Inquilab Logo

مراٹھی سے اُردو ترجمہ کی روایت کیوں کمزور ہو گئی ہے؟

Updated: April 17, 2023, 2:18 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

معروف ترجمہ نگاروں کے مطابق بہت سے ادبی رسائل کا بندہو جانا ، نئے ادیبوں کا اس میدان سے دور رہنا اور حوصلہ افزائی کی کمی کے سبب یہ روایت دم توڑ رہی ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این

 ترجمہ کا فن نیا نہیں ہے۔قدیم زمانہ سے رائج ہےکیونکہ اس کی ضرورت ہر زمانہ  اور ہر دور میں محسوس کی جاتی رہی ہے ۔ادبی تخلیقات کا دیگر زبانوں میں ترجمہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس طرح لوگ ایک دوسرے کے عقائد،مذاہب ،رسم و رواج اور تہذیب و تمدن سے واقف ہو سکتے ہیں ۔ مختلف زبانوں کے شاہکاروں کو  دوسری زبانوں میں ترجمہ کرکے ہی ایک دوسرے کی روایات  سے واقف ہوا جاسکتا ہے۔ دراصل اس طرح کا ادبی تبادلہ ساری دنیا کے انسانوں کے درمیان آپسی رواداری اور بھائی چارگی کو بڑھانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔یہ بہت ممکن ہے کہ ترجمہ کرتے ہوئےکسی زبان کی اپنی خصوصیا ت، لطافت اورچاشنی کو قائم رکھنامشکل مرحلہ ہو لیکن یہ وہ صنف ادب ہے جس سے قومی یکجہتی یا بین الاقوامی یکجہتی کو بےحد فروغ حاصل ہوگا۔ ہندوستان میں بھی ترجمہ کا میدان کافی وسیع ہے۔ یہاں ماضی قدیم سے دیگر زبانوں کے فن پاروں کو اپنی زبان میں ڈھالنے کا کام بڑے ذوق و شوق اور تندہی سے کیا جاتا رہا ہے۔عربی اور فارسی سے اردو یا ہندی میں ترجمہ ، انگریزی سے ہندی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کا کام اب بھی جاری ہے۔ اس فہرست میں مراٹھی ادب  کےاردو ادب میں ترجمہ کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ۱۵؍ سے ۲۰؍ سال قبل تک  یہ نہایت مضبوط روایت رہی ہے۔ مراٹھی ادب کے نمائندہ فکر پاروں ، ناولوں ، ڈراموں، نظموں ، افسانوں اور شاعری کو پروفیسر عبدالستار دلوی، سلام بن رزاق ، خالد اگاسکر ، یونس اگاسکر ، قاضی مشتاق اورڈاکٹر رام پنڈت جیسے سنجیدہ فکر رکھنے والے ادیبوں نے اردو کے قالب میں ڈھالنے کا بڑی رفتار اور زور شور سے کیا۔ اس فہرست میں وقار قادری ، قاسم ندیم اور انجم عباسی بھی شامل ہیں۔ ان افراد نے مراٹھی اور اردو زبانوں کے ادب کو نہ صرف قریب لانے کی کوشش کی بلکہ دونوں معاشروں میں مشترکہ روایات کو فروغ دیتے ہوئے قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی سمت میںبھی کام کیا لیکن ادھر کچھ برسوں میں ادبی تراجم کی رفتار دھیمی پڑ گئی ہے۔ اس کی وجوہات پر ہم نے چند معروف ترجمہ نگاروں سے گفتگو کی ۔
 سینئر ادیب  اور ملک کے صف اول کے ترجمہ نگارپروفیسر عبدالستار دلوی جنہوں نے مراٹھی ادب کے سیکڑوں فن پاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کاکام انجام دیا اور جن کے ترجموں پرمبنی پوری ایک کتاب تیار ہو سکتی ہے ، نے بتایا کہ مراٹھی ادب کو اردو میں ڈھالنے کا کام ۶۰ء کی دہائی سے ۲۰۰۰ء کی دہائی کے درمیان جس رفتار سے ہوا  اب وہ دھیمی پڑ گئی ہے۔اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب ترجمہ نگار بہت کم رہ گئے ہیں۔ لوگوں میں دولسانی ذوق بھی کم ہو گیا ہے۔ ماضی میں جس طرح سے ترجمہ کی ترغیب دینے کیلئے تحریک چلائی جاتی تھی اور ایک دوسرے کو اس کام کے لئے راغب کیا  جاتا تھا اب وہ مفقود ہے۔ پروفیسر دلوی کے مطابق ترجموں کے میدان میں اب بھی بہت کام باقی ہے  اور اگر نیا خون اس میں شامل کرلیا جائے تو اسے دوبارہ رفتار مل سکتی ہے۔
  مترجم و ادیب وقار قادری، جن کی حال ہی میں وجے تینڈولکر کے ۳؍ مشہور ڈراموں کے ترجمہ پر مبنی کتاب منظر عام پر آئی ہے ، نے مراٹھی سے اردو کے ترجمہ کم ہوجانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ہم ترجمہ کریں بھی تو کسے بھیجیں؟ اردو کے ادبی رسالے بند ہو رہے ہیں۔جو رسالے باقی ہیں وہاں افسانوں اور شاعری کو فوقیت دی جارہی ہے۔ ایسے میں ہم ترجمے کریں بھی تو کس لئے؟ ‘‘ وقار قادری نے مزید کہا کہ ’’کچھ سال پہلے تک ترجمہ نگاری  کے لئے نہ صرف حوصلہ افزائی ہوتی تھی بلکہ ترجمہ نگار کا خرچ بھی اس میں نکل جاتا تھا ۔ اب نہ تو حوصلہ افزائی ہے اور نہ خرچ نکل پاتا ہےبلکہ ریاستی سطح پر اردو اکیڈمی ترجمہ نگاری کے لئے ’سیتو مادھو رائو پگڑی ‘ ایوارڈ دیتی تھی  وہ بھی کئی برس سے نہیں دیا گیا ہے ۔ ایسے میں ترجمہ نگاری کو کب تک برقرار رکھا جاسکے گا اور اس میں نیا خون کیسے لایا جائے گا ؟ ‘‘
 معروف مترجم و افسانہ نگار قاسم ندیم نے بھی یہ اعتراف کیا کہ مراٹھی  ادب کو اردو میں ڈھالنے کا کام اب اس رفتار سے نہیں ہو رہا ہے جیسا پہلے ہوتا تھا لیکن کام بہر حال ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے دور میں دیگر زبانوں کا ادب پڑھنے کے رجحان میں اضافہ ہونا چاہئے تھا کیوں کہ سوشل میڈیا کی مدد سے یہ آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہی سمجھ میں آتی ہے کہ دیگر زبانوں کے ادب میں کیا شائع ہو رہا ہے اس بارے میں جاننے کی للک بہت کم ہو گئی ہے۔ قاسم ندیم کے مطابق متعدد اردبی رسالوں کا بند ہونا بھی اس روایت کے کمزور ہونے کا سبب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادبی رسالو ں کے مدیران  مترجمین سے ہمیشہ رابطے میں رہتے تھے اور اس با ت پر آمادہ کرتے تھے کہ کچھ اچھے فن پارے جو مراٹھی میں شائع ہوئے ہیں ان کا ترجمہ اردو کے قارئین کے لئے کردیا جائے۔ قاسم ندیم نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی کہ ماضی میں بڑے ادیب جہاں ادب اطفال تخلیق کرنا باعث افتخار سمجھتے تھے وہیں وہ دیگر زبانوں سے ترجمہ کرنے کی بھی اہمیت جانتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
 سینئر ترجمہ نگار انجم عباسی نےکہا کہ ’’ ترجموں کی رفتار میں دھیما پن آگیا ہے کیوں کہ بہت سے رسالےبند ہو گئے ہیں اور جو جاری ہیں ان میں ترجمہ کے تعلق سے کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہے۔ ادبی رسالے ترجموں کا احترام رہے ہیں کیوں کہ ان کے مدیران میں یہ ذوق تھا کہ وہ دیگر زبانوں کے ادب میں کیا ہورہا ہے اس سے اردو کے قارئین کو بھی واقف کروائیں۔اب  مشکل سے کوئی محقق ابھرتا ہے تووہ اس جانب توجہ دیتا ہے ورنہ سلام بن رزاق،  یونس اگاسکر ، پروفیسرعبدالستار دلوی اور وقار قادری جیسے ناموں کے بعد اب کوئی نام دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔‘‘ انجم عباسی نے اس انحطاط کا ایک بڑا سبب یہ بھی بیان کیا کہ مراٹھی داں اور اردو داں افراد کے بچے اب انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔آپ صرف اسی بات سے اندازہ لگالیں کہ مستقبل میں ہمیں اپنی زبان کے قارئین ملنا مشکل محسوس ہوگا ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK