• Wed, 19 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہار کے نتائج جیسے بھی آئے ہوں،سیکولر جماعتوں کو انتخابی جائزے کے ساتھ اپنا احتساب کرنا چاہئے

Updated: November 19, 2025, 4:53 PM IST | Qutubuddin Shahid | Mumbai

بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ہر کسی کو چونکایا ہے۔ ہارنےو الی پارٹیوں کی بات جانے دیں، جیتنے والی پارٹیاں بھی اس نتیجے سے حیران و ششدر ہیں۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران’ ۴۰۰؍ پار‘کا نعرہ دینے والی بی جے پی نے بہار انتخابات میں اپنے اتحاد کیلئے ۱۶۰؍ سیٹوں کا ٹارگیٹ مقرر کیا تھا لیکن این ڈی اے ’۲۰۰؍ کے پار‘ پہنچ گیا۔

Rahul Gandhi, Tejashwi Yadav and all secular leaders of the country will have to sit together so that progress can be made with courage. Photo: INN
راہل گاندھی، تیجسوی یادو اور ملک کے تمام سیکولر لیڈران کو سر جوڑ کربیٹھنا ہوگا تاکہ حوصلہ مندی کے ساتھ پیش قدمی ہو۔ تصویر:آئی این این
بہار اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ہر کسی کو چونکایا ہے۔ ہارنےو الی پارٹیوں کی بات جانے دیں، جیتنے والی پارٹیاں بھی اس نتیجے سے حیران و ششدر ہیں۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران’ ۴۰۰؍ پار‘کا نعرہ دینے والی بی جے پی نے بہار انتخابات میں اپنے اتحاد کیلئے ۱۶۰؍ سیٹوں کا ٹارگیٹ مقرر کیا تھا لیکن این ڈی اے ’۲۰۰؍ کے پار‘ پہنچ گیا۔ بہرحال نتیجے کیسے بھی آئے ہوں، ہارنے والی پارٹیوں کو بھی اسے قبول کرتے ہوئے پیش رفت کرنی چاہئے اور انتخابی جائزے کے ساتھ اپنا احتساب کرنا چاہئے۔
   یہ اچھی بات ہے کہ نتائج کا واضح رجحان دیکھنے کے بعد جہاں راہل گاندھی نے کہا کہ ’’یہ لڑائی آئین اور جمہوریت کے تحفظ کی ہے۔ کانگریس اور انڈیا اتحاد  اپنی کوششوں کو  جاری رکھیں گے  اور مزید بااثر بنائیں گے۔‘‘ وہیں آر جے ڈی کی جانب سے بھی مثبت بیان آیا کہ ’’عوامی خدمت ایک مسلسل عمل ہے، ایک نہ ختم ہونے والا سفر۔ زندگی میں اُتار چڑھاؤ کا آنا فطری ہے۔ہار میں غم نہیں ہوتا اور جیت میں غرور نہیں ہوتا۔ آر جے ڈی غریبوں کی پارٹی ہے،اسلئے نتائج سے قطع نظر وہ اُن کے درمیان ان کی آواز  بن کر رہے گی۔‘‘
یہ حوصلہ مندی کااظہار اور جدوجہد جاری رکھنے کااعلان ہے۔ یہ اچھی بات ہے اور ایسا ہی ہونا چاہئے لیکن اسی کے ساتھ انتخابی جائزہ بھی لیا جانا چاہئے اور تمام سیکولر جماعتوں کواپنااحتساب بھی کرنا چاہئے۔ صرف الزام تراشی سے کام نہیں چلے گا۔ ووٹ چوری، انتخابی دھاندلی، اسکیموں کے نام پر رشوت خوری اور ایس آئی آر کی بات کہہ کر وہ اپنا دامن نہیں بچاسکتیں۔ راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کو یہ بات سمجھنی چاہئے تھی کہ ان کا مقابلہ ایک ایسی پارٹی سے ہے جو خود کو دنیا کی سب سےبڑی پارٹی قرار دیتی ہے،جو بے پناہ دولت کی مالک  ہے، جو اقتدار پر قابض ہے جس کے ہاتھوں میں سی بی آئی، ای ڈی ، انکم ٹیکس اور این آئی اے جیسی تفتیشی ایجنسیوں کی لگام ہے، الیکشن کمیشن بھی جس کی کھل کر طرف داری کرتا ہے اورجو ’سام ، دام، دنڈ، بھید‘ کے استعمال کی طاقت رکھتی ہے۔ اسلئے اُن تمام جماعتوں کو جو  بی جے پی سے مقابلہ کرنے کیلئے خود کو تیار کرتی ہیں، ان حقائق کو سمجھ کر آگے پیش قدمی کرنی چاہئے اور پوری تیاری کے ساتھ کرنی چاہئے۔
مگر افسوس کہ بہار انتخابات کے دوران عظیم اتحاد میں وہ تیاری نہیں دکھائی دی، جو وقت کا تقاضا تھا۔ کہیں خوش فہمی، کہیں تکبر اورکہیں ناسمجھی کا اظہار ہورہا تھا۔ وہ کانگریس ہو یا آر جے ڈی یا دوسری ریاستوں کی دیگر سیکولر جماعتیں، جب تک وہ خود جیتنے کے بجائے بی جے پی کو ہرانے کی  تیاری کے ساتھ سامنے نہیں آئیں گی، وہ بی جے پی کو نہیں ہرا پائیں گی۔ بہار میں ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ کے دوران راہل گاندھی اور تیجسوی کا ایک اسٹیج پر آنا اچھا قدم تھا، رائے دہندگان پر اس کے اچھے اثرات بھی مرتب ہوئے لیکن سیٹوں کی تقسیم اور انتخابات کے دوران دونوں جماعتوں میں وہ تال میل نہیں دکھائی دیا۔پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے آخری دن تک بی جے پی سے مقابلہ کرنے نکلیں  دونوں بڑی جماعتیں آپس میں سیٹوں کی تقسیم تک نہیں کرپائی تھیں جبکہ انہیں یہ کام ’یاترا‘ نکالنے سےبہت پہلے کرلینا چاہئے تھا۔ آپس میں ان کے سرپھٹول اور ایک ایک سیٹ کی چھینا جھپٹی سے کوئی اچھا پیغام نہیں گیا۔ایک طرف جہاں ’دنیا کی سب سے مضبوط پارٹی‘ اپنے اتحادیوں کو منانے اور اپنا کنبہ بڑھانے کیلئے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے آگے پیچھے گھومتی ہوئی دکھائی دی، وہیں دوسری جانب کانگریس، آر جے ڈی اور بائیں محاذ میں شامل جماعتیں، بمشکل مکیش سہنی کی پارٹی کو اپنے ساتھ لاپانے میں کامیاب ہوسکیں۔ ایم آئی ایم نے خود ہی عظیم اتحاد میں شامل ہونے کی  خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن اس پیشکش کو حقارت سے ٹھکرادیا گیا۔
یہ نتیجے کیسے بھی آئے، لیکن جو بھی آئے ہیں، اس کے مطابق ہی اگر دیکھا جائے تو ۲۰۲۰ء کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے عظیم اتحاد کے ووٹوں میں  کوئی کمی نہیں آئی ہے۔عظیم اتحاد کو ۲۰۲۰ء میں ۳۷ء۲۳؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ اس مرتبہ۳۷ء۳؍ فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کا ووٹ بینک مستحکم ہے،بس انہیں اس میں تھوڑے سے اضافے کی ضرورت ہے۔ عظیم اتحاد کے مقابلے این ڈی اے کو ۲۰۲۰ء کے ۳۷ء۲۶؍ فیصد ووٹوں کے مقابلے اس بار  ۴۷ء۲؍ فیصد ووٹ ملے ہیں، یعنی تقریباً ۱۰؍ فیصد زیادہ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ووٹوں کا یہ فرق پورے انتخابی مساوات کو تہ و بالا کرنے کیلئے کافی ہے۔ 
جو ہوا، سو ہوا، اب آگے کیا کرنا ہے، سیکولر جماعتوں کو اس کی حکمت عملی ابھی سے کرنی ہوگی۔اور بات صرف بہار کی نہیں ہے بلکہ بات پورے ملک کی ہے۔
 
سیکولر جماعتوں نے  اگر ہوش کے ناخن نہیں لئے تو راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، ہریانہ ، مہاراشٹر اور بہار کے بعد مغربی بنگال اور تمل ناڈو بھی ان کے ہاتھ سے جا سکتا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ ایک دو الیکشن کے بعد کیرالا کا رنگ بھی زعفرانی ہوجائے۔ ممتا بنرجی اور ایم کے اسٹالن اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ان کا قلعہ محفوظ ہے، بلکہ وہ اس بات کو محسوس کریں کہ ان کا مقابلہ بی جے پی سے ہے جو الیکشن جیتنے کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے۔  ایسے میں ضروری ہے کہ سیکولر جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وسیع تر قومی مفادات کے تحت اتحاد کریں اور زعفرانی طاقتوں سے مقابلہ کریں۔ 
سیکولر جماعتوں کو یہ جانتے ہوئے کہ ووٹ چوری ہوسکتی ہے، ایس آئی آر کے تحت ان کے حامی رائے دہندگان کو گھر بٹھایا جاسکتا ہے، انتخابات کے دوران دھاندلی ہوسکتی ہے، الیکشن کمیشن کی جانب داری بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے، سرکاری اسکیموں کے نام پر رشوت کی نئی نئی قسمیں متعارف کرائی جاسکتی ہیں اور اپوزیشن لیڈروں پر تفتیشی ایجنسیوں کا بے جا استعمال بھی ہوسکتا ہے.... انہیں مقابلہ کرنا ہوگا اور یہ مقابلہ اسی صورت میں ہوگا،جب ان کی منصوبہ بندی خود جیتنے سے زیادہ بی جے پی کو شکست  دینے پر ہوگی۔   
راہل گاندھی،تیجسوی یادو، ممتا بنرجی، اکھلیش یادو، شرد پوار، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی، ادھو ٹھاکرے، ایم کے اسٹالن، مولانا بدرالدین اجمل، اسدالدین اویسی اور بائیں محاذ کے ذمہ داران کے علاوہ ملک کی تمام سیکولر پارٹیوں کے ذمہ داران کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے اور اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ بی جے پی  کی کامیابیوں کے اس سلسلے کو روکنے کیلئے کون سی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہئے۔اس کام میں راہل گاندھی کو زیادہ محنت اور زیادہ قربانی دینی ہوگی۔ انہیں  اپنی پارٹی کو منظم کرنا ہوگا،  مایوس کارکنوں کو حوصلہ فراہم کرنا ہوگا، اپنے نظریات کو مزید واضح کرنا ہوگا،  تمام طبقوں کی نمائندگی کا لحاظ رکھتے ہوئے ہم خیال لیڈروں کی ایک مضبوط ٹیم بنانی ہوگی اور تمام ریاستوں میں پارٹی ڈھانچے کو ازسر نو درست کرنا ہوگا۔
محمد فاروق دیوانہ کے یہ اشعار ایسے ہی حوصلہ مندوں کیلئے ہیں جو حالات کا جائزہ لیتے ہیں، اپنا احتساب کرتے ہیں اور جدوجہد کرتے ہیں۔ 
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے:پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
جو عمریں مفت گنوائے گا:وہ آخر کو پچھتائے گا
کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا:جو ڈھونڈے گا وہ پائے گا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK