فرانس میں افریقی اور عرب نسل کے شہریوں کے دلوں میں ریاست کے متعصبانہ سلوک، پولیس کی زیادتیوں اور معاشی محرومیوں کے سبب کئی دہائیوں سے غم و غصے کا جو لاوا پک رہا تھا وہ ۲۷؍ جون کو ناہیل کے قتل سے پھٹ پڑا اور پورا ملک اس کی لپیٹ میں آگیا۔ حکومت اور پولیس کے خلاف اس طرح کی عوامی محاذآرائی پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔
فرانس ایک بار پھر جل رہا ہے۔راجدھانی پیرس سمیت ملک کے تمام شہروں میں پر تشدد مظاہرے ہورہے ہیں اور بلوائی پولیس اسٹیشنوں، ٹاؤن ہالز،دکانوں اور اسکولوں کو نذر آتش کررہے ہیں۔ سرکاری تنصیبات کو ہی نہیں نجی املاک اور گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پورے فرانس میں تخریب کاری، تشدداور تباہی کا ننگا ناچ ہورہا ہے۔ چاروں طرف بد امنی اور انارکی پھیل رہی ہے۔ شکر ہے کہ غضبناک مظاہرین نے اتنے بڑے پیمانے پر آتشزنی،توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کرنے کے باوجود، قتل و غارت گری کا بازار گرم نہیں کیا ہے اور نہ ہی پولیس کے ہاتھوں بلوائیوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔میں پیر کو جب یہ کالم لکھ رہا ہوں فرانس کے ہنگاموں کو چھ دن گذر چکے ہیں اور ۴۰؍ہزار سے زیادہ پولیس اہلکار تعینات کرنے کے باوجود ایمینوئیل میکرون حکومت حالات پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔
ہنگامہ آرائی پچھلے منگل کو شروع ہوئی جب پیرس کے مضافات میں نانتیرے قصبے میں ٹریفک پولیس نے ایک سترہ سالہ ناہیل نام کے لڑکے کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ پہلے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ فرضی کہانی گڑھی گئی کہ اگر پولیس نے فائرنگ نہ کی ہوتی تو ناہیل پولیس افسر کو گاڑی سے کچل دیتا لیکن بھلا ہو موبائل کیمرے کی ایجاد کا جس میں پورا واقعہ کسی نے قید کرلیا اور پولیس کی جعلسازی کا پردہ فاش کردیا۔ پولیس افسر پہلے ناہیل کے سر میں گولی ماردینے کی دھمکی دیتا ہے اور دوسرے لمحے گولی ماردیتا ہے۔ پولیس کی درندگی کا ثبوت وائرل ہوتے ہی پورے ملک میں ہیجان برپا ہوگیا۔ لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے لگے؛ پولیس کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپیں ہونے لگیں اور بہت جلد پورے ملک میں بدامنی پھیل گئی۔
یہ ہنگامہ آرائی پولیس کے ہاتھوں ایک فرد واحد کی ہلاکت کا ردعمل نہیں ہے۔ فرانس میں افریقی اور عرب نسل کے شہریوں کے دلوں میں ریاست کے متعصبانہ سلوک، پولیس کی زیادتیوں اور معاشی محرومیوں کے سبب کئی دہائیوں سے غم و غصے کا جو لاوا پک رہا تھا وہ ۲۷؍ جون کو ناہیل کے قتل سے پھٹ پڑا اور پورا ملک اس کی لپیٹ میں آگیا۔ حکومت اور پولیس کے خلاف اس طرح کی عوامی محاذآرائی پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ ۲۰۰۵ء میں فرانس میں پولیس کے ظلم سے بچنے کی کوشش میں دو نوخیز لڑکوں کی موت ہوجانے کے بعد اس طرح کے پرتشدد احتجاجات کا سلسلہ تین ہفتوں تک چلتا رہا تھا۔ایک فرنچ اسکالر کے مطابق یہ بلوے نسلی اقلیت کے دبے کچلے لوگوں کا ناانصافی اور ریاستی جبر کے خلاف پیدا ہوئی برہمی کا نتیجہ ہیں۔ احتجاجی سمجھتے ہیں کہ ریاست اور اس کے مختلف ادارے ہی ان کے مصائب کے لئے ذمہ دار ہیں اس لئے وہ ریاست اور خصوصاً پولیس کے خلاف محاذ آرائی کررہے ہیں۔
فرنچ پولیس کاسیاہ فام اور عرب نژاد نسلی اقلیتوں کے تئیں معاندانہ رویہ رہا ہے۔ ۲۰۱۷ء میں بنائے گئے ایک قانون نے جب سے پولیس کو آتشیں اسلحوں کے بے دریغ استعمال کا اختیار دے دیا، پولیس کی زیادتیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیگ آف ہیومن رائٹس کے صدرکے مطابق پولیس سمجھتی ہے کہ اس نئے قانون سے اسے ’’قتل کرنے کا لائسنس‘‘مل گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں نے کئی بار فرنچ پولیس پر نسل پرستی اور انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگایا ہے۔ ابھی چند ماہ قبل اقوام متحدہ کی نسلی تعصب مخالف تنظیم نے ’’غیر مناسب طریقے سے چند اقلیتوں کو ٹارگٹ‘‘کرنے کے لئے فرانس کے سیاسی رہنماؤں کی نسل پرستانہ تقریروں اور پولیس کے شناختی چیکنگ کی مذمت کی تھی۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم کے ترجمان نے ناہیل کی موت پر دیئے گئے ایک بیان میں کہا کہ ’’فرانس کے لئے یہ موقع ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود نسل پرستی اور تعصب کے ایشوز پر سنجیدگی سے توجہ دے۔‘‘
اپنی پیش رو حکومتوں کی طرح میکرون حکومت بھی نسل پرستی اور شہریوں کے ساتھاامتیازی سلوک کے ہر الزام سے انکار کررہی ہے۔ مانا جاتا ہے کہ فرانس کی ریاست colourblind ہے یعنی وہ جلد کی رنگت دیکھ کر کسی شہری کے ساتھ اچھا یا برا سلوک نہیں کرتی ہے۔ لفظ ’’نسل‘‘ پورے ملک میں شجر ممنوعہ ہے۔ پانچ سال قبل قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے آئین سے لفظ ’’نسل‘‘ یہ کہہ کر نکال دیا کہ اس متروک لفظ کی ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔فرانس میں نسل کی بنیاد پرڈیٹا بھی دستیاب نہیں ہے مثلاً مسلمانوں یا سیاہ فام شہریوں کی آبادی کتنی ہے اس کا کوئی سرکاری ریکارڈ نہیں ہے۔
مساوات اور سیکولرزم فرانس کی دیرینہ روایت رہے ہیں اور آج بھی حکومت کی پالیسی کی بنیاد ہیں۔فرانس نے ہی دنیا کو Liberty, Equality and Fraternity کا انسانی پیغام دیا تھا اورفرانس کو انسانی حقوق کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ لیکن فرنچ پولیس اقلیتوں کے ساتھ زیادتیاں کرتی ہے جس کی وجہ سے پر تشدد احتجاج ہوتے ہیں اور شہروں میں بد امنی پھیل جاتی ہے۔ ۲۰۱۷ء میں صدر منتخب ہونے کے بعد سے صدر میکرون حکومت کا نظام چلانے کے لئے پولیس پر زیادہ سے زیادہ انحصار کررہے ہیں۔ انہوں نے متعدداصلاحات کے خلاف ہونے والے عوامی احتجاج کو کچلنے اور کورونا کے دوران لاک ڈاؤن کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے بھی فرانس کی پولیس کا بہت زیادہ استعمال کیا۔ پولیس پر اس درجہ انحصار کی وجہ سے صدر خودسر پولیس پر لگام لگانے سے خود کو قاصر پارہے ہیں۔فرانس میں ریاستی تعصب کا شکار ہونے والوں کی اکثریت سیاہ فام یا عرب نسل کے افراد کی ہے۔ان لوگوں کے آباؤ اجداد الجیریا اور مراکش جیسے ممالک سے ہجرت کرکے آئے ہوئے تارکین وطن تھے لیکن آج کی نسل کی پیدائش فرانس میں ہوئی ہے۔ انہیں غیر سفید فام کہا جاتا ہے اور ان کی رہائش کے لئے پیرس سمیت فرانس کے تمام بڑے شہروں کے نواح میں بستیاں تعمیر کی گئی ہیں جہاں معاشی طور پر کمزور ان جیسے بہت سے شہری رہائش پذیر ہیں۔ ان بدنصیب باشندوں کی شکایت ہے کہ حکومت اور پولیس ان کے ساتھ غیر مساویانہ اورمتعصبانہ سلوک کرتی ہے۔
ماضی کی طرح اس بار بھی حکومت جلد ہی اس بد امنی اور انتشار پر قابو پالے گی اور پرتشدد مظاہرے بند ہوجائیں گے لیکن جب تک مسئلے کی جڑ کو ختم نہیں کیا جائے گا تب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ پولیس کل پھر کسی بے گناہ شہری کو گولی مارے گی کل پھر نوجوان سڑکوں پر نکل کر تشدد کریں گے؛ کل پھر تھانوں کو جلایا جائے گا کل پھر دکانیں لوٹی جائیں گی۔ ریاست اگر ناانصافی ختم کردے تو بد امنی خود بخود ختم ہوجائے گی۔