Inquilab Logo

معاشی دوڑ میں کون کتنا آگے، کون کتنا پیچھے؟

Updated: December 03, 2023, 8:59 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

اپنی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لینا اور اپنا احتساب کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اسی طرح ہم آئندہ کا روڈ میپ تیار کرسکتے ہیں ورنہ حقائق سے چشم پوشی بھی آسان ہے اور زبانی جمع خرچ تو اس سے بھی زیادہ آسان۔

economy
معاشیات

۱۹۹۰ءمیں یعنی ۳۳؍ سال قبل ہندوستان کی فی کس آمدنی ۳۶۷؍ڈالر تھی جبکہ چین کی ۳۷؍ ڈالر۔ ماضی میں یہی ایک وقت تھا جب ہم چین کے آگے تھے۔ غور کیجئے چین ہندوستان سے نسبتاً پیچھے تھا۔ یہ تقریباً تبھی کی بات ہے جب دونوں ممالک اس مرحلے میں داخل ہوئے تھے جسے عالم کاری یا عالمگیریت کہا جاتا ہے۔ لیکن  عالم کاری کی وجہ سے ہم وہاں نہیں پہنچے جہاں چین پہنچ گیا۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں چین ۱۱ء۷؍ فیصد کی رفتار سے بڑھا، تب ہم ۵ء۶؍ فیصد پر تھے۔ ۲۰۰۰ء کی دہائی میں وہ (چین) ۱۶ء۵؍ فیصد پر پہنچا تب ہم ۶ء۵؍ فیصد پر تھے۔ اس کے بعد ۲۰۱۰ء میں اُس نے  ۸ء۸؍ فیصد کی رفتار سے پیش رفت کی اور ہماری رفتار ۵ء۱؍ فیصد کی تھی۔ چین میں ہماری دلچسپی زیادہ ہونی چاہئے کیونکہ چین کی آبادی ہماری آبادی کی طرح زیادہ ہے اور وہ بھی ایشیائی ملک ہے جیسا کہ ہم ہیں۔ چین میں ہماری دلچسپی اس لئے بھی ہونی چاہئے کہ ایک وقت میں وہ بھی اُتنا ہی غریب تھا جتنا کہ ہم تھے۔ عالمی بینک کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۶۰ء میں ہندوستان کی فی کس آمدنی ۸۲؍ڈالرجبکہ چین کی فی کس آمدنی ۸۹؍ ڈالر تھی۔ ۱۹۷۰ء میں ہم اور چین میں زیادہ فرق نہیں تھا، ہم ۱۱۲؍ڈالر کی فی کس آمدنی کے حامل تھے جبکہ چین ۱۱۳؍ ڈالر پر تھا۔ ۱۹۸۰ء میں ہماری فی کس آمدنی ۲۶۶؍ ڈالر تھی اور چین ہم سے پیچھے جانے کے بعد ۱۹۴؍ ڈالر پر تھا۔ ۲۰۰۰ء میں ہم ۱۳۵۷؍ ڈالر پر تھے جبکہ چین ہم سے بہت آگے نکل کر ۴۴۵۰؍ ڈالر پر پہنچ چکا تھا۔ ۲۰۲۲ء میں جب ہندوستان ۲۳۸۸؍ ڈالر کی فی کس آمدنی پر پہنچا تب چین کئی لمبی چھلانگیں لگا کر ۱۲۷۲۰؍ ڈالر پر پہنچ چکا تھا۔ ۱۵؍ فیصد کی شرح نمو ایک بڑا معرکہ ہے جسے ہم کبھی سر نہیں کرسکے لیکن درج ذیل تین ممالک اس ہدف کو پانے میں نہ صرف کامیاب رہے بلکہ مستقل مزاجی کے ساتھ کئی سال اس پر قائم رہے اور غربت سے نجات پانےمیں کامیاب ہوئے۔ وہ تین ممالک کون سے ہیں آئیے جائزہ لیں۔
 جاپان،۱۹۶۰ء کی دہائی میں ۱۳ء۷؍ فیصد کی رفتار سے آگے بڑھ کر ۱۹۷۰ءمیں اُس مقام پر پہنچ گیا جہاں اِس وقت ہم ہیں یعنی ۲۰۵۶؍ڈالر کی فی کس آمدنی پر۔ اس کے بعد کی دہائی (۱۹۸۰ء) میں اس کی معیشت ۱۶؍ فیصد کی رفتار سے بڑھی اور ۹۴۶۳؍ ڈالر کی فی کس آمدنی پر پہنچ گئی۔ اس کے بعد کی چار دہائیوں میں اس کی شرح نمو کا اوسط ۳ء۵؍ فیصد تھا جس کےسبب وہ ۳۹؍ ہزار ڈالر کی فی کس آمدنی کا حامل ہوگیا۔ 
 دوسرا ملک ہے جنوبی کوریا۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۰ء کی دہائی کے دوران یہ ملک ۵ء۸؍ فیصد کی رفتار سے آگے بڑھا۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۰ء کی دہائی کے دوران اس کی رفتار ۲۰؍ فیصد سالانہ تھی۔ اس کے بعد کی دہائی میں اس کی شرح نمو ۱۴ء۴؍ فیصد تھی۔ ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۰ء کے درمیان اس کی پیش رفت کا اوسط ۶ء۳؍ فیصد تھا جبکہ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۰ء تک ۶ء۵؍ فیصد۔ اس کے بعد کی دہائی میں (۲۰۲۰ء تک) اس کی رفتار اوسطاً ۳؍ فیصد رہی اور اس کارکردگی کے سبب وہ ’’ترقی یافتہ‘‘ملک کی حیثیت کو پا چکا تھا۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں اس ملک یعنی جنوبی کوریا کی فی کس جی ڈی (ڈالر میں) ہماری فی کس جی ڈی پی کا دو گنا تھی۔ آج پندرہ گنا زیادہ ہے۔ 
 اُس وقت سے جب مذکورہ تینوں ممالک ایک ہی درجے اور مقام پر تھے تب سے لے کر اب تک یہ ممالک دو عددی شرح نمو سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم کبھی اُس رفتار کو نہیں پا سکےاسی لئے ہم اُن تین ممالک یعنی چین،جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ شمار نہیں کئے گئے۔ اسی لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس شمار میں ہیں؟
 ورلڈ بینک کم آمدنی والے ملکوں میں اُنہیں شمار کرتا ہے جن کی فی کس جی ڈی پی ۱۰۳۶؍ ڈالر سے ۴۰۴۵؍ڈالر کے درمیان رہتی ہے (۲۲۰۰؍ڈالر پر ہونے کے سبب ہمارا شمار نچلی متوسط آمدنی والے ملکوں میں کیا گیا۔ ۲۰۰۸ء سے ہم وہیں پر ہیں جب ہم نے ۱۰۰۰؍ڈالر کی فی کس آمدنی کاہدف پار کیا تھا)۔ متوسط آمدنی والے ملکوں میں جو نچلی سطح پر ہیں (ہائر مڈل انکم) وہ ایسے ممالک ہیں جن کی فی کس قومی آمدنی ۴۰۰۰؍ڈالر سے ۱۲۳۰۰؍ڈالر کے درمیان ہوتی ہے۔ چین اس سے آگے بڑھ گیا ۔ ۲۰۲۱ء میں وہ ۱۲۵۵۶؍ ڈالر پر تھا۔ اس سے زیادہ جن ملکوں کی آمدنی ہوتی ہے وہ زیادہ آمدنی والے (ہائی انکم) ممالک کہلاتے ہیں۔
 پچھلی چھ دہائیوں میں ہماری شرح نمو کا اوسط ۵ء۰۲؍ فیصد رہا ہے۔ ۲۰۱۴ء کے بعد سے ہماری گروتھ اوسطاً ۵ء۰۵؍ فیصد ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ خواہ ہندوستان نہرو کے سوشلزم کے ساتھ خود کو متعارف کرائے یا لائسنس راج کے دور میں داخل ہو یا عالم کاری کو گلے لگائے، ہم آگے نہیں بڑھ پائے ہیں۔
 ہرچند کہ بنگلہ دیش فی کس جی ڈی پی کے معاملے میں ہندوستان سے تھوڑا بہت آگے ہے مگر یہ بات ماننی پڑے گی کہ بنگلہ دیشی اپنی معاشی ابتری کے دور سے باہر نکل چکے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، ۱۹۶۰ء کی دہائی میں اس کی کارکردگی ہم سے بہتر تھی۔ وہ اوسطاً ۷ء۲۵؍ فیصد کی شرح سے آگے بڑھ رہا تھا (۱۹۶۱ء تا ۱۹۷۰ء)۔ اس دوران دو سال (۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۰ء ایسے گزرے جب اس کی شرح نمو ۱۰؍ فیصد تھی۔ لیکن آج پاکستان فی کس جی ڈی پی کے معاملے میں بنگلہ دیش سے پیچھے ہے اور سب صحارا افریقہ سے بہت دور نہیں ہے جسے دُنیا کا سب سے غریب خطہ قرار دیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۱ء سے ۲۰۲۰ء کے درمیان پاکستان کی جی ڈی پی ۳ء۷؍ فیصد کی رفتار پر رہی جو عالمی اوسط (۲ء۳۸ فیصد) سے بہرحال زیادہ تھی۔
 عالمی فی کس جی ڈی پی ۱۲۲۶۲؍ڈالر ہے۔ چین اس اوسط سے تھوڑا آگے ہے جبکہ بنگلہ دیش، ہندوستان اور پاکستان اس کا پانچواں حصہ ہیں۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں بھی ہم عالمی اوسط سے کافی پیچھے تھے۔ تب عالمی اوسط ۴۵۹؍ڈالر تھا، ہم ۸۲؍ڈالر پر تھے۔ ان حقائق کو ہم تسلیم کرنا چاہیں تو اپنا ہی فائدہ کرینگے اور اگر نہ کرنا چاہیں تو زبانی جمع خرچ کے تحت کہنے سننے کیلئے بہت کچھ ہے ۔n 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK