Inquilab Logo Happiest Places to Work

روٹیوں کا جلسہ

Updated: July 26, 2025, 4:06 PM IST | Mumbai

اس کہانی میں اناج کی الگ الگ قسموں کا درد بیان کیا گیا ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

سعید بھاگا بھاگا آرہا تھا کہ ٹھوکر لگی۔ اڑا ڑا دھم ایسا گرا کہ ماتھے سے خون بہنے لگا۔ ماں بیچاری باورچی خانے میں تھی۔ روٹی توے پر چھوڑ گھبرا کر اسے اُٹھانے بھاگی۔ روٹی کو یہ بے پروائی بُری لگی۔ غصے کے مارے پھول کر کپا ہوگئی اور توے سے انگاروں پر آپڑی۔ اب تو اس کا بدن اور بھی جلنے لگا، اِدھر کروٹ لیتی، اُدھر کروٹ لیتی، کسی کل چین نہ آتا۔ آخر جل بھن کر اس نے یہ طے کیا کہ ایسے بے پروا آقا کی غلامی سے نجات حاصل کرنی چاہئے۔ لڑھکتی لڑھکتی کھڑکی پہ چڑھ باہر گلی میں کود پڑی۔ وہاں پہنچ کر پہلے تو اس نے آزادی کا ایک لمبا سانس لیا پھر زور کا نعرہ لگایا:
 ’انقلاب زندہ باد، بھائیو! اور بہنو! آج تم اپنی آزادی کے لئے ہڑتال کر دو۔ آج ہمارا جلوس نکلے گا اور شام کو آزاد پارک میں جلسہ ہوگا۔‘‘ یہ آواز سنتے ہی آس پاس کے گھروں سے باجرے، جو، جوار، مکّا کی روٹیاں، گیہوں کی چپاتیاں، روغنی اور خستہ پھلکیاں سب ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتی نکل کھڑی ہوئیں۔ اس طرح روٹیوں کا جلوس روانہ ہوا۔ آگے آگے جلی روٹی بڑا سا جھنڈا لئے نعرہ لگاتی جا رہی تھی۔ راستے میں ایک حلوائی دکان پر کڑھاؤ چڑھا رہا تھا۔ پوریاں، کچوریاں تلی جا رہی تھیں۔ روٹیوں کا جلوس دیکھ کر وہ بھی کڑھاؤ اور تھال سے کود کر اس میں آ شامل ہوئیں۔ اس کے بعد یہ جلوس ایک باورچی کی دکان کے سامنے پہنچا۔ وہاں نان، باقر خانی، کلچہ اور پراٹھے پلیٹوں میں بیٹھے آرام کر رہے تھے۔ جلوس نے وہاں پہنچ کر نعرہ لگایا: ’’پراٹھے مہاراج کی جے!‘‘
 کلچے اور نان تو پہلے ہی جلوس میں شریک ہوگئے تھے۔ اب پراٹھے مہاراج بھی اُترے اور سب سے جا ملے۔ مگر باقر خانی نے منہ پھیر لیا اور وہیں پلیٹ میں بیٹھی رہی۔ راستے میں کچھ ڈبل روٹیاں آکر شریک ہوگئیں اور جلوس سارے شہر کا چکر لگاتار آزاد پارک میں پہنچا بسکٹ بھی تماشا دیکھنے کے لئے ساتھ ہو لئے اور پھر جلسے کی کارروائی شروع ہوئی۔ پراٹھے مہاراج صدر چنے گئے۔ سب سے پہلے ایک خستہ ٹکیا نے روٹیوں کا قومی ترانہ گایا اس کے بعد جلی روٹی تقریر کے لئے کھڑی ہوئی:
 ’’صدر صاحب! بھائیو اور بہنو! اب وقت آگیا ہے کہ ہماری قوم بھی گہری نیند سے جاگے اور انسان کے مظالم سے نجات پانے کی ترکیب سوچے۔ انسان کے ظلم آپ کے سامنے کہاں تک گِناؤں۔ وہ ہمیں چین ہی کب لینے دیتا ہے۔ آپ شروع سے لیجئے۔ سب سے پہلے تو کسان ہمارے دانے سڑی ہوئی کھاد اور کوڑا ملی مٹی میں دفن کرتا ہے۔ اوپر سے ٹھنڈا ٹھنڈا پانی ڈالنا شروع کرتا ہے۔ چند دن میں ہمارے دانے کا پیٹ پھٹ جاتا ہے۔ اور اس میں سے ایک کلا پھوٹ آتا ہے۔ یہ کلا کچھ دنوں میں بڑا سا پودا ہو جاتا ہے۔ اور اس میں دانوں کی بہت سی بالیں اُگ آتی ہیں۔ پکنے پر یہ بالیاں توڑ کر اس میں سے دانے نکال لئے جاتے ہیں۔ پھر کسان بیلوں کو ہم پر چھوڑ دیتا ہے۔ وہ اپنے پاؤں سے بُری طرح ہمیں روندتے ہیں۔ اس سے دانوں کا بھوسے کا لباس اُتر جاتا ہے۔ اور وہ ننگے ہوجاتے ہیں۔ پھر دانوں کو بورے میں بند کر دیتے ہیں۔ اُف! اس بورے میں کیسی گرمی ہوتی ہے کہ دم گھٹتا جاتا ہے۔ یہ بورے گاڑیوں پر لادے جاتے ہیں اور کسان ہمیں بازار میں بنیے کے ہاتھ بیچ آتا ہے۔ یہاں سے لوگ تھوڑا تھوڑا کرکے ہمیں اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ اس کے بعد کا قصہ ایسا درد ناک ہے کہ سُن کر تمہارے آنسو نکل آئیں گے۔ انسان ہمیں یہاں بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔ وہ ہمیں لے جا کر چکّی میں پسواتا ہے۔ جس میں ہماری ہڈی پسلی ایک ہوجاتی ہے اور ہم آٹا بن جاتے ہیں۔ اب وہ ہمیں اپنے مٹکوں میں بھر لیتا ہے پھر تھوڑا تھوڑا کرکے پانی میں گوندھتا ہے۔ اس کے بعد وہ ہمیں جلتے توے پر ڈال دیتا ہے۔ ہمارے پیٹ اور پیٹھ کو خوب سینکتا ہے۔ ہم روتے ہیں چلّاتے ہیں لیکن وہ ایک نہیں سنتا پھر وہ ہمیں توڑ کر دال یا شوربے میں غوطہ دے کر منہ میں رکھ لیتا ہے اور ہمارے جسم کو اپنے دانتوں سے کاٹ کاٹ کر ہمارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے اور ہمیں نگل جاتا ہے۔ ہم اس کی پیٹ کی اندھیری کوٹھری میں بند ہوجاتے ہیں۔ اس کا معدہ ہمارا رس چوس کر انسان کے لئے خون بنا لیتا ہے اور کھو جڑ نکال پھینکتا ہے۔ بھائیو اور بہنو! یہ ہے ہمارا قصہ اور یہ ہیں انسان کے ظلم! کیا اب بھی ہم انسان کی غلامی سے چھٹکارا پانے کی کوشش نہیں کریں گے؟‘‘ اتنا کہہ کر جلی روٹی بیٹھ گئی، سارا جلسہ تالیوں کے شور سے گونج اُٹھا۔ اس کے بعد شریمتی کچوری کھڑی ہوئیں اور انہوں نے کہنا شروع کیا۔
 ’’بھائیو اور بہنو! ہم سب کی اصلیت ایک ہے۔ چاہے روٹی ہو یا چپاتی، پوری ہو یا کچوری، روغنی ٹکیا ہو یا پراٹھا، ڈبل روٹی ہو یا بسکٹ ہم سب اناج کے دانے سے بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے ہم سب کو مل کر ہی انسان کے مظالم سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ میری تجویز یہ ہے کہ ہم ستیہ گرہ کریں۔ یعنی انسان کے پیٹ میں پہنچ کر کسی طرح ہضم نہ ہوں اور پیٹ میں گڑبڑ ڈال دیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ہمیں کھانا چھوڑ دے گا اور ہم آزاد ہوجائیں گے۔‘‘ روغنی بیگم نے کھڑے ہو کر اس تجویز کی تائید کی۔ لیکن ڈبل روٹیاں اُس کا مذاق اُڑانے لگیں۔
 کچھ شریر لڑکے باغ میں ایک طرف چھپے ہوئے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے جو یہ مفت کا دسترخوان دیکھا، تو جلسے کی طرف دوڑ پڑے۔ اس سے بہت گڑبڑ مچ گئی۔ اب نتیجہ خود ہی سوچ لو۔ (درسی کتاب سے ماخوذ)

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK