مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نےیکم اکتوبر کو اپنے حلقہ انتخاب بدھنی کے ایک گاؤں میں جمع خواتین کے ہجوم سے کہا کہ ’’آپ کو ایسا بھائی نہیں ملے گا۔‘‘....’’ جب میں چلا جاؤں گا تو مجھے یاد کیا جائے گا۔‘‘
EPAPER
Updated: October 29, 2023, 11:44 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نےیکم اکتوبر کو اپنے حلقہ انتخاب بدھنی کے ایک گاؤں میں جمع خواتین کے ہجوم سے کہا کہ ’’آپ کو ایسا بھائی نہیں ملے گا۔‘‘....’’ جب میں چلا جاؤں گا تو مجھے یاد کیا جائے گا۔‘‘
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نےیکم اکتوبر کو اپنے حلقہ انتخاب بدھنی کے ایک گاؤں میں جمع خواتین کے ہجوم سے کہا کہ ’’آپ کو ایسا بھائی نہیں ملے گا۔‘‘....’’ جب میں چلا جاؤں گا تو مجھے یاد کیا جائے گا۔‘‘ اس کے دو دن بعد، سیہور کے ایک گاؤں میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چوہان نے وہاں جمع لوگوں سے پوچھا کہ ’’مجھے الیکشن لڑنا چاہئے یا نہیں ؟‘‘ خیال رہے کہ تب تک انہیں ٹکٹ نہیں ملا تھا اور خطرہ تھا کہ شاید ٹکٹ نہ بھی ملے۔
۱۶؍ سال سے زیادہ عرصے تک ریاست کی باگ ڈور سنبھالنے والے شخص کی طرف سے یہ دونوں بیانات اس کے عدم تحفظ کے احساس کو اجاگر کرتے ہیں جس سے وہ اپنی پارٹی کے اندر اور باہر اپنے سیاسی وجود سے دوچار ہے۔ چوہان کے تعلق سے ایک بات کہی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسے لیڈر ہیں جو کبھی بھی الیکشن کی گرمی سے پریشان نہیں ہوئے۔درحقیقت، وہ سب سے زیادہ پرسکون اس وقت ہوتے ہیں جب وہ انتظامی فیصلے کرنے کے بجائے عوام کے درمیان ہوتے ہیں ۔ انہوں نے ۲۰۰۸ء اور۲۰۱۳ء میں بی جے پی کو نمایاں فرق سے کامیابی دلائی تھی، جبکہ ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں ان کی پارٹی بہت کم فرق سے ہار گئی تھی۔حالانکہ بی جے پی کو کانگریس سے زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن وہ سیٹوں کی تعداد میں پیچھے رہ گئی تھی۔ کانگریس کو۱۱۴؍ جبکہ بی جے پی کو۱۰۹؍ سیٹیں ملی تھیں ۔ مارچ۲۰۲۰ء میں ، جیوترادتیہ سندھیا نے۲۲؍ کانگریسی ایم ایل ایز کے ساتھ بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ، جس کی وجہ سے کمل ناتھ کی حکومت گر گئی۔اس کے بعد چوہان کو ایک بار پھر تاج پہنایا گیا۔
تاہم ایسا لگتا ہے کہ چوہان کیلئے اس انتخابی موسم میں سیاسی ہوا بدل گئی ہے۔ مثال کے طور پر بی جے پی کی مرکزی قیادت نے اس بار اسمبلی انتخابات پر جس طرح کا کنٹرول رکھا ہے، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ امیدواروں کا انتخاب ہو یا انتخابی حکمت عملی، فیصلے نئی دہلی میں ہی ہوتے ہیں ۔ مرکزی وزراء بھوپیندر یادو اور اشونی ویشنو کو انتخابی تیاریوں کیلئے تعینات کیا گیا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ پارٹی چوہان کو وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کرنے سے کترارہی ہے۔ عوامی جلسوں میں دی جانے والی تقریروں میں بھی ان کا نام کم ہی آتا ہےبلکہ ان کا نام اس فہرست میں بھی نہیں ہے جن کے نام پر ووٹ مانگے جارہے ہیں ۔ اس کی وجہ کیا ہے اور چوہان ان حالات کو اپنے حق میں بھلا کس طرح موڑ سکیں گے؟
پارٹی کے سب سے طویل عرصے تک وزیر اعلیٰ رہنے کا اعزاز چوہان کیلئے۱۶؍ سال حکومت مخالف رجحان کی وجہ سے بوجھ بن گیا ہے۔ بی جے پی کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتی کیونکہ کئی رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سخت مقابلہ ہے بلکہ کانگریس کو سبقت حاصل ہے۔ ان جائزوں میں وزیر اعلیٰ کی مقبولیت بھی کم ہوتی نظر آ رہی ہے۔
انڈیا ٹوڈے پولیٹیکل اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ای) کے تین ماہ قبل جاری کئے گئے ایک نتائج میں ۴۰؍ فیصد لوگوں نے کہا تھا کہ وہ حکومت کے کام کاج سے مطمئن ہیں ، لیکن۲۷؍ فیصد نے کہا تھاکہ وہ ایک حد تک ہی مطمئن ہیں جبکہ۳۲؍ فیصد نے عدم اطمینان کااظہار کیاتھا۔ اسی طرح وزیراعلیٰ کی کارکردگی سے متعلق ایک اور اعداد و شمار کے مطابق۴۰؍ فیصد نے کہا تھا کہ وہ مطمئن ہیں ، ۲۵؍ فیصد نے کہا کہ وہ کسی حد تک ہی مطمئن ہیں جبکہ۳۴؍ فیصد نے واضح طورپر کہا تھا کہ انہیں قطعی اطمینان نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ کے طور پر چوہان کو ان کے حریف کانگریس کے کمل ناتھ سے صرف ایک فیصد زیادہ ووٹ ملا تھا۔ چوہان نے۳۷؍ فیصد نے جبکہ کمل ناتھ کو۳۶؍ فیصد نے پسند کیا تھا۔ کسی بھی موجودہ وزیراعلیٰ کیلئے یہ شرح بہت کم ہے۔یہی سبب ہے کہ بی جے پی چوہان کو آگے کرنے سے خوف زدہ ہے۔