Inquilab Logo

وزیراعظم نریندرمودی بیرون ملک دوروں پر جاتے ہیں تو وہاں وطن عزیز کی کیسی شبیہ پیش کرتے ہیں؟

Updated: March 13, 2023, 3:55 PM IST | Shiron Garg | Mumbai

وزیر اعظم نریندر مودی کی اصل شبیہ کون سی ہے؟ مرکز میں اقتدار کے ۸؍ سال اور اس سے قبل گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر۱۲؍ سال گزارلینے کے بعد بھی یہ جاننا مشکل ہے کہ مودی اپنے حقیقی اوتار میں کیا ہیں؟

Prime Minister Modi raised slogans of `Ab ki bar, Trump Sarkar` from the Indian-Americans present during a visit
وزیراعظم مودی نے ایک دورے پر وہاں موجود ہند نژاد امریکیوں سے ’اب کی بار، ٹرمپ سرکار‘ کے نعرے لگوائے تھے


وزیر اعظم نریندر مودی کی اصل شبیہ کون سی ہے؟ مرکز میں اقتدار کے ۸؍ سال اور اس سے قبل گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر۱۲؍ سال گزارلینے کے  بعد بھی یہ جاننا مشکل ہے کہ مودی اپنے حقیقی اوتار میں کیا ہیں؟ کیا   وہ وہی ہیں جو بیرون ممالک دوروں پر دیگر سربراہان مملکت کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران یا ان ممالک میں رہنے والے ہندوستانی کمیونٹی کے ساتھ بات چیت میں نظر آتے ہیں یا  پھر ان کا حقیقی روپ وہ ہے جب وہ اپنے ہی ملک کے عام شہریوں کے درمیان ظاہر ہوتے ہیں ؟
 آنے والے برسوں میں، جب کسی دن مودی، وطن عزیز ہندوستان کے وزیر اعظم نہیں ہوں گے، تو مورخین کی جانب سے ان کے طویل دورِ  اقتدار کے تمام قسم کے غیر جانبدارانہ  تجزیوں میں شاید یہ بھی شامل ہو گا کہ وہ اپنے درجنوں غیر ملکی دوروں کےموقع پر وہاں کے سربراہان مملکت اور وہاں کے عوام  سے ملاقاتوں  کے دوران اپنی شخصیت اور اپنی گفتگو کی کیسی چھاپ چھوڑپائے ہیں؟ غیر ملکی دوروں کےموقع پر اُن کے ذریعہ گڑھی جانے والی ہندوستان کی  شبیہ کا موازنہ ان کے پیشرو وزرائے اعظم کے غیر ملکی دوروں سے بھی کیا جائے گا۔ مؤرخین کے جائزوں میں یہ نکتہ بھی شامل ہو گا کہ غیر ملکی سرزمین پر اپنے سیاسی حریفوں کیلئے انہوں نے کس قسم کےاحترام کا رویہ اپنایا یا پھر بے عزتی کا کون سا انداز اختیار کرنا مناسب سمجھا؟
 معروف مصنفہ اور انگریزی صحافی سگاریکا گھوش نے اپنے فیس بک  پیج پر  پنڈت جواہر لال نہرو کے دور کے مشہور اور ممتازسفارت کار۹۸؍ سالہ’ ایم کے رس گوترا‘ سے ہونے والی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ اٹل بہاری واجپئی پر تحریر کردہ اپنی کتاب کی ایک کاپی پیش کرتے ہوئے رس گوترا نے سگاریکا سے ایک واقعہ شیئر کیا۔ یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جب  رس گوترا پانچویں دہائی میں نیویارک میں ہندوستانی سفارت کار کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اُن دنوں وزیر اعظم نہرو کے ایک معاون ’ایم او متھائی‘ نے ایک دن انہیں فون کرکے کہا کہ اٹل بہاری واجپئی امریکہ کے دورے پر جا رہے ہیں،اسلئے وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ ان کا تعارف تمام ممتاز امریکی اور بین الاقوامی شخصیات سے کرایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ’’ اٹل جی کا  اس دوران اچھے سے خیال رکھا جائے۔‘‘
 رس گوترا نے اس ہدایت کا خاص خیال رکھا۔ ایک دن ان کی طرف سے اٹل جی کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں ایک اہلکار نے وزیر اعظم نہرو کی  غیر جانب دارانہ پالیسی پر تنقید کی تو اٹل جی نے غصے سے جواب دیا کہ آپ کو پنڈت جی کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہئے۔ جس وقت ہمیںآزادی ملی، اُس وقت ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ ہماری اپنی کوئی آزاد خارجہ پالیسی نہیں تھی لیکن آج ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، اس کا کریڈٹ نہرو ہی کو جاتا ہے، اس کی بنیاد نہرو ہی ہیں۔
 اس کے برعکس ملک کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کا جائزہ لیتے ہیں۔حال ہی میں جب وہ سہ ملکی  دورے پر گئے تو برلن میں ہندوستانی کمیونٹی کے تقریباً ۱۲۰۰؍افراد سے اپنے خطاب میں انہوں نے نہرو کے پوتے اور ملک کے سب سے کم عمر وزیر اعظم راجیو گاندھی کا نام لئے بغیر جو کچھ کہا،اس نے ملک کی اُس  شاندار ماضی کو کٹہرے میں کھڑا کردیا، جس کا ذکر رس گوترا نے سگاریکا سے کیا تھا۔ ایک زمانے میں قحط اور بھکمری کیلئے بدنام رہنے والے ادیشہ کے کالاہانڈی ضلع  کا بطور وزیراعظم ، راجیو گاندھی نے دور ہ کیا تھا۔ اس کے بعد کانگریس کے ایک اجلاس میں انہوں نے وہاں کا ذکر کرتے ہوئے ملک میں پھیلی بدعنوانی پر افسوس اورتشویش کااظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ دہلی سے بھیجا گیا ایک روپیہ ضرورت مندوں تک پہنچتے پہنچتے صرف ۱۵؍ پیسے رہ جاتا ہے۔  اپنی حکومت کی جانب سے ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعہ ضرورت مندوں تک براہ راست رقموں کی منتقلی کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم مودی نے اپنی تقریر میں طنز کیا کہ ’’اب کسی وزیر اعظم کو یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ میں دہلی سے ایک روپیہ بھیجتا ہوں اور وہ نیچے  صرف  پندرہ پیسے ہی پہنچتے ہیں۔‘‘
 وزیراعظم نریندر مودی نے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہیں کیا۔ اپنے دائیں ہاتھ کے پنجے کو پھیلا کر اسے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے کچھ لمحے تک رگڑتے  ہوئے انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ ’’وہ کون سا پنجہ تھا جو۸۵؍ پیسے گھس لیتا تھا؟‘‘ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم جس وقت غیر ملکی سرزمین پر اپنے ہی ملک کے سابق وزیر اعظم کا نام لئے بغیر اُن کا مذاق اڑا رہے تھے تو ان کے سامنے بیٹھے ایک ہزار سے زائد ہندوستانی نژاد ’مہذب شہری‘ تالیاں بجا کر ان کی تائید اور ان کی پزیرائی کر رہے تھے۔
نریندر مودی کے اتنے برسوں تک اقتدار میں رہنے  کے بعد بھی ملک کے عوام اور اپوزیشن کے لیڈران یہ نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ وزیراعظم مودی  خود کو دنیا کے ہیروز کی صف میں کہاں اور کس جگہ پر کھڑا ہوا دیکھنے کی خواہش رکھتےہیں؟
  یا پھر عالمی تاریخ میں کس حوالے سے اور کس کارکردگی کی بنیاد پر اپنی جگہ محفوظ کرنا چاہتے ہیں؟آزادی کے بعد اگست ۱۹۵۵ء میں سعودی عرب کے بادشاہ’ شاہ سعود‘ کے دورہ ہندوستان کے بعد سے، گزشتہ ۷؍ دہائیوں  میں دنیا بھر سے سیکڑوں سربراہان مملکت اور حکومتوں نے ہندوستان کا دورہ کیا ہوگا، لیکن (شاید ہی) ان میں سے کسی ایک نے بھی ہماری سرزمین کا استعمال  اپنے ملک میں جاری سیاسی  حالات یا اپنے سیاسی مخالفین کی تنقید یا ان پر طنز کیلئے نہیں کیاہوگا۔اسی طرح ہمارے وزرائے اعظم میں سے بھی کسی نے بیرون ملک دوروں  پر ایسی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔یہ حیرت انگیز روایت نہیں ہے کہ ہندوستانی تارکین وطن کے لوگ ہیوسٹن میں’اب کی بار، ٹرمپ سرکار‘کے نعرے لگانے میں مودی کے ساتھ شامل ہوتے ہیں اور جب برلن میں وزیر اعظم کسی کا نام لئے بغیر سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کا مذاق اڑاتے ہیں تو لوگ تالیاں بجا کر ان کی تائید بھی کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ اِس وقت جرمنی میں تقریباً ۲؍ لاکھ  ہندوستانی نژادشہری مقیم ہیں۔
 مجھے ۲؍ وزرائے اعظم ، اٹل بہاری واجپئی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کے میڈیا وفد میں امریکہ سمیت کچھ ممالک کا سفر کرنے کا موقع ملا ہے۔ دونوں مقبول لیڈروں نے اپنے دوروں کے موقع پر اعلیٰ سطحی سرکاری بات چیت کے ساتھ ہندوستانی نژاد شہریوں کے مختلف گروپوں کے ساتھ بھی بات چیت  کی ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک  نے بھی کسی  موقع پر اُن ممالک کی ملکی اور داخلی سیاست میں دخل دیا ہو یا پھر ہندوستان میں اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں کوئی توہین آمیز تبصرہ کیا ہو۔ان الزامات سے انکار کرنا مشکل ہو گا کہ مودی کے غیر ملکی دوروں کا استعمال وزیر اعظم کی ذاتی شبیہ کو مضبوط کرنے کیلئے زیادہ کیا جاتا ہے نہ کہ اس کا مقصد غیر ملکی عوام کے درمیان ہندوستان کو ایک مضبوط جمہوری ملک کے طور پر اس کی شناخت کو قائم اور مستحکم کرناہوتا ہے۔ افسوس کہ اس کام میں  ان کی مدد ملک کے میڈیا کا وہی طبقہ کرتا ہے، جس کا اعتبار مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
 یہ بھی کوئی کم حیرت کی بات نہیں کہ وزیراعظم اپنے ملک میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینے سے انکارتو کرتے ہی ہیں، اپنے غیر ملکی دوروں کے موقع پر بھی سربراہان حکومت کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب نہیں کرتے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ ایسے سوالوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتے جن کے جواب نہ ملنے پر بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کے نزدیک ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ کے نعرے کی معنویت ماند پڑنے کا خدشہ ہو اور انہیں شرمندگی کا سامنا ہو۔
 اسے  بدقسمتی سے ایک’اتفاق‘ ہی سمجھنا چاہئے کہ جس وقت وزیر اعظم مودی  غیر ملکی سرزمین پر کھڑے ہو کر ہندوستانی  برادری کے لوگوں میں ایک روپے اور۸۵؍ پیسے کی بات کر کے راجیو گاندھی کے بیان کا مذاق اڑا رہے تھے، وطن عزیز میں اُسی دوران اُن کی پارٹی کے میڈیا سیل اور بھکت برادری سے وابستہ لوگ آنجہانی راجیو گاندھی کے بیٹے راہل گاندھی کی ایک شادی کی تقریب میں  ذاتی طو ر پرشرکت کیلئے نیپال جانے کی وجہ سے ان کی کردار کشی کررہے تھے۔ اس طرح کے واقعات اور بیانات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری موجودہ سیاست کس رخ پر جارہی ہے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK