• Sat, 06 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سیاسی محاذ پر مسلمان اتنا بے اثر کیوں ؟ اب کیا تدبیر ہو؟

Updated: December 06, 2025, 4:34 PM IST | Anis Lal Khan | Jalgaon

طویل بحث کے متقاضی اس موضوع کی مناسبت سے ہر چند کہ یہ مضمون مختصر ہے مگر اس میں کچھ اہم اشارے موجود ہیں۔

Despite the increase in the Muslim population, educational development, and business activity, this class is not given a decisive position. Picture: INN
مسلمان آبادی میں اضافہ، تعلیمی ترقی اور کاروباری سرگرمی وغیرہ کے باوجود اس طبقے کو فیصلہ کن حیثیت نہیں دی جاتی۔ تصویر:آئی این این

جمہوریت میں ہر شہری کی آواز نہ صرف اہم سمجھی جاتی ہے بلکہ اقتدار کا توازن بھی اسی آواز کے گرد قائم ہوتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان، جو کبھی سیاسی اثر و رسوخ، دانش اور تاریخی قیادت کا حامل تھا، موجودہ سیاسی منظرنامے میں ایک خاموش اور غیر مؤثر تماشائی بنتا جا رہا ہے۔ سیاسی محاذ پر کھڑا مسلمان نہ صرف بے توجہی کا شکار ہے بلکہ اس کی اجتماعی قوت کو بھی ایسے منتشر کر دیا گیا ہے کہ وہ نہ فیصلہ کن ووٹ بن رہا ہے، نہ کسی پارٹی کی ترجیح۔
سرکار بنانے میں مسلمانوں کی حیثیت کیوں ختم ہوتی جا رہی ہے؟چند دہائیوں میں سیاسی جماعتوں نے اپنا بیانیہ بدل لیا ہے۔ جس ووٹ بینک کو کبھی طاقتور سمجھا جاتا تھا، آج اسی کے بارے میں کھلے عام کہا جاتا ہے کہ”ہمیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں۔“ یہ جملہ محض سیاسی بیان نہیں، بلکہ ایک ایسے ذہنی رجحان کی علامت ہے جس نے مسلمانوں کو انتخابی نقشے سے تقریباً بے دخل کر دیا ہے۔ 
مسلمان آبادی میں اضافہ، تعلیمی ترقی، کاروباری سرگرمی اور شہری آبادی میں کثرت ، ان سب کے باوجود اس طبقے کو فیصلہ کن حیثیت نہیں دی جاتی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی منظم آواز، اجتماعی لائحۂ عمل اور متحدہ سیاسی حکمت ِ عملی قائم نہیں ہو سکی۔ نتیجتاً، سیاسی جماعتیں ان کی نااتفاقی، اندرونی کمزوری اور منتشر ووٹنگ پیٹرن سے فائدہ اٹھانے لگیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب کسی طبقے کی آواز کے پیچھے ایک مضبوط قیادت نہ ہو تو وہ ووٹ بے معنی ہو جاتا ہے۔ ووٹ معتبر ہے، مگر اس کا استعمال بامقصد ہونا چاہئے۔ بدقسمتی سے مسلمان ووٹ اکثر خوف، جذبات یا تقسیم شدہ فیصلوں کی بنیاد پر ڈالا جاتا ہے، جس سے نہ صرف ووٹ بکھر جاتا ہے بلکہ سیاسی حیثیت بھی کم ہوتی ہے۔ آج سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیوں میں مسلمانوں کو شامل کیے بغیر بھی انتخاب جیتنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان بطور سیاسی برادری اپنی طاقت منوانے میں ناکام رہے ہیں۔ افسوس کہ ایک بار حالات بدلے تو بدلتے ہی چلے گئے ۔
مسلمانوں کے مسائل کا سب سے بڑا سبب قائدین کے فقدان میں چھپا ہے۔ قوم میں ایسے رہنما نہ ہونے کے برابر ہیں جو دور اندیشی، سیاسی حکمت اور عوامی اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔ کچھ چہرے ضرور موجود ہیں مگر یا تو وہ کمزور پلیٹ فارم سے وابستہ ہیں یا پھر ان کی آواز اپنی ہی برادری تک محدود رہتی ہے۔
قیادت کا بحران صرف افراد کی کمی نہیں ہے بلکہ یہ ایک فکری بحران بھی ہے۔ نئی نسل سیاست کو ناپسندیدگی، خطرہ یا ناکامی کی علامت سمجھتی ہے، نتیجتاً سیاسی میدان خالی ہوتا جا رہا ہے۔ جس جگہ خالی پن ہو وہاں دوسروں کی حکمتِ عملی غالب آ جاتی ہے، اور یہی آج ہو رہا ہے۔
مسلمان سیاسی طور پر پیچھے کیوں رہ گئے؟
(۱) اتحاد کی کمی  ووٹ بکھر جاتا ہے، نتیجے میں سیاسی اثر کم ہو جاتا ہے۔
 (۲)سیاسی تعلیم کی کمی  نوجوان کو معلوم ہی نہیں کہ سیاست اسکے مستقبل سے کیسے جڑی ہے۔
 (۳)قیادت کی عدم موجودگی  مضبوط، سمجھدار اور مؤثر رہنماؤں کی کمی۔
 (۴)خوف اور دفاعی سیاست مسلمان ہمیشہ ردعمل کی سیاست کرتے ہیں، کبھی ایجنڈا ترتیب نہیں دیتے۔
(۵)تنظیم سازی کا فقدان کوئی مضبوط قوم ہمیشہ تنظیم کے سہارے اٹھتی ہے، صرف جذبات کے سہارے نہیں۔
کیا کرنا چاہئے؟  اگر مسلمان اپنی سیاسی حیثیت بحال کرنا چاہتے ہیں تو انہیں درج ذیل چند بنیادی اصول اپنانا ہوں گے:
نئے ،قابل  اور باصلاحیت نوجوانوں کو سیاست میں لانا ہوگا۔
مضبوط تنظیمیں، تھنک ٹینکس اور کمیونٹی ادارے قائم کرنا ہوں گے۔
ووٹ کو شعور کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا۔
مستقل، باوقار اور دلیر قیادت پیدا کرنا ہوگی۔
اپنی آواز کو صرف احتجاج تک محدود رکھنے کے بجائے پالیسی اور نظام سازی تک لے جانا ہوگا۔
سیاسی محاذ پر کھڑا مسلمان آج بے توجہی اور بے وزنی کی جس کیفیت کا شکار ہے، وہ وقتی نہیں بلکہ اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والی صورتحال ہے۔ اگر مسلمان اس زوال کو سنجیدگی سے نہ لیں تو آنے والے برسوں میں وہ صرف شکایت کرنے والی قوم رہ جائیں گے، لیکن اگر یہی قوم متحد ہو جائے، باشعور ہو جائے ، حکمت ِ عملی اور دور اندیشی کے ساتھ حقیقی قیادت کھڑی کر لے تو سیاسی نقشہ بدلتے دیر نہیں لگے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK