Inquilab Logo Happiest Places to Work

مغربی طاقتیں غزہ اور یوکرین کے آئینے میں

Updated: November 13, 2023, 11:42 PM IST | Inquilab News Network | Gaza

غزہ کے خلاف اسرائیلی شیطنت جس قدر تباہی مچا سکتی تھی، مچارہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ نیتن یاہو مزید کتنے دن جنگ کے اِس جنون میں مبتلا رہیں گے۔

Gaza. Photo : INN
غزہ۔ تصویر : آئی این این

غزہ کے خلاف اسرائیلی شیطنت جس قدر تباہی مچا سکتی تھی، مچارہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ نیتن یاہو مزید کتنے دن جنگ کے اِس جنون میں مبتلا رہیں گے۔ کسی کو یہ بھی خبر نہیں ہے کہ اسرائیلی اہل اقتدار اَب مکاری کی کون سی چال چل رہے ہیں؟ کیا مسلسل بمباری اور اسپتالوں میں گھس کر تباہی مچانا اس لئے ہے کہ  اہل غزہ کی اکثریت موت کے گھاٹ اُتر جائے اور باقی ماندہ لوگوں کو غزہ پٹی کے کسی ایک گوشے میں پناہ گزینوں کی بستی بناکر اُنہیں اُن  کے حال پر چھوڑدیا جائے اور اُن کی زمین پر قبضہ کرکے وہاں یہودی آبادیاں قائم کرلی جائیں یا اُن  کے پیش نظر کوئی اور ہدف ہے؟ جو بھی ہو، ایک بات بالکل طے ہے کہ یہ جنگ جتنا طول پکڑے گی، اسرائیلی حکومت اُتنا زیادہ دباؤ میں آئیگی۔
دُہرے معیار کی عظیم ترین مثالیں قائم کرنے والے مغربی حکمرانوں کی جانب سے نہیں، عرب حکمرانوں  کی جانب سے بھی نہیں جن کی اسرائیل سے نئی نئی دوستی پر آزمائش کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ دباؤ بڑھے گا عوام کی جانب سے خواہ وہ مغربی ملکوں کے عوام ہوں یا ترقی پزیر ملکوں کے، عالم ِ عرب کے عوام ہوں یا خود اسرائیل کے۔ اب تک جتنے اور جیسے مظاہرے ہوئے ہیں وہ دُہرے معیار میں مبتلا حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونے چاہئیں۔ ہر مظاہرے میں ہزاروں سے لے کر لاکھوں لوگوں کی شرکت بہت کچھ بیان کرتی ہے۔ مظاہرے ایسے ملکوں میں بھی ہوئے ہیں جہاں مظاہروں کی چلن نہیں ہے اور جہاں مظاہروں کا اپنا طریقہ ہے۔ ان ملکوں میں نہ تو سڑکوں پر اُترنا عام ہے نہ ہی تختیاں لے کر اپنی حکومتوں کو للکارنا۔ اس کے باوجود حکمرانوں پر مسلسل دباؤ پڑرہا ہے۔ خود امریکی صدر جو بائیڈن کا لہجہ بدلا ہے جنہوں نے جنگ کے ابتدائی دنوں میں کہا تھا کہ ’’صہیونی ہونے کیلئے یہودی ہونا ضرو ری نہیں ہے۔‘‘ اِس طرح اُنہوں نے اپنے آپ کو صہیونیت حامی باور کرانے میں تکلف اور تردد نہیں کیا تھا۔ اِتنا کھل کر صہیونیوں کی حمایت اُن کے پیش رو صدور نے شاید نہ کی ہو بھلے ہی وہ بھی اسرائیل کے اُتنے ہی حامی تھے جتنے کہ یہ ہیں۔ 
 بائیڈن کی شبیہ کو شدید جھٹکا اس بات سے بھی لگ رہا ہے کہ جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اُنہوں نے روس کی مذمت کی اور یوکرین کو ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کے انتظامات کئے مگر اسرائیل کے معاملے میں اُن کی پالیسی بالکل مختلف بلکہ متضاد ہے جبکہ غزہ میں بے تحاشا بمباری ہوئی ہے اور چونکہ یہ مختصر علاقہ ہے اس لئے اموات اور زخمیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ روس نے یوکرین کے اسپتالوں کو نشانہ نہیں بنایا، اسرائیل نے غزہ کے اسپتالوں کو تہس نہس کردیا،بجلی کاٹ دی، غذائی رسد پہلے سے رُکی ہوئی تھی، پانی کی بوند بوند کو لوگ ترسنے لگے۔ جہاں تک ہماری محدود معلومات کا تعلق ہے، اتنا سب یوکرین میں نہیں ہوا تھا۔ اس کے باوجود امریکہ اور یورپ نے یوکرین کا بھرپور ساتھ دیا۔ آج امریکہ اور یورپ کے اہل اقتدار کے چہروں کی باقیماندہ نقابیں بھی اُتر چکی ہیں۔ انسانی حقوق کے تئیں ان کی فکرمندی جعلی ہے اس کیلئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے، اگر ہو تو یہ تازہ ثبوت دُنیا کے سامنے ہے کہ آپ مظلوم کا ساتھ اُس کا چہرہ دیکھ کر دیتے ہیں۔ چہرہ کسی اپنے کا ہے تو وہ انسانی حقوق کے زمرہ میں ہے اور کسی اپنے کا نہیں ہے تو وہاں انسانی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ آج غزہ اسی دُہرے معیار کو رو رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK