Inquilab Logo

قومی تعلیمی منظرنامہ کیا کہتا ہے؟

Updated: October 10, 2021, 7:58 AM IST | Mumbai

دُنیا بدل رہی ہے اور ہم نے خود کو نصاب بدلنے پر مامور کررکھا ہے۔ دُنیا بدل رہی ہے اور ہم ابھی اسی شش و پنج میں ہیں کہ تعلیمی بجٹ بڑھا کر شرمندگی سے بچا جائے یا اس میں کچھ کتربیونت ممکن ہوسکتی ہے۔ دُنیا بدل رہی ہے

The National Education.Picture:INN
قومی تعلیمی تصویر آئی این این

دُنیا بدل رہی ہے اور ہم نے خود کو نصاب بدلنے پر مامور کررکھا ہے۔ دُنیا بدل رہی ہے اور ہم ابھی اسی شش و پنج میں ہیں کہ تعلیمی بجٹ بڑھا کر شرمندگی سے بچا جائے یا اس میں کچھ کتربیونت ممکن ہوسکتی ہے۔ دُنیا بدل رہی ہے اور ہم تبدیلیٔ نصاب کے ساتھ ساتھ مخصوص ایجنڈا بھی نافذ کررہے ہیں۔ دُنیا بدل رہی ہے اور ہم نے اب تک یہی نہیں سوچا کہ کس طرح بدلنا چاہئے۔ ہم نے اب تک اُن ملکوں کے تعلیمی نظام کو قریب سےدیکھنے، سمجھنے اور اس سے استفادہ کرنے کی زحمت نہیں کی ہے جن کا معیارِ تعلیم دُنیا میں سب سے بہتر مانا جاتا ہے مثلاً فن لینڈ، ڈینمارک، امریکہ، برطانیہ اور سوئزرلینڈ وغیرہ۔ ہونا یہ چاہئے کہ حکومت ایک تعلیمی کمیٹی کو، جو خالصتاً تعلیمی ہو نہ کہ سیاسی، ہر سال کسی ایک ملک کے کم از کم ایک ماہ کے دورے پرروانہ کرے۔ یہ کمیٹی تعلیمی نظام کا بچشم خود جائزہ لے، اساتذہ، انتظامیہ اور طلبہ سے ملاقاتیں کرے، مختلف تعلیمی مراحل میں جو نصاب طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے اس کی آگاہی حاصل کرے اور دیگر تمام اُمورِ تعلیم و تعلم کا مشاہدہ کرے مثلاً تدریس نصاب کا طریقہ، درس گاہوں کا مجموعی ماحول، طلبہ کا ایک دوسرے سے تعامل، طلبہ اور اساتذہ کا تناسب (کتنے طلبہ پر ایک استاذ) اورتعلیم کے وہ طریقے جن میں جدت و ندرت ہو نیز جو جدید تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے خاص طور پر وضع کئے گئے ہوں۔ ایسے تعلیمی دوروں سے جس قدر استفادہ ممکن ہو، کیا جانا چاہئے، یہ نہ ہو کہ تعلیمی کمیٹی دورہ تو کرے، اپنی رپورٹ بھی پیش کرے مگر وہ دفتر ِوزارت تعلیم میں دھول کھاتی رہے۔ یہ ایک مشورہ ہے۔ ممکن ہے وزارت کے کارپرداز اس سے بہتر طریقہ تلاش کریں۔ جو بھی ہو مگر استفادہ بھرپور ہو۔ اسے نتیجہ خیز بنانے کی کوشش مرکزی حکومت کی فعال سرپرستی میں ہونی چاہئے۔ 
 یہ اس لئے ضروری ہے کہ جس ملک کو کسی بھی تعلیمی کسوٹی پر سو فیصد پورا اُترنا چاہئے تھا اور عالمی رینکنگ میں اولین پانچ یا دس ملکوں میں سے ایک ہونا چاہئے تھا، وہ تقریباً ہر درجہ بندی میں پیچھے ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ربع صدی کے دوران حکومت نے بنیادی تعلیم سے توجہ ہٹا کر تکنیکی تعلیم پر مرکوز کی جس میں اپلائیڈ آرٹ اینڈ کرافٹس، آرکیٹکچر، پلاننگ، ڈیزائن، انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، کمپیوٹر اپلی کیشن، فارمیسی، ہوٹل مینجمنٹ اور کیٹرنگ کے کورسیز ہوتے ہیں اور جس کے تحت ڈپلومہ، انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح کی تعلیم دی جاتی ہے۔ گزشتہ ربع صدی کے دوران ہی ان کورسیز کا کافی شہرہ بھی ہوا مگر کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ سال آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن (اے آئی سی ٹی ای) نے ۲۱۔۲۰۲۰ء میں متعدد تکنیکی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ان اداروں کے بند کئے جانے کا اصل سبب گزشتہ سال پھیلی ہوئی کورونا کی وباء اور اس کا خوف ہے یا کچھ اور، یہ واضح نہیں ہے مگر اے آئی سی ٹی ای ہی کے اعدادوشمار کے مطابق ٹیکنیکل کورسیز میں طلبہ کی شرح ِ داخلہ ۶ء۰۶؍ فیصد اور انسٹی ٹیوشنس کی تعداد ۱۲؍ فیصد کم ہوئی ہے۔ جس تعلیم پر زیادہ توجہ دی گئی اگر اس کا یہ حال ہے تو سمجھا جاسکتا ہے کہ بنیادی اور ثانوی تعلیم کا کیا حال ہوگا۔ 
 اس صورتحال کے پیش نظر کیا اس بات کا کوئی امکان ہے کہ دیگر ملکوں کے طلبہ ہندوستان آکر تعلیم حاصل کرنے کو فو قیت دیں گے اور ہمارا ملک عالمی نقشے پر ’’ایجوکیشنل ہب‘‘ بن کر اُبھرے گا؟ کیا نئی ایجوکیشن پالیسی میں اتنا دَم ہے کہ اس سے ہمارا تعلیمی منظرنامہ بدل جائیگا؟ ان سوالوں پر سنجیدہ غوروفکر ضروری ہے! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK