کائنات ایک عظیم الشان کتاب کی مانند ہے، جس کا ہر ورق خالق ِ کائنات کی قدرت اور حکمت کا زندہ شاہد ہے۔
EPAPER
Updated: August 16, 2025, 4:48 PM IST | Mohammad Tauqeer Rahmani | Mumbai
کائنات ایک عظیم الشان کتاب کی مانند ہے، جس کا ہر ورق خالق ِ کائنات کی قدرت اور حکمت کا زندہ شاہد ہے۔
کائنات ایک عظیم الشان کتاب کی مانند ہے، جس کا ہر ورق خالق ِ کائنات کی قدرت اور حکمت کا زندہ شاہد ہے۔ سورج کا طلوع وغروب، زمین کا اپنے مدار میں بے خطا گردش کرنا، ستاروں کا شب کے پردے میں گوہر ِ نور کی طرح جھلملانا، فضاؤں کا پُر سکون جمود اور ذرّہ ذرّہ کا بے عیب نظام، یہ سب محض حسنِ ظاہری کے مظاہر نہیں، بلکہ عقل ِ انسانی کو مجبور کرنے والے دلائل ہیں کہ اس کائنات کا ایک صاحبِ شعور اور لامحدود حکمت والا خالق موجود ہے۔
لیکن ایک سوال یہاں اپنی پوری سنجیدگی کے ساتھ اُبھرتا ہے: جب کائنات میں انسان کے سوا بے شمار مخلوقات موجود ہیں تو پھر تکلیف یعنی ذمہ داری اور جواب دہی کا بار صرف اور صرف انسان پر کیوں رکھا گیا؟
مخلوقات کی مراتب اور ادراک کی تقسیم
جتنی بھی مخلوقات ہیں، ان تمام کو، ان کے احساس، ادراک اور قوتِ ارادی کے درجے کے لحاظ سے تین بنیادی طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: جمادات، نباتات اور حیوانات۔
جمادات: پتھر، پہاڑ، دھاتیں یہ احساس اور ادراک سے بالکل خالی ہیں، اس لیے کسی قسم کی ذمہ داری یا تکلیف کے مکلف نہیں۔ ان کی اطاعت، ان کے وجود کی فطرت میں ہے، اور وہ اپنے رب کے حکم سے سرِ مو انحراف نہیں کرتے۔
نباتات: درخت، پودے، فصلیں، یہ محدود احساس اور بنیادی حیات رکھتے ہیں۔ ان کی ذمہ داریاں صرف اپنے ارتقاء، بقا اور خوراک کے حصول تک محدود ہیں۔ حرکت کی آزادی نہ ہونے کے سبب خوراک کا نظام براہِ راست ان کے لئے زمین اور سورج کے ذریعے مہیا کر دیا گیا ہے۔
حیوانات: یہ نسبتاً زیادہ ادراک رکھتے ہیں، حرکت کی آزادی سے مزین ہیں، اس لئے ذمہ داریاں نسبتاً زیادہ ہیں : خوراک کی تلاش، خطرات سے بچاؤ، اور نسل کی بقاء۔ مگر ان سب کا دائرہ حیوانی جبلّت تک محدود ہے، وہ شعوری اور اخلاقی فیصلوں کے مکلف نہیں۔
انسان کی خصوصیت: اکمل ادراک اور ارادہ
انسان اس سلسلے کی آخری اور سب سے ممتاز کڑی ہے۔ اسے صرف احساس نہیں، بلکہ مکمل ادراک عطا کیا گیا ہے۔ وہ نہ صرف یہ جانتا ہے کہ کیا ہے، بلکہ یہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ کیا ہونا چاہئے۔ اس کے پاس قوتِ ارادی ہے جو اسے محض ردِ عمل پر مبنی زندگی سے آزاد کر کے شعوری انتخاب اور اقدار کی پیروی کی صلاحیت دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انسان پر ذمہ داری کا بوجھ بھی کامل رکھا گیا۔ قرآن نے اسی کو ’’تکلیف‘‘ کہا:
’’اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ ‘‘ (البقرۃ:۲۸۶)
قرآن نے اس تکلیف کو ایک اور نام دیا ہے، امانت چنانچہ فرمایا گیا:
’’بیشک ہم نے (اِطاعت کی) امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اس (بوجھ) کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بیشک وہ (اپنی جان پر) بڑی زیادتی کرنے والا (ادائیگئ امانت میں کوتاہی کے انجام سے) بڑا بے خبر و نادان ہے۔ ‘‘ (الاحزاب:۷۲)
اس آیت میں دو الفاظ ظَلُومًا اور جَہُولًا غور طلب ہیں۔
ظلم، عدل کا ضد ہے یعنی عملِ صالح سے انحراف۔ جہل، علم کا ضد ہے یعنی ایمان اور بصیرت سے محرومی۔ سورۂ عصر میں یہ دونوں کمیّاں واضح کی گئی ہیں : ’’ایمان اور اعمالِ صالحہ کے بغیر انسان خسارے میں ہے۔ ‘‘
یہ تمام اوصاف ادراک، احساس اور قوتِ ارادی کسبی ہیں، یعنی ان کا استعمال انسان کے شعوری اختیار پر منحصر ہے۔ یہی اختیار، یہی آزادی اور یہی شعوری فیصلہ سازی کا حق، انسان کو تمام مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔ مگر یہ شرف اپنے ساتھ ایک بھاری قیمت بھی لاتا ہے:جواب دہی۔
اگر انسان کے پاس یہ قوت نہ ہوتی تو ذمہ داری بھی نہ ہوتی۔ اگر ذمہ داری نہ ہوتی تو مقصدِ حیات کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ مگر چونکہ وہ جان سکتا ہے اور چن سکتا ہے، اس لئے اس سے یہ بھی پوچھا جائے گا کہ اس نے کیا جانا اور کیا چنا۔
انسان کا مکلف ہونا محض ایک حکمِ شرعی نہیں بلکہ ایک منطقی و فطری تقاضا ہے۔ ادراک اور ارادہ کی تکمیل، خود بخود ذمہ داری کو لازم کر دیتی ہے۔ گویا مکلف ہونا انسان کا سب سے بڑا شرف بھی ہے اور سب سے بڑی آزمائش بھی۔ یہی آزمائش اور امتحان اسے حیوانی سطح سے بلند کر کے آسمانی پیغام کا امین بناتا ہے، اور یہی مقام اسے فرشتوں سے بھی آگے لے جا سکتا ہے یا پھر حیوانات سے بھی پست کر سکتا ہے۔
اگر انسان کو محض مکلف بنا دیا جاتا، تو اس کی عقل اپنی فطری جستجو اور تدبر کے ذریعے خالقِ کائنات کے وجود تک تو پہنچ سکتی تھی، مگر اس کا سفر ادھورا رہتا۔ وہ یہ تو جان لیتا کہ ایک رب ہے، مگر اس رب کی منشا کیا ہے؟ حیات کا اصل مقصد کیا ہے؟ صحیح و غلط کے قطعی معیارات کیا ہیں ؟یہ سب انسانی عقل اکیلے اپنی محدودیت کے باعث طے نہ کر پاتی۔ اس لئے محض عقل پر بھروسہ کافی نہ تھا۔ ضروری تھا کہ انسان کے پاس ایک کامل اور محفوظ ضابطہ ٔ حیات ہو، اور اس ضابطے کی نہ صرف زبانی تعلیم ہو بلکہ ایک مجسم عملی نمونہ بھی پیش کیا جائے، تاکہ وہ جان سکے کہ علم کو عمل میں کس طرح ڈھالا جاتا ہے۔
یہی وہ مرحلہ ہے جہاں وحی اور نبوت کی ضرورت ایک لازمی تقاضے کے طور پر سامنے آتی ہے۔ وحی آسمانی قانون کا خالص اور محفوظ مآخذ ہے، اور نبوت اس قانون کا زندہ مظہر۔ انبیاء نہ صرف اللہ کے احکام پہنچاتے ہیں بلکہ اپنی زندگی میں ان احکام کی عملی تعبیر بھی پیش کرتے ہیں، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ’’یہ قانون تو محض نظری ہے، اس پر عمل ممکن نہیں۔ ‘‘ یوں اتمامِ حجت مکمل ہو جاتا ہے انسان کو عقل عطا کر کے اس کے ذریعے خالق تک رسائی کا راستہ کھول دیا گیا، اور وحی و نبوت کے ذریعے مکمل ہدایت اور عملی مثال فراہم کر دی گئی۔ اب حجت باقی نہیں رہی؛ ہدایت بھی موجود ہے اور اس پر چلنے کا طریقہ بھی واضح ہے۔ نجات اسی پر کاربند رہنے میں ہے۔