی جون رائٹ جب ہندوستان سے جانے لگا تو کشن سنگھ سے اپنی محبّت کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف اپنا ٹامی اس کو دے گیا بلکہ اسے اپنا پتہ بھی دے گیا کہ وہ ٹامی کے بارے میں اسے کبھی کبھی خط لکھتا رہے۔
’’آپ کا پتہ سرکار ہمارے بڑے کام آئیگا۔ میں کبھی انگلینڈ آیا تو آپ سے ملنے ضرور آؤں گا۔‘‘
’’ہاں ہاں ضرور آنا۔‘‘ جون رائٹ نے کہا تھا اور دل ہی دل میں سوچا تھا، یہ کشن سنگھ! معمولی چپراسی، یہ بھلا انگلینڈ کیسے آسکتا ہے؟ کبھی نہیں آئے گا یہ!
لیکن کشن سنگھ واقعی انگلینڈ پہنچ گیا۔ ہوا یہ کہ اس کے دونوں لڑکے جوان ہوئے تو روزی روٹی کی تلاش میں وہ لندن میں جا کر بس گئے۔ پانچ سات برسوں میں ان کے پاؤں بھی وہاں جم گئے اور چار پیسے بھی جمع ہوگئے تو انہوں نے بوڑھے ماں باپ کو بھی وہاں بلوا لیا۔
بوڑھا کشن سنگھ جب انگلینڈ کے ماحول سے اچھی طرح مانوس ہوگیا تو ایک دن بڑھیا سوٹ پہن کر اپنے پرانے صاحب سے ملنے کے لئے پہنچ گیا۔
بڑا ہی معمولی سا گھر تھا۔ برآمدے میں ایک بوڑھا انگریز معمولی سے کپڑے پہنے اخبار پڑھ رہا تھا۔ کشن سنگھ نے سوچا۔ صاحب کا نوکر ہوگا۔ اس نے قریب جا کر کہا،
’’مجھے جون رائٹ صاحب سے ملنا ہے۔‘‘
اپنا نام سُن کر بوڑھے نے سَر اٹھایا تو کشن سنگھ کو پہچاننے میں دیر نہ لگی۔ وہ خود جون رائٹ تھا۔
’’کشن سنگھ تم! انگلینڈ کب آیا؟‘‘ پھر اس نے کشن سنگھ کی طرف یوں دیکھا جیسے اُسے بڑھیا سوٹ میں دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی ہو اور تسلی کر لینا چاہتا ہو کہ وہ کشن سنگھ ہی ہے یا کوئی اور....
’’صاحب! ہم نے ٹامی کی قبر پر کراس گاڑ دیا تھا۔‘‘ کشن سنگھ کے پاس کہنے کے لئے کچھ اور تھا بھی نہیں۔
’’ویل.... ویل! بہت اچھا کیا۔ بہت اچھا کیا۔‘‘ کشن سنگھ کو بیٹھنے کے لئے اس نے اب تک نہیں کہا تھا۔ پھر جیسے اسے کچھ یاد آیا تو وہ ضروری کام سے کمرے کے اندر چلا گیا۔
کشن سنگھ اپنی پُرانی عادت کے مطابق زمین پر بیٹھنے ہی والا تھا مگر پھر ہمت کرکے دوسری والی کرسی پر جھجکتے جھجکتے بیٹھ گیا۔
جون باہر آیا تو کشن سنگھ کو اپنی برابر والی کرسی پر بیٹھا دیکھ کر اس کے اندر غصہ عود کر آیا۔ اسی وقت کشن سنگھ کے منہ سے نکل گیا:
’’صاحب! آپ وہی اووَر کوٹ پہنے ہیں نا جو جالندھر میں پہنا کرتے تھے؟‘‘
کشن سنگھ نے یہ بات صاحب سے اپنی پُرانی قربت ظاہر کرنے کے لئے کہی تھی۔
’’ہاں ہاں وہی ہے۔‘‘ جون رائٹ سمجھا جیسے کشن سنگھ نے اس چِڑانے کے لئے ایسا کہا ہو۔ اس لئے اس کا غصہ اور بھڑک اٹھا۔ وہ سوچنے لگا۔ اگر کشن سنگھ نے انڈیا جا کر میری حالت کا ذکر کیا تو بڑی بھد ہوگی۔
وہ کچھ دیر اندر ہی اندر کھولتا رہا۔ پھر اٹھ کر برآمدے میں ٹہلنے لگا۔ ایسے ہی جیسے وہ جالندھر میں خونخوار ٹامی کو ساتھ لئے لان میں ٹہلا کرتا تھا۔ پھر پتہ نہیں کیا سوچ کر اندر گیا اور باہر آتے ہی کشن سنگھ کی کنپٹی پر پستول رکھ دیا اور غصے میں کانپتا ہوا چلّایا: ’’بلڈی! ام تم کو اس لئے گولی مار رہا ہے کہ انڈیا میں جا کر تم کسی کو یہ نہ بتا سکو کہ ام یہاں اس حال میں رہ رہا ہے۔‘‘
کشن سنگھ کے کاٹو تو خون نہیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ٹامی کی لال لال دہکتی آنکھیں موت کا پیغام بن کر تھرکنے لگیں۔
’’ہم کسی کو نہیں بتائیگا سَر۔ ہم کو نہ مارو سَر۔‘‘
’’نہیں ام تم کو زندہ نہیں چھوڑنے سکتا۔‘‘
تبھی جون رائٹ نے دیکھا کہ کسی نے اس کے ہاتھ کو مروڑ کر اس کے پستول کا رُخ اسی کی طرف کر دیا ہے۔
’’یہ جالندھر میں تمہاری کوٹھی کا لان نہیں ہے مسٹر جون رائٹ، جہاں تم اپنے ٹامی کی مدد سے دُنیا بھر کے لئے ہوّا بنے رہتے تھے۔‘‘
یہ کشن سنگھ کی بیوی تھی جو اپنی مارکیٹنگ کا کام ختم کرکے کشن سنگھ کو واپس لینے کے لئے آئی تھی۔ اس نے اپنے پتی کی جان بچانے کے لئے جون رائٹ کے پستول والے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں جکڑ لیا تھا۔
جب کشن سنگھ اور اس کی بیوی واپس کار میں آکر بیٹھے تو جون رائٹ اپنے برآمدے کی کرسی پر بیٹھا ہانپ رہا تھا اور پھٹی پھٹی نظروں سے ان دونوں کو کار میں جاتے دیکھ رہا تھا۔ اس میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ برآمدے کے کونے میں پڑے اپنے پستول کو اٹھائے جو مرے ہوئے ٹامی کی طرح خاموش پڑا تھا۔
کشن سنگھ کی بیوی کو بھی کار چلانے میں دقت ہو رہی تھی۔ ہاتھا پائی میں چوٹ لگنے کی وجہ سے اسکے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی بڑا درد کر رہی تھی۔ اس میں فریکچر ہوگیا تھا جو بعد میں پلاسٹر لگانے سے ٹھیک تو ہوگیا لیکن وہ انگلی تھوڑی ٹیڑھی ہوگئی۔
وہ مہمان عورت جب اپنی کہانی کے اختتام پر پہنچی تو مجھے تعجب ہوا کہ اس عورت کو یہ واقعہ اتنی تفصیلات کے ساتھ کیسے یاد ہے؟
تبھی میری نظر اس کے دائیں ہاتھ والے انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کی طرف گئی۔ وہ ٹیڑھی تھی اور اس پر چوٹ کا نشان صاف دکھائی دے رہا تھا۔