Inquilab Logo

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مسلم پر واویلا کیوں؟

Updated: March 19, 2023, 10:38 AM IST | Mumbai

جس طرح بنارس ہندو یونیورسٹی میں ’ہندو‘ اس تعلیمی ادارے کو ہندو نہیں بناتا، اسی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ’مسلم‘اس ادارے کو مسلم نہیں بناتا۔ یہ یونیورسٹی بھی ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کیلئے بنائے گئے اصولوں ہی پر کام کرتی ہے۔

Aligarh Muslim University
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

کیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی حقیقت میں ’ اللہ میاں‘ کی یونیورسٹی ہے؟ کیا اےایم یو مغلوں کی وراثت ہے؟ کیا اس کے افسران ’بداخلاق کلب‘ کے اراکین ہیں؟ کیا یونیورسٹی کورٹ کو ختم کر دینا ضروری ہے؟ ’ دی پرنٹ کے مضمون ’ اے ایم یو کین بی انڈین نیشنل یونیورسٹی ناٹ ریمین اللہ میاں یونیورسٹی ان اشرا ف ہینڈس‘ کو پڑھنے کے بعد مَیں یہ سوالات پوچھ رہا ہوں جسے ابن خلدون بھارتی نے لکھا ہے۔ 
 ہندوستان میں تعلیم ایک نجات دہندہ طاقت رہی ہے۔یہاں کے قدیم تعلیمی نظام کی شناخت گروکلوں ( یونیورسٹیاں) کی مکمل خود مختاری تھی۔ ہماری قومی تعلیمی پالیسی (۲۰۲۰ء) عمدہ کارکردگی دکھانے والے تعلیمی اداروں کو مزید اختیارات دینے کا اعلان کرتی ہے۔ ایک یونیورسٹی کو اپنے کیمپس میں پوری دنیا کے علوم کو فروغ دینا چاہئے۔ یونیورسٹی کے جمہوری ماڈل میں حکومت کی چوکس نگاہوں کے تحت یونیورسٹی کی شاخوں کو خود مختار بنانے کا تصور دیا گیا ہے۔ 
  اے ایم یو کو این اے اے سی سے ’اے پلس‘ رینک ملا ہے۔ اسلئے یونیورسٹی کے منتظمین کو ’ لوٹس ایٹرس‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے۔ اے ایم یو کو’ اللہ میاں کی یونیورسٹی‘ غلط نیت سے کہا گیا ہے اور یہ آئین کو مسترد کرنے سے کم نہیں ہے۔ فیڈرل لسٹ کی داخلی تعداد ۶۳؍ میں اے ایم یو ، بنارس ہندو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کا تذکرہ پارلیمنٹ کے خصوصی اختیارات کے تحت اداروں کے طور پر کیا گیا ہے۔ درحقیقت آئین ساز اسمبلی نے اے ایم یو کو ایک ’قومی ادارہ‘ تسلیم کیا تھا۔ مان لیتے ہیں کہ ’لفظ‘ مسلم سے کسی کو تکلیف ہے مگر مسلم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ’غدار وطن‘ ہے۔ دہلی میں سینٹ اسٹیفن کالج اور ویلور میں کرسچین میڈیکل کالج جیسے تمام عظیم اقلیتی ادارے حقیقت میں قومی ادارے ہیں۔ بی ایچ یو بھی ’بھگوان‘کی نہیں بلکہ قومی یونیورسٹی ہے جس پر پورے ملک کو فخر ہے۔اے ایم یو کو اللہ میاں کی یونیورسٹی کہنا وزیر اعظم مودی کے ذریعے اے ایم یو کو ’منی انڈیا‘ کہے جانے کے خلاف ہے۔ اس سے یونیورسٹیوں کے معاملے میں حکومت ہند کے ذریعے نبھائی جانے والی تعمیری اور انتہائی اہم کردار کو بھی کمزور کیا گیا ہے۔ 
 صدر جمہوریہ یونیورسٹی کے تمام فیصلوں میں مشاہد کے مرتبہ کے ساتھ اے ایم یو کے ویزیٹر ہیں۔ ان کے ذریعے نامزد شخص سلیکشن کمیٹیوں کا رکن عہدیدار ہوتا ہے۔ ان کی ورکنگ کونسل میں ۳؍ اور کورٹ میں ۵؍ نامزد اشخاص ہوتے ہیں۔ اے ایم یو کے وائس چانسلر کو ’ امیر المومنین ‘ کہنا حکومت اور صدر جمہوریہ کی توہین ہے۔ تمام اسٹاک ہولڈر جیسے طلبہ، اساتذہ، صدر جمہوریہ کے نامزد کردہ اراکین، غیرتدریسی عملہ، اراکین پارلیمان اور ایگزیکٹیو، کونسل اور کورٹ کے ذریعے اے ایم یو کے وائس چانسلر کی تقرری میں حصہ لیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور کورٹ کے ذریعے نامزد کئے گئے افراد کومسترد کرنے کا مکمل اختیار صدر جمہوریہ کے پاس ہے۔ دیگر یونیور سیٹیوں میں ای سی ۲؍ اراکین کو نامزد کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ وائس چانسلروں کے تقرر میں یونیورسٹیوں کا کنٹرول ۶۶؍ فیصد ہوتا ہے۔
  قومی یونیورسٹیوں میں داخلوں میں او بی سی کیلئے ریزرویشن ۲۰۰۶ء میں شروع ہوا تھا ۔ اس لئے ابھی او بی سی طلبہ نہ پروفیسر بنے ہیں نہ ہی پروفیسر بننے کے بعد ان کے پاس ابھی ۱۰؍ سال کا تجربہ ہے جو وائس چانسلر بننے کیلئے ضروری ہے۔ ہندوستانی یونیورسٹیوں کو اپنے کیمپس میں او بی سی طلبہ کی تعداد بڑھانے کیلئےاضافی کام کرنے چاہئیں۔ تقریباً ۹۰۰؍ ہندوستانی یونیورسٹیوں میں دلتوں اور او بی سی وائس چانسلروںکی تعداد ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں اے ایم یو کے ۲؍ وائس چانسلر او بی سی تھے اس لئے اسے اشرافیہ کی یونیورسٹی کہنا حقائق کی رو سے غلط ہے۔ 
 اے ایم یو کو بدکاروں کا کلب کہنا واضح طور پر ہتک عزت کا معاملہ ہے۔ ای سی اور کورٹ میں صدر جمہوریہ ہند کے نامزد کردہ ۸؍ لوگوں کو ’بدکاروں کے کلب ‘ کے اراکین کہنا ان کے وقار کی توہین ہے۔ دیگر یونیورسٹیوں کی طرح اے ایم یو کورٹ ای سی کے ۶؍ اراکین کا انتخاب کرتا ہے۔ ۱۸۰؍ سے زیادہ اراکین میں سے صرف ۶؍ اراکین کو وائس چانسلر اپنی مہربانی سے رکن بنا سکتے ہیں۔ اے ایم یو کورٹ میں ۲۵؍ سابق طلبہ ، ۱۰؍ ڈونیٹر، ۱۴؍ رکن پارلیمان ، صدر جمہوریہ کے نامزد کردہ ۵؍ لوگ، انٹلکچول بزنس سے وابستہ ۱۰؍ نمائندے ، غیر تدریسی عملے کے ۵؍ نمائندے اور ۱۵؍ طلبہ ہیں۔ جب دہلی یونیورسٹی، جواہرلال یونیورسٹی، مدراس یونیورسٹی ، اور کلکتہ یونیورسٹی میں کورٹ؍ سینیٹ کو ختم نہیں کیا گیا ہے تو اے ایم یو میں اسے کیوں ختم کیا جانا چاہئے ؟ یہ سچ ہے کہ اے ایم یو کے کورٹ ،ای سی اور اے سی میں زیادہ تر یونیورسٹی کے ملازمین ہیں۔ لیکن دیگر یونیورسٹیوں کیلئے بھی حکومت کی یہی پالیسی ہے۔
 جے این یو آر ڈیننس ۱۹۶۶ء کی دفعہ ۱۱؍ جے این یو کورٹ کی طرح یونیورسٹی کو اعلیٰ حکام بناتی ہے۔ دفعہ ۱۹؍ (۳) کے تحت اے ایم یو وائس چانسلر کی ہنگامی طاقت اور دیگر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کی ہنگامی طاقت جیسی ہی ہے۔ جے این یو کورٹ بھی ایک وسیع اکائی ہے جس کے تما م ایگزیکٹیو کونسل اراکین اس کے رکن ہیں ۔ اس میں ریکٹربھی ہیں، رکن پارلیمان بھی ہیں، سبھی پریسڈیڈنٹ،سبھی ڈین، سبھی پروفیسر ، اسوسی ایٹ پروفیسر ، اسسٹنٹ پروفیسر ، صنعت، کامرس، لیبر اور زراعت وغیرہ کے ۶؍ نمائندے شامل ہیں۔ اے ایم یو کی طرح دہلی یونیورسٹی کورٹ میں تمام سابق وائس چانسلر رکن کے طور پر ہیں۔ ۱۰؍ سابق طلبہ، طب، قانون، انجینئرنگ وغیرہ جیسے پیشے کے ۱۰؍ لوگوں کو اے ایم یو کورٹ کی طرح منتخب کیا جاتا ہے۔ صنعت کے ۶؍ نمائندے بھی ہوتے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کورٹ، اے ایم یو کورٹ کی طرح ہی ای سی کے ۴؍ اراکین کاانتخاب کرتا ہے۔ کلکتہ یونیورسٹی سینیٹ میں ۱۵؍ طلبہ ہیں، ۵؍ غیر تدریسی عملے کے ملازمین اور ۲۵؍ سابق طلبہ ہیں۔ جبکہ اے ایم یو میں صرف ۱۰؍ ڈونیٹرس کو نمائندگی دی جاتی ہے۔ مدراس یونیورسٹی میں جنہوں نے ۲۰؍ ہزار روپے دان دیئے ہیں وہ یونیورسٹی سینیٹ کے رکن بن جاتے ہیں اور اے ایم یو کی طرح ۲۵؍ سابق طلبہ ہیں۔ مدراس یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ ( ای سی) میں اے ایم یو کی طرح سینیٹ کےذریعے منتخب کئے گئے ۶؍ اراکین ہیں۔ اے ایم یو کا انتظامی خاکہ ویسا ہی ہے جیسا ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کا۔ کوئی یونیورسٹی اپنے کیمپس کو علم گہوارہ تبھی بنا سکتی ہے جب اس میں تمام شعبوں کے لوگ شامل ہوں۔ تمام یونیورسٹیوں کو اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اے ایم یو کو بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کس طرح رواداری ، ترقی پسند اور مخلوط تعلیم کو کار آمد بنا سکے۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK