Inquilab Logo

کہاں ہے لاء اینڈ آرڈر؟

Updated: April 20, 2023, 10:38 AM IST | Mumbai

کم از کم اُترپردیش میں تو نہیں ہے جس کے بارے میں وہاں کے وزیر اعلیٰ خم ٹھونک کر بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

 کم از کم اُترپردیش میں تو نہیں ہے جس کے بارے میں وہاں کے وزیر اعلیٰ خم ٹھونک کر بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ پولیس کی موجودگی میں عتیق اور اشرف کے بہیمانہ قتل کے بعد اُس جگہ کی مٹی خشک بھی نہیں ہوئی تھی جہاں اُن کا قتل ہوا تھا اور ابھی یوپی کے کئی علاقوں میں الرٹ جاری ہی تھا کہ محض چند دنوں میں مزید دو لرزہ خیز وارداتیں اسی اُترپردیش میں رونما ہوئی ہیں جسے اُتم پردیش بھی کہا جارہا تھا۔ عتیق او ر اشرف کے قتل اور بعد کی دو وارداتوں کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نظم و نسق کی اپنی آئینی ذمہ داری کا احساس رکھنے والی حکومت ہوتی تو مستعفی ہوجانا پسند کرتی، ہزیمت اور ذلت اُٹھانا گوارا نہ کرتی۔ مگر یوگی حکومت تو پھر یوگی حکومت ہے۔ اس کے زیر اقتدار وہ سب کچھ ہورہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ 
 قارئین کی یاد دہانی کیلئے عرض کردیں کہ عتیق اور اشرف کے قتل کے بعد پچاس گھنٹے بھی مشکل سے گزرے ہوں گے کہ جالون میں، کالج کا امتحان دے کر لوٹنے والی ایک طالبہ کو بیچ چوراہے پر گولی مار دی گئی۔ حملہ کرنے والے دو بائیک سواروں نے یہ کلیجہ چیردینے والی  واردات انجام دی۔ جس پستول سے فائرنگ کی گئی تھی اُنہوں نے اُسے موقع پر ہی پھینک دیا اور فرار ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ واردات ایسی جگہ رونما ہوئی جہاں سے پولیس تھانہ صرف ۲۰۰؍ میٹر کی دوری پر تھا۔ اب بتائیے کیا جواب ہے نظم و نسق کے دعوے کرنے والی حکومت کے پاس؟ کیا وہ اسے مسترد کرنا چاہے گی کہ دن دہاڑے، بیچ چوراہے پر کسی طالبہ کو گولی ماردینا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کی بناء پر حکومت سے سوال کیا جائے؟ 
 دوسرا واقعہ اُناؤ کا ہے۔ یہ وہی اُناؤ ہے جہاں کی ایک وحشتناک واردات نے فروری ۲۰۲۲ء میں ملک کے ہر امن و انصاف پسند شہری کا سر شرم سے جھکا دیا تھا۔ اب جو واردات انجام دی گئی ہے یہ اُناؤ کے اُسی گھر اور اُسی مظلومہ سے متعلق ہے۔ فروری ۲۰۲۲ء کی  واردات آبروریزی کا دلخراش سانحہ تھا۔ آبروریزی کی وجہ سے متاثرہ اور مظلوم بچی (جس کی عمر اُس وقت صرف بارہ سال تھی) حاملہ ہوگئی تھی۔ اب اُس بچی کی بچی کم و بیش چار ماہ کی ہے۔ آبروریزی کے کیس میں  گرفتار شدہ تین لوگوں میں سے دو کو ضمانت پر رِہائی ملی تو وہ دیگر افراد کے ساتھ مظلومہ کے گھر پہنچے۔ اطلاعات کے مطابق اُنہوں نے  افراد خانہ پر سمجھوتہ کرلینے کیلئے دباؤ ڈالا۔ ظاہر ہے کہ اتنے بڑے اور سنگین کیس میں سمجھوتہ کیسے ممکن تھا۔ اہل خانہ نے انکار کیا تو ضمانت پر چھو‘ٹے ہوئے بدمعاشوں نے مظلوم لڑکی اور اُس کی ماں کو مارا پیٹا اور اُن کے گھر کو آگ لگا دی جس کے نتیجے میں دو بچے جھلس گئے جن کا علاج جاری ہے۔ 
 کیا یہی لاء اینڈ آرڈر ہے؟ یو پی کی پولیس کی واہ واہی گاہے بہ گاہے ہوتی رہتی ہے۔ زیادہ دن نہیں ہوئے جب گزشتہ ماہ مارچ میں وزیر اعلیٰ یوگی نے بڑے فخریہ انداز میں کہا تھا کہ یوپی پولیس نے، پولیس کے بارے میں عوام کے تصور کو بدل دیا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو ممکن ہے ہم غلطی پر ہوں اور جالون یا اُناؤ کو یوپی کا حصہ سمجھ رہے ہوں!مگر ہم ہی نہیں ہر خاص و عام گواہ ہے کہ جالون بھی یوپی میں ہے اور اُناؤ بھی یوپی کا حصہ ہے۔ ہر خاص و عام اس بات کا بھی گواہ ہے کہ نظم و نسق کے تعلق سے یوپی سرکار کے چاہے جو دعوے ہوں، زمینی حقیقت کچھ اور ہے جسے تشویشناک کہنا بھی صورت حال کی سنگینی کو واضح کرنے کیلئے کافی نہیں     ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK