Inquilab Logo

واشنگٹن تل ابیب دوستی اور امریکہ کا ایک اہم فیصلہ

Updated: December 05, 2022, 9:29 AM IST | Ramzy Baroud | america

شیرین ابو عاقلہ کے قتل کی تفتیش کا فیصلہ تو کیا گیا ہے مگر کیا تفتیش ہوگی؟ اگر ہوئی تو کیا کوئی نتیجہ برآمد ہوگا؟ کیا شیرین ابو عاقلہ کے قاتلوں کو پکڑا جائیگا؟ اُنہیں سزا دی جائیگی؟ ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب مشکل نہیں۔

The decision to investigate the murder of Shireen Abu Akleh has been made, but will there be an investigation? Photo: INN
شیرین ابو عاقلہ کے قتل کی تفتیش کا فیصلہ تو کیا گیا ہے مگر کیا تفتیش ہوگی؛تصویر: آئی این این

امریکہ کی وزارت انصاف کا حالیہ فیصلہ کہ فلسطینی امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ کے قتل کی تفتیش ہوگی، اہم تو ہے مگر اس موقع پر ضروری ہے کہ اس کے امکانات سے بحث کی جائے۔ چونکہ امریکہ کی اسرائیل نوازی کسی سے چھپی نہیں ہے اور امریکہ ہی اسرائیل کو سیاسی اور فوجی تعاون بہم پہنچاتا ہے جس کی تاریخ خاصی طویل ہے اس لئے یہ اُمید کرنا مشکل ہے کہ تفتیش کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔
 نتیجہ نکلنا تو دور کی بات ہے، یہ اُمید بھی کم ہے کہ تفتیش واقعی شروع ہوگی کیونکہ ایسا کرنے سے بہت کچھ سامنے آئیگا جو عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے اور امریکی قوانین کی بھی۔ مثال کے طور پر، تفتیش ہوگی تو امریکی افسران کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اسرائیل نے امریکہ کا فراہم کردہ اسلحہ کس طرح استعمال کرتا آیا ہے۔ یہ اسلحہ اہل فلسطینی مزاحمت کو دبانے اور کچلنے کیلئے استعمال کیا گیا ہے، فلسطینی زمینیں چھیننے کیلئے استعمال کیا گیا ہے اور شہری آبادی کے فوجی محاصرہ کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔ امریکہ کا ایک قانون ہے جسے ’’لیہی قانون‘‘ (Leahy Law) کہا جاتا ہے۔ اس کی رو سے امریکی حکومت غیر ملکی حفاظتی ایجنسیوں کی مالی مدد نہیں کرسکتی اگر وہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی میں ملوث ہوں۔ظاہر ہے کہ اسرائیل امریکہ کے اس قانون کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی آئے دن نہیں، روزانہ کرتا ہے۔ اگر تفتیش ہوئی تو جوابدہی طے کرنی پڑے گی اور اگر تفتیش سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ شیرین ابو عاقلہ کو، جو کہ امریکی شہری تھی، جان بوجھ کر قتل کیا گیا تھا تو تفتیشی افسران کو اس قتل کے اصل مجرمین تک پہنچنا ہو گا اور اُن کے خلاف مقدمات قائم کرنے ہونگے۔ کیا امریکہ اس کی جرأت کرے گا؟
 اگر آپ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کی اب تک کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو یہ نتیجہ نکالے بغیر نہیں رہ سکیں گے کہ امریکہ، عالمی فورموں میں اسرائیل کے مفادات کی حفاظت کرتا رہا ہے۔ ایک طرح سے وہ خادم ِ اسرائیل ہے۔ جب کبھی فلسطینیوں یا عربوں کی جانب سے کوشش ہوئی کہ اسرائیلی مظالم کی تفتیش کیلئے عالمی برادری کو رضامند کیا جائے تو امریکہ نے بہت منصوبہ بند طریقے سے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کے خلاف کہیں کوئی تفتیش نہ ہو۔ اس کیلئے واشنگٹن عالمی برادری کو متنبہ کرتا ہے کہ اگر اسرائیل کو جوابدہ بنایا گیا تو ایسا کرنا یہودی مخالف سرگرمی قرار پائیگا۔
 امریکی وزارت انصاف کے مذکورہ فیصلے پر تل ابیب کی حکومت کا باقاعدہ اور سرکاری جواب یہ تھا: ’’ایف بی آئی یا کسی بھی ملک کی کوئی ایجنسی ہمارے فوجیوں کے خلاف تفتیش نہیں کرے گی۔‘‘ پیش رو اسرائیلی وزیر اعظم یائر لیپڈ نے بھی یہ کہہ کر مذکورہ بیان کی تائید کی کہ ہمارے فوجی کسی غیر ملکی تفتیش سے نہیں گزریں گے۔
 یہ دونوں بیانات خلاف توقع نہیں ہیں مگر ان میں استعمال ہونے والے الفاظ خلاف معمول ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے ایسے بیانات عموماً اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل یا بین الاقوامی قوانین کے ماہر ججوں کیلئے دیئے جاتے ہیں۔ جب کبھی ان کی جانب سے تفتیش کی کوشش ہوئی اسرائیل نے یا تو اسے رُکوا دیا اور اگر روک نہیں پایا تو کسی قسم کا تعاون نہیں دیا۔ ۲۰۰۳ء میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور اس ہٹ دھرمی کو امریکہ کی حمایت اتنی مضبوط تھی کہ بلجیم کی حکومت کو اپنے قوانین میں ترمیم کرنی پڑی تھی تاکہ ایریل شیرون کے جنگی جرائم کے خلاف اسرائیل سے جنگ نہ کرنا پڑے۔ 
 ایک مثال امریکی سماجی رضاکار (ایکٹیوسٹ) راشیل کوری کے قتل کی تفتیش کی بھی ہے جس کیلئے امریکی حقوق انسانی کی تنظیموں نے کافی دباؤ ڈالا تھا مگر حکومت امریکہ نے معاملہ کو سننے اور سمجھنے تک کی زحمت نہیں کی بلکہ اسرائیلی عدالتوں پر بھروسہ کیا جنہوں نے اسرائیلی فوجیوں کو بَری کردیا۔ ان فوجیو ںکا جرم یہ تھا کہ ۲۰۰۳ ء میں اُنہوں نے ۲۳؍ سالہ ریشل کوری پر بل ڈوزر چلا دیا تھا جو غزہ میں فوجیوں کو ایک فلسطینی مکان کے انہدام سے روک رہے تھے۔ 
 حد تو یہ ہے کہ ۲۰۲۰ء میں بین الاقوامی عدالت کے وکلاء اور افسران ِ استغاثہ کے خلاف کارروائی کی گئی جو فلسطین اور افغانستان میں امریکہ اور اسرائیل کے جنگی جرائم کی تفتیش پر مامور تھے۔ 
 اس طویل پس منظر کے باوجود اگر امریکی وزارت انصاف نے شیرین ابو عاقلہ کے قتل کی ایف بی آئی کے ذریعہ تفتیش کا فیصلہ کیا ہے تو حیرت ہوتی ہے اور اسی حیرت کے باعث یہ جاننا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سبب کیا ہوسکتا ہے۔ 
 اس سلسلے میں بعض صحافتی ذرائع سے مدد ملتی ہے جن کا کہنا ہے کہ شیرین ابو عاقلہ کے قتل کی تفتیش کا فیصلہ اسرائیل میں یکم نومبر کے الیکشن کے پہلے ہوچکا تھا لیکن محکمۂ انصاف نے سرکاری طور پر اس کا نوٹیفکیشن الیکشن ختم ہونے کے تین دن بعد جاری کیا۔ ذرائع ابلاغ کو اس کی اطلاع ۱۴؍ نومبر کو دی گئی جب تک اسرائیل اور امریکہ کے علی الترتیب یکم اور ۷؍ نومبر کے انتخابات مکمل ہوچکے تھے۔ 
 واشنگٹن کے ارباب حل و عقد کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ شیرین ابو عاقلہ کے قتل کی تفتیش کا فیصلہ سیاسی تھا نہ ہی اس کا مقصد واشنگٹن کی اسرائیل نواز لابی کو ناراض کرنا تھا۔ اس کے پیچھے منشاء یہ بھی نہیں تھا کہ اسرائیلی انتخابات کو متاثر کیا جائے۔ اگر یہ منشاء ہوتا تو الیکشن ختم ہونے کا انتظار کیوں کیا جاتا؟ اعلان میں تاخیر ہوئی تو صرف اس لئے کہ اسرائیل اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کررہا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ امریکہ ایسا کوئی فیصلہ یا اعلان کرے۔
  اب تک کی تاریخ سے استفادہ کی بنیاد پر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ، ابو عاقلہ کے قتل کی تفتیش یا تو شروع ہی نہیں کرے گا یا برائے نام جاری رکھے گا۔ اگر اس نے برائے نام جاری رکھا تو اس کا نہ تو کوئی نتیجہ برآمد ہوگا نہ ہی کسی کو جوابدہ بنایا جائیگا۔ مگر یہ طے ہے کہ واشنگٹن نے اس کی تیاری بہت پہلے سے کی ہوگی۔ اس کی دو بڑی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ جو بائیڈن جب نائب صدر تھے تب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے اُن کی بنی نہیں اور اب نیتن یاہو کی واپسی کے امکانات روشن ہیںاس لئے اُن پر قبل از وقت دباؤ بنانا۔ دوسری وجہ امریکہ میں فلسطین نواز تنظیموں اور رضاکاروں کی وسط مدتی انتخابات میں حمایت حاصل کرنا کیونکہ بھلے ہی مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا جذبہ نہ ہو تب بھی محض فیصلے اور اعلان سے بھی سیاسی فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ بات کتنی درست ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جیسے ہی یہ اعلان ہوا، فلسطینی نژاد خاتون رُکن کانگریس رشیدہ طلیب نے وزارت انصاف کے فیصلے کو ’’اصل جوابدہی کی جانب پہلا قدم‘‘ قرار دیا۔ مگر کیا تفتیش جیسی تفتیش ہوگی؟ اس پر سوال ہنوز قائم ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK